کئی سال پہلے کسی حادثے میں کافی افراد جاں بحق ہوئے، صحافیوں کے ہتھے
متعلقہ وزیر صاحب چڑھ گئے۔ پریس کانفرنس میں وہ صبر کا دامن تھامے رہے اور
ہر سوال پہ آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ ایک نوجوان صحافی جس نے اس حادثہ کا
شدید صدمہ لیا تھا کسی قدر درشت لہجہ میں پوچھ بیٹھا ۔ ۔ ۔ یہ واقعہ آپ کی
وزارت کے تحت آتا ہے اس حادثہ میں اتنی قیمتی جانوں کا نقصان ہوگیا کچھ
کہیں گے آپ اس بارے میں؟ محترم وزیر کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا انہوں نے
پلٹ کر صحافی پہ سوال داغ دیا ۔ ۔ ۔ آپ کے خیال میں ملک کی آبادی کتنی ہوگی؟
۔ ۔ ۔ صحافی نے محتاط اندازہ لگا کر کہا کہ تقریبا 18 کروڑ تو ہو گی ۔ ۔ ۔
28 افراد 18 کروڑ کا کتنا فیصد بنتے ہیں؟ صحافی کا حساب اتنا تیز نہیں تھا
کہ وہ جواب دے سکتا ابھی وہ گم سم لاجواب ہوئے کھڑا تھا کہ وزیرِ محترم
گویا ہوئے ۔ ۔ ۔ اتنی قلیل تعداد پہ آپ لوگ اتنا شور ڈال رہے ہیں۔ اتنی
آبادی کے ملک میں روز بھی اتنے افراد حادثات میں مر جائیں تو کوئی بڑی بات
نہیں۔
اس سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ بھی ہو چکا ہے۔ ملک سے تیزی سے پڑھے لکھے
افراد کے انخلا پہ جب متعلقہ وزیر سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ
ملک کی اتنی بڑی آبادی کو دیکھتے ہوئے یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے؟
تو کسی منچلے صحافی نے پوچھ لیا ۔ ۔ ۔ جناب آپ کے خیال میں ہمارے ملک کے
اعلٰی تعلیم یافتہ طبقے کا تناسب ملک کی آبادی میں کیا ہوگا؟ ۔ ۔ ۔ وزیر نے
فرمایا یقینا ہم پسماندہ ملک ہیں بہت تھوڑا ہوگا ۔ ۔ ۔ اسی صحافی نے بات
بڑھائی ۔ ۔ ۔ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں؟
۔ ۔ ۔ نہیں نہیں‘ اتنا تو ہوگا وزیر بولے ۔ ۔ ۔ تو آپ کے کہنے کے مطابق
سارا نمک یعنی پڑھا لکھا طبقہ تو باہر جارہا ہے پھر ملک میں کیا رہ جائے گا؟
۔ ۔ ۔ وزیر نے سمجھایا آپ جذباتی ہو رہے ہیں ان لوگوں کے باہر جانے سے ملک
کو فائدہ ہی ہوتا ہے یہ لوگ زرِمبالہ پاکستان بھیجتے ہیں۔
آج میڈیا چیخ رہا ہے کہ پچھلے کچھ ماہ میں دس لاکھ افراد ملک چھوڑ گئے ہیں
۔ ۔ ۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ کسان یا عام مزدور لوگ نہیں۔ یہ وہ سرمایہ دار
اور کاروباری ذہین طبقہ ہے جس کو یہاں نہ اپنی جان کا تحفظ ہے اور نہ مال
کا۔ ان میں وہ صنعت کار بھی شامل ہیں جن کو بجلی اور گیس نہ صرف مہنگی کرکے
بلکہ عنقا کرکے اس قابل ہی نہیں چھوڑا گیا کہ وہ غیر ملکی اشیاء کا مقدار
اور قیمت میں مقابلہ کر سکیں۔ ان میں وہ اعلٰی دماغ بھی شامل ہیں جن کو
ترقیافتہ مملک بغیر سرمایہ اپنے ساتھ لائے بھی ہاتھوں ہاتھ لینے کو تیار
ہیں کیونکہ ہماری حکومت کے یہ ناقابلِ توجہ اور دھتکارے ہوئے لوگ ان
ترقیافتہ مملک کے لئے کسی سرمائے سے کم نہیں۔
پڑھا لکھا ذہین طبقہ اس نظام کو یرغمال بنائے لوگوں کے لئے ہمارے ملک میں
آنے والے سیلابوں کی طرح ہے۔ جب تک یہ ملک میں رہے ان غاصب اور لٹیرے
حکمرانوں اور بیوروکریٹس کے لئے عذاب کی صورت ہوتا ہے یہ لوگ اس قیمتی
میٹھے پانی کو ملک میں سنبھال کر رکھنا گوارا نہیں کرتے کہ کہیں یہاں
زرخیزی نہ آ جائے کہیں اس سے سستی بجلی پیدا ہوکر صنعتی انقلاب نہ لے آئے
اور جب یہ لوگ ملک چھوڑ جاتے ہیں تو یہ اس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے دریا کا
میٹھا اور قیمتی پانی سمندر میں جا گرا ہو۔
ذہنی انخلاء
یاں ہوں گی پھیڑ بکریاں
نظام کا صلہ |