’’انقلاب ‘‘اورــ’’ آزادی‘‘ کا جھانسہ
(Dr Muhammad Ashraf Asif Jalali, )
بِسْمَ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ
الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی
رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
انقلاب اور آزادی دونہایت خوش کن نعرے ہیں جنہیں سنتے ہی انسان ان کی طرف
متوجہ ہوتا ہے مگر انقلاب لانے اور آزادی دلانے والے بہت کم ایسے ہوتے ہیں
جو ان نعروں کو عملی جامہ پہنا سکیں یا ان کے تقاضے نبھا سکیں اور بہت کم
ایسا ہوتا ہے کہ انقلاب اور آزادی کا سلوگن ملّی اور قومی مفادات کا ترجمان
ہو۔
چونکہ انقلاب کا لغوی معنی تبدیلی ہے اس لحاظ سے تو ہر گھڑی میں ہی ایک
انقلاب ہے کوئی لمحہ بھی انقلاب ،تغیر اور تبدیلی کے بغیر نہیں گزرتا۔
کہا جاتا ہے’’ ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں ‘‘مگر اصطلاحی انقلاب کو لانے
اور اس کے آنے میں صدیاں بھی لگ سکتی ہیں ۔پھر یہ بھی ہے کہ تبدیلی دو طرح
کی ہوتی ہے ایک یہ ہے شر کی جگہ خیر آجائے اور دوسری یہ ہے کہ خیر کی جگہ
شر آجائے ۔انقلاب سے مراد شر کی جگہ خیر کو کنٹرول دینا ہو تو یہ ہر دل کی
آواز ہے۔
انقلاب کی طرح آزادی کا لفظ بھی ہر قوم پر ہر مذہب اور ہر طبقے میں بہت
مقبول ہے اس کا عام مفہوم یہ لیا جاتا ہے کہ بندہ کسی کے حکم کا پابند نہ
ہو اپنی مرضی سے جو چاہے کرے۔ آزادی کا لفظ بھی کبھی اچھے اورکبھی برے
مفہوم میں استعمال ہوتا ہے ۔اہل مغرب کے نزدیک آزادی یہ ہے کہ انسان کے لیے
کھلی چھٹی ہو جو چاہے کرے،جو چاہے کھائے ،جو چاہے پیئے اور جہاں چاہے اپنی
خواہش پوری کرے اس میں حلال وحرام کی کوئی تمیز نہ ہو اس میں مذہب اور
شریعت کی کوئی رکاوٹ نہ ہویہ مادر پدر آزاد ہونے کے مفہوم میں آزادی ہے ۔جب
کہ آزادی کا یہ مفہوم اسلامی احکام اور حدود اﷲ سے ٹکراتا ہے۔ آزادی کاصحیح
مطلب جبرو ظلم اور کفر کے نظام اور غلامی سے نجات پانا ہے۔اور حدود اﷲ کے
اندررہ کر زندگی گزارناہے ۔
دنیا میں شیطان کے پھندوں سے اور آخرت میں عذاب جہنم سے نجات پانا ہے ۔
پاکستان آجکل انقلاب اور آزادی کے نعروں کی زد میں ہے ملکِ خدا داد پاکستان
اس وقت تاریخ کے نہایت نازک ترین موڑ سے گزر رہا ہے بارہ سال تک ملک کو
دہشتگرد آتش وآہن اور اسلحہ وبارود سے لہو لہان کرتے رہے اور شریعت کے نام
پر اپنی انانیت کو ملک پر مسلط کرنے کے لئے لاشے تڑپاتے رہے ۔بڑے صبر آزما
مراحل کے بعد افواج پاکستان نے ان دہشتگردوں کے خلاف جامع آپریشن شروع کیا
جوبڑی جرأت وہمت سے کامیابی کی طرف بڑھ رہا تھا کہ عین اس وقت انقلاب اور
آزادی کے نام سے مخصوص ایجنڈے والے میدان میں اتر آئے جس سے خون جگر دے کر
چمن کو سینچنے والوں کا کردارپس منظر پہ چلا گیا۔ مداریوں اور انکے حواریوں
نے ڈگڈگی بجا کر قوم کو دوسری طرف مصروف کر دیا ۔
پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے اس کو بنانے والے تو نہایت مخلص تھے مگر اس
کوچلانے والے مخلص نہیں مل سکے ۔ پاکستان کے سابق حکمرانوں کی طرح موجودہ
حکمران بھی اپنے اقتدار کے چودہ مہینوں میں قوم کے زخموں پر کوئی خاص مرہم
نہیں رکھ سکے ۔میاں برادران نے جلا وطنی سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اگر
وہ سیکھتے تو ارض القرآن سے بہت کچھ سیکھ کے آتے مگر انہیں سیکھنے کو ملا
ہے تو انداز بادشاہت سیکھنے کو ملا ہے ۔کیوں کہ انہوں نے کئی سالوں تک
سعودی بادشاہت کو بڑا قریب سے دیکھا شاید وہ اس بادشاہت کا تجربہ یہاں بھی
کرنا چاہتے ہوں مگر یہ ان کی خام خیالی ہے ۔اقتدار کے ان مہینوں میں وہ
کوئی اچھی کارکردگی پیش نہیں کر سکے ۔حکمرانوں کی غلطیاں کوتاہیاں اور
کمزوریاں اپنی جگہ مگر آپریشن ضرب عضب اور آئی ڈی پیز کے مسائل کے دوران
قوم کو ’’ انقلاب‘‘ اور’’ آزادی‘‘ کا جھانسہ دے کر قوم کے لئے وبال بننے
والے بھی حماقتوں کے گھوڑوں پر سوار ہو کر جن سازشوں کا شکار ہوئے وہ بھی
کم نہیں۔ بھلا ہو پاک فوج کا جس نے بڑی بردباری کا مظاہرہ کیا ورنہ
حکمرانوں کی غیر سنجیدگی اور مارچز کی کشیدگی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ
فریقین نے فوج کو بھی درمیان میں گھسیٹنے کی پوری کوشش کی ایک طرف حکمرانوں
کے غیر محتاط بیانات تھے دوسری طرف قوم کو’’ انقلاب‘‘ اور’’ آزادی‘‘ کا
جھانسہ دینے والوں کے محرم راز بھی بول پڑے کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ’’ فوج
ہمارے ساتھ ہے ‘‘
طاہرالقادری کا انقلاب سمجھ سے بالا تر ہے جب وہ شخص سیاست نہیں ریاست کے
نعرہ کے ذریعے سے پا کستان کی سیاست میں وارد ہوا تو اس کے انقلاب کا فلسفہ
الطاف حسین اور چوہدی برادران جیسے لوگوں کی سمجھ میں آیا اور انہوں نے اس
انقلاب کے بارے میں اپنی پسندکا اظہار کیا ۔اس سے ہی یہ سمجھا جا سکتا ہے
کہ یہ انقلاب ریاست ِمدینہ والا انقلاب ہے یا کوئی دوسرا۔ویسے بھی اس نے
خود ہی مصطفوی انقلاب کی اصطلاح ترک کر کے عوامی انقلاب یا جمہوری انقلاب
کی اصطلاح اختیار کر لی ہے ۔
کروڑوں روپے کے اخراجات کے باوجود طاہر القادری کے انقلاب کی ولادت جب
مینار پاکستان لاہور پر نہ ہو سکی تو اس نے ڈی چوک اسلام آباد پر اپنے آپ
کو امام حسین رضی اﷲ تعالی عنہ قرار دے کر انقلاب کی آمد کا انتظار کیا مگر
ناکام واپس لوٹا۔ پھر کینیڈا میں رہ کر پاکستان سے انقلاب کے لیے ایک کروڑ
نمازیوں کی تلاش شروع کی مگر چوہدی برادران کی ترغیب پر ایک کروڑ کا انتظار
کیئے بغیر اس نے چند ہزار کو ہی انقلاب کے ایندھن کے لئے کافی سمجھا اور
دوبارہ انقلاب کی خاطر لشکر کشی کی۔ریڈزون میں جھڑپوں سے کچھ مظاہرین اور
پولیس والے ریڈ بھی ہوئے ،شاہراہ دستور پر بے دستوری بھی ہوئی ،پارلیمنٹ
اور پی ٹی وی پر حملہ بھی ہوا ۔پوری دنیا میں پاکستان کے دارالحکومت کی
تضحیک ہوئی حساس مقامات پر دھشت اور وحشت پھیلی ، پاکستان کا وقار داؤ پہ
لگا۔
طاہر القادری اور عمران خان نے لوگوں سے بار بار نکلنے کی اپیل کی مگر
تاحال تک انقلاب آتا تو نظر نہیں آیا ،مگرطاہرالقادری کے انقلاب اور عمران
خان کے آزادی سے پاکستا ن کی پارلیمنٹ اور شاہراہ دستور نے عریانی ،فحاشی ،بے
حیائی، اخلاق سوزی ،غیر شرعی حرکات اور آوارہ گردی کے جو بھیانک مناظر
دیکھے انہوں نے تاریخ میں کبھی نہیں دیکھے تھے۔بلکہ طاہر القادری تاریخ ِاسلام
میں شاید وہ پہلا شخص ہے جس نے مذہب کی طرف منسوب ہو نے کے باوجود علی
الاعلان اتنے بڑے پیمانے پر پوری دنیا کے سامنے اپنے پنڈال اور اپنے ساتھ
سٹیج پر خواتین اسلام کی یوں بے پردگی ،بے حرمتی ،میوزک اور ڈانس کا ریکارڈ
قائم کیا ہو ۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائمزنے تو اب لکھا کہ طاہر القادری کے قول و فعل میں
تضاد ہے ۔ لیکن ہمارے دیرینہ مشاہدے کے مطابق تو اس کی ذات شروع ہی سے
تضادات کا مجموعہ ہے اس نے جس نظریے کی حمایت کی پھر اسے ہی رد کر دیا جس
کام کے خلاف شد و مد سے فتوی دیا پھر وہی کام کر کے دکھا بھی دیا ۔سیاست
میں نہ آنے کے اعلان سے لے کر سیاست میں ڈوب جانے کے نشان تک ۔اپنی کتاب
’’تحفظ ناموس رسالت ‘‘سے لے کر سلمان تاثیر کی حمایت میں اپنی ہی کتاب کے
مندرجات کی تردید تک،دھشت گردی کے خلاف فتوی دینے اور پھر اپنی ہی دھشت
گردی کی تعریف کے مطابق خود دھشت گردی کرنے تک ،اس کے تضادات کی داستان ہر
طرف بکھری پڑی ہے ۔دینی لحاظ سے ملّت اور نظریاتِ اہلسنت کے ساتھ اس شخص نے
جو کچھ کیا وہ ایک علیحدہ داستان خونچکاں ہے لیکن آج اسے میڈیا نے اٹھا کے
یہ سب کچھ دکھا دیا ہے ۔جس ظلم ،جبر ،کرپشن ،لوٹ مار اور جاگیردارانہ نظام
کے سوداگروں کے خلاف وہ انقلاب لانے کا دعوے دارہے وہی ٹولہ اس کے کنٹینر
پر سوار ہے اور اس کے انقلاب کا حصہ دار ہے ۔ اس کی بے بسی اور بے بصیرتی
کو دیکھ کر دنیا ہنس رہی ہے کہ وہ جو تیر کرپٹ حکمرانوں کو مارنا چاہتا ہے
اس کے ارد گرد کھڑے کرپٹ سیاست دانوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس اسے ہی لگ رہے
ہیں ۔
زبان و بیان کے لحاظ سے اس کی یہ مہارت مجھ جیسے لوگوں کو بھی ماننی پڑے گی
کہ وہ دن دوپہر کو رات کہنا شروع کر دے تو صرف دن کو رات کہنے کی حد تک
محدود نہیں رہتابلکہ اس کو رات منوانے کی بھی بھر پورکوشش کرتاہے۔وہ جس
نظریے کو جتنا نقصان پہنچا رہا ہو بظاہر اپنے آپ کو اس کا اتنا ہی علمبر
دار قرار دیتا ہے ۔ سنی اس کو رافضی کہتے ہیں اور رافضی اس کو سنی کہتے
ہیں،کینیڈا والے اس کو پاکستانی کہتے ہیں اور پاکستان والے اس کو کینیڈی
کہتے ہیں ۔اس کی مہارت یہ ہے کہ لاکھوں کے سامنے یوٹرن لے کر بھی اپنے صراط
مستقیم ہونے کا اصرار کرتا ہے ۔
وہ تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے لئے عاشقان رسول ﷺ کی ریلیوں کو حرمت دین پامال
کرنے کے مترادف قرار دیتا ہے اور اپنے مخلوط اور عریانی ،فحاشی سے اٹے ہوئے
دھرنوں کو حج اور لیلۃ القدر سے افضل قرار دیتا ہے ۔ وہ غازی ممتاز حسین
قادری کے اقدام کو’’ قانون ہاتھ میں لینے ‘‘کا کہہ کر جرم قرار دیتا ہے
اورخود قانون کو قدموں تلے روند کر غازی ہونے کا اصرار کرتا ہے ۔اس نے مارچ
شروع کیا تو کہا کہ ہم پر امن رہیں گے دنیا دیکھے گی کہ ایک گملا بھی نہیں
ٹوٹے گا۔دنیا نے دیکھا گملا تو نہیں لیکن پاکستان کی مقدس پارلیمنٹ کا
جنگلا ٹوٹ گیا ۔اس نے لفاظی سے امن اور جنگ جیسے متضاد الفاظ کو مترادف بنا
دیا یہاں تک کہ اپنے انقلاب مارچ کو پر امن کہا اور اسے خود ہی جنگ بھی
قرار دے دیا ۔اس کے کارکن ڈنڈے اٹھائے ،ہیلمٹ پہنے ،کٹروں ،ہتھوڑوں ،غلیلوں
اور پتھروں کے ہمراہ جھڑپیں کریں،آگ لگائیں بلوا کریں ۔اس کے باوجودبھی ان
کے پرامن ہونے کا ایوارڈ قائم رہے ۔وہ وزیر اعظم ہاؤس کے گیٹ سمیت اہم
مقامات پر قبضہ کا اعلان بھی کرے اور پھر عوامی تحریک کا پرچم اٹھا کر پی
ٹی وی پر حملہ کرنے والوں سے برأت کا اعلان بھی کرے،وہ غسل شہادت بھی کرے
،کفن بھی منگوائے ،قبر بھی کھدوائے مگر بلٹ پروف کنٹینر اگر درمیان میں آڑ
بن جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس میں میراکیاقصور ہے ؟ مقتولوں کے ورثاء کا
احتجاج کرنا ان کا حق ہے اور قاتلوں کو سزا دلوانا بھی ضروری ہے مگر آج تک
چشم فلک نے مظلوموں کو بھنگڑے ڈال کر میوزک بجا کر نوجوان لڑکیوں کے ہمراہ
ڈانس کر کے سوگ مناتے اور قصاص کا مطالبہ کرتے نہیں دیکھا تھا ۔
قوم انقلاب چاہتی ہے کسی نجات دھندہ کی منتظر بھی ہے اس کے باوجود طاہر
القادری کی آواز پر قوم باہر نہیں نکلی حالانکہ ایک مہینے سے اسے میڈیا نے
پرائم ٹائم میں لائیوریکارڈ کوریج دی ۔اور اس نے چیخ چیخ کر لوگوں سے
انقلاب کے لئے باہر نکلنے کی اپیلیں کیں ۔اس میں قرآن و سنت کی طرف منسوب
اپنے خود ساختہ مفاہیم کی آمیزش بھی کی ،اپنے ڈرامائی انداز بیان اور آہ و
زاری کا ہنر بھی آزمایا، شریعت کی پرواہ کئے بغیر اپنے دھرنے میں اٹریکشن
پید اکرنے کے لئے میوزک اور ڈانس کا اہتمام بھی کیا ،چشم دید گواہوں اور بی
بی سی کے مطابق دہاڑی دار طبقے کا سہارا بھی لیا ۔بریلوی ،دیوبندی ،وہابی،
شیعہ ،سکھ ،عیسائی کو برابر حقوق دینے کی بات کر کے بھی رش بڑھانے کی کوشش
کی ۔پاکستان سے ملائیت اور تکفیر یت کے خاتمے کی بولی بول کر لبرل مزاج
طبقہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا طریقہ بھی اپنا یا ، کفن بھی لہرایا ،سینہ
بھی دکھایا ،بار بار ڈیڈ لائنز دیکرپھر ان میں توسیع کا ڈرامہ بھی رچایا اس
کے باوجود بھی سوائے اس کے چندہزار کارکنوں کے کسی نے اس کی بات نہیں
سنی۔یہ اس کے لئے اور اس کے فریب خوردہ احباب کے لئے لمحہ فکریہ ہے
۔حالانکہ اتنے دنوں تک پرائم ٹائم میں ایک بھکاری کو بھی ان تمام ٹی وی
چینلز پر بٹھا دیا جاتا اور اس کو اتنی لائیو کوریج دی جا تی اور وہ بھیک
مانگتا تو اس کی مدد کے لئے بھی لوگ نکل آتے ۔اصل میں بات یہ ہے پاکستان کے
دکھوں کا علاج جس شفاء خانے میں ہے طاہر القادری ادھر سے منہ موڑ چکا ہے
لیکن پاکستانی قوم سے کئی لوگ اگرچہ وائٹ ہاؤس کی طرف متوجہ ہو چکے ہیں مگر
جمہورپاکستانی آج بھی گنبد خضریٰ کی طرف آس لگائے بیٹھے ہیں ۔
انقلاب کی طرح عمران خان کی ’’آزادی ‘‘ کا مفہوم جہاں تک ظاہر ہو چکا ہے وہ
شرعی آزادی نہیں ہے ۔ویسے بھی چند دنوں کے حالات و واقعات اور جاوید ہاشمی
کے خطابات سے انقلاب اور آزادی کے پردوں میں لپٹے ہوئے حقائق سامنے آ چکے
ہیں اور چند دنوں میں مزید سنسنی خیز انکشافات ہونے کو ہیں جن سے پتہ چلے
گا کہ ان مہروں کے پیچھے کون سے چہرے تھے ،سکرپٹ رائٹر اور ایمپائر کون تھا
۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ڈراپ سین کے بعد پی ٹی آئی (PTI )کے ہاتھ کیا آتا
ہے ۔پَیٹ(PAT )کے پِیٹ میں کیا جاتا ہے ۔ ہمارا مقصد اقتدار یا انتشار میں
سے کسی کی حمایت کرنا نہیں ہے بلکہ ملکی وقار اور آئین کے اعتبار کی حفاظت
کرنا ہے ۔ہمیں اس امر پر نہایت افسوس ہے کہ ’’انقلاب ‘‘اور’’ آزادی‘‘ کا
جھانسہ دے کر کچھ لوگوں کے مذہبی اور مّلی جذبات کا استحصال کیا گیا پوری
قوم کو پریشان کیا گیا روحانی اور اخلاقی اقدار پر خطرناک حملہ کیا گیا ۔
پاکستان اور اسلام کے تشخص کو آلودہ کیا گیا اس غریب ملک کی معیشت کو
کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ۔ایسے میں آئی ڈی پیز کی خستہ حالی سب کو
بھول گئی اور چینی صدر کا انتہائی اہم دورہ ملتوی ہو ا۔بالخصوص طاہر
القادری نے تو دھرنے کے ڈھانگے سے اقتدار کی پتنگ اتارنے کے لئے کئی جنگلے
اور چھتیں پھلانگ ڈالیں ۔خوارج اور روافض کی دھشت گردی کے افسانے تو پہلے
ہی موجود تھے اب پر امن اہلسنت اور مسلک صوفیاء کے متوالوں کو بھی دھشت
گردی کے طعنے سننے پڑے ۔ہمیں اس امر کا بھی شدید خدشہ ہے کہ بار بار آئین
کی بساط لپیٹنے کی باتیں کرنے والے کہیں 73 کے آئین کے دشمنوں کو کھل
کھیلنے کا موقع نہ دے دیں ۔ پہلے ہی ملک میں قادیانی سازشیں سہ آتشہ ہو چکی
ہیں اﷲ خیر کرے ۔ |
|