بعض اوقات اپنے ہی کہے ہوئے جملے دہراتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے، لیکن کیا
کروں کوڑھ مغزوں ، نیم دانشوروں ، جمہوریت کے خود ساختہ ٹھیکداروں کے موٹے
دماغوں میں بات آتی ہی نہیں اور وہ خاندانی جمہوریت کے دفاع میں وہی رٹے
رٹائے جملے دہراتے رہتے ہیں۔ اور جب جگاڑیوں کا تحفظ کرنے والوں کے پاس
دلائل ختم ہوجاتے ہیں تو مجھے تحریک انصاف کا کارکن یا عمرآن خان کا محب و
چمچہ کہہ دیتے ہیں۔ انکی یہ تنقید میرے سرآنکھوں پر مگر میں یہ عرض کرنا
چاہوں گا کہ میں نے پاکستان میں موجود ہر بڑی سیاسی جماعت کو ایک بار ضرور
ووٹ دیا مگر دوسری بار کسی کو ووٹ نہیں دیا ، اسکی وجہ یہ ہے کہ بچپن میں
میں نے اپنے آقا حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا ایک فرمان عالیشان
پڑھا تھا جسکا مفہوم یہ ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا ۔ خیر
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بندہ ناچیز کسی بونے لیڈر کے سحر میں گرفتار
نہیں ، اور نہ میرے خمیر میں چمچہ گیری کا عنصر پایا جاتا ہے، کسی کی جائز
تعریف کرتے بھی انتہائی بخل سے کام لیتا ہوں کہ کہیں یہ بھی چمچہ گیری اور
کاسہ لیسی میں نہ آجائے۔
اپنے بھی نالاں مجھ سے غیر بھی ناخوش
زہر ہلاہل کو میں کبھی کہہ نہ سکا قند
کہتا ہوں وہی جسے سمجھتا ہوں میں حق
نہ ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند۔
پاکستان دنیا کے نقشے پر وہ واحد ملک ہے جہاں قوم کے لئیے قربانیاں دینے
والوں کی کثرت ہے، قوم کے غم میں غلطاں لوگوں کی تعداد بے شمار ہے، مگر
اتنی جدوجہد اور قربانیوں کے باوجود اس بدنصیب قوم کی حالت سنورنے کی بجائے
بگڑتی ہی جارہی ہے۔ اگر آپ پیپلز پارٹی کے راہنماؤں سے بات کریں تو وہ قوم
کی خاطر بھٹو خاندان کی قربانیوں کو گنواتے نہیں تھکتے ۔ بھٹو کی پھانسی سے
شروع کرتے ہیں اور محترمہ کی شہادت سے ہوتے ہوئے زرداری کی قید وبند کی
سعوبتوں پر ایک لمحے کے لئیے رک کر سانس لے کر این ایف سی ایوارڈ ،
پارلیمان کو بااختیار بنانے اور ریکارڈ آئینی ترامیم کے کارنامے بھی بیان
کرجاتے ہیں۔ دوسری طرف شریف خاندان کے قصیدہ خواں سے بات کریں تو وہ بھی
شریف خاندان کی ملک وقوم کے لئیے دی جانے والی قربانیوں کی ایسی منظر کشی
کرتے ہیں کہ عش عش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ نون لیگی شریف خاندان کی ہندوستان
سے پاکستان کیطرف ہجرت سے شروع کرتے ہیں پھر لوہے کی ایک بھٹی لگانے سے
ہوتے ہوئے جنرل ضیاءالحق کے سارے دور سے نظریں چراتے ہوے اٹک قلعے ، اڈیالہ
جیل کی قید کے ذکر پر بس نہیں کرتے بلکہ جہاز میں ہتھکڑیوں کے لگانے اور
پھر طویل جلاوطنی کا ذکر کرتے ہیں اور برملا کہتے ہیں کہ شریف فیملی نے یہ
سب جمہوریت اور قوم کے لئیے کیا۔ یہ صرف دو خاندانوں کی قربانیوں کا ذکر
کیا ہے ان کے علاوہ بھی بے شمار جماعتیں اور افراد ہیں جنھوں نے قوم کی
خاطر ان گنت قربانیاں دیں ان میں ملتان کے مخدوم بھی شامل ہیں۔ جو بات مجھے
چین نہیں لینے دیتی اور میری رآتوں کی نیند حرام کردیتی ہے ، وہ یہ کہ جس
قوم کی خاطر قربانیاں دینے والوں کی کثرت ہو، جس قوم کا درد رکھنے والے
لاتعداد ہوں اس قوم کو تو چاہئیے تھا کہ مریخ پر کمندیں ڈالتی ، چاند پر
چھٹیاں منانے جاتی ، نظام شمسی کو اپنی گرد سفر بنا کر خلاؤں میں چھپے
رازوں کو آشکار کرتی اور چاند پر زندگی کے آثار پیدا کرتی اور وہاں صاف
پانی پہنچانے کے فارمولے اور طریقے ڈھونڈتی مگر یہ سب کرنے کی بجائے قوم
کیڑے مکوڑوں کیطرح زمین پر رینگ رہی ہے ، چاند پر پانی کیا پہنچانا تھا
انھیں تو زمین پر صاف پانی میسر نہیں ۔ چاند پر چھٹیاں منانے کیا جانا تھا
یہ تو پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر کوہلو کے بیل بنے ہیں۔ مریخ پر کمندیں کیا
ڈالنی تھیں اس قوم کے بچوں کو تو بیسک ایجوکیشن میسر نہیں، اکثر کے قدموں
میں نہ زمین اپنی نہ چھت اپنی ، نہ صحت کی سہولتیں میسر۔ قصہ مختصر نہ قوم
کے لئیے جینا آسان نہ مرنا آسان ۔ میں نے بہت سوچا عقل وخرد کے گھوڑے
دوڑائے اور یہ سمجھنے کی کوشیش کی کہ آخر کیا وجہ ہے اتنی قربانیوں کے
باوجود بدنصیب قوم کی حالت کیوں نہیں بدلی ؟ بہت سوچ بچار کے بعد میں اس
نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اسکی دو وجوہات ہیں۔ اول قوم کی خاطر قربانیاں دینے
کے دعویدار جھوٹ بولتے ہیں انھوں نے سرے سے قوم کی خاطر کوئی قربانی دی ہی
نہیں اپنی ہوس اقتدار کی تسکین کی خاطر سب کچھ کرتے رہے اور اپنے ذاتی مفاد
کا نام انھوں نے وسیع تر قومی مفاد رکھ لیا۔ ذاتی مفاد اور کرپشن کا نام
جمہوریت رکھ دیا۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ قوم کی حالت این ایف سی ایوارڈ
اور سترہویں ، اٹھاریویں ترامیم اور پارلیمان کی مضبوطی کے بعد بدلی ہے مگر
مجھے دکھائی نہیں دیتی۔ زمینی حقائق کو ملاحظہ کرنے کے بعد اگر کسی کو قوم
کی حالت میں بہتری نظر آئے تو مجھے ضرور مطلع کریں تاکہ آئندہ آرٹیکل میں
میں قربانیاں دینے والے خاندانوں سے معذرت کرسکوں۔ آخر میں جگاڑیوں کے لئیے
ایک سوال ہوم ورک کے طور پر۔ پہلا سوال بھٹو اور اسکا خاندان عوام کے حقوق
کے لئیے کونسی پانی پت کی جنگ لڑ رہا تھا جس میں دشمن نے اس خاندان کی
لعشیں گرا کر انھیں قوم کی خاطر لازوال قربانیوں کا سرٹیفکیٹ دے دیا، اس
خاندان نے تو قوم کو کچھ نہ دیا مگر قوم نے اس خاندان کو بہت کچھ دیا۔
دوسرا سوال شریف خاندان عوامی حقوق کی خاطر کس نگر کوٹ کے قلعہ بھیم پر
حملہ آور ہوا تھا کہ نتیجہ میں دشمن نے انھیں اٹک قلعہ میں بند کر دیا اور
بعد میں جلاوطن کردیا۔ نہ اقتدار کے نشہ میں فوج سے چھیڑخانی کرتے، نہ دس
سالہ معاہدہ کرتے نہ جلاوطن ہوتے۔
سو گلاں دی اکو گل ، دونوں عظیم خاندانوں کی خودساختہ قربانیوں کو لکھاں
سلام ۔ تم دونوں خاندان اپنی خود ساختہ بے بنیاد قربانیوں کی بھاری قیمت اس
قوم سے وصول کرچکے خدارا اب اس مفلوک الحال قوم کی جان چھوڑو اور لوٹی ہوئی
دولت کو انجوائے کرو۔ جب سے ان دو خاندانوں نے قوم کے لئیے قربانیاں دینے
کا سلسلہ شروع کیا ہے تب سے قوم کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے۔ |