کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک بار پھر نہ صرف تیز ہوچکا ہے، بلکہ انتہائی
خطرناک اور نقصان دہ صورت اختیار کر چکا ہے۔ اب کچھ عرصے سے شاید دہشتگردوں نے اہم
اور قابل ترین افراد کی ٹارگٹ کلنگ کر کے ملک کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی
پالیسی اپنالی ہے۔ گزشتہ روز کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج پرگلشن
اقبال میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو
حکومت نے حال ہی میں تمغہ امتیاز سے نواز نے کا اعلان کیا تھا، وہ جامعہ کراچی کے
شعبہ علوم اسلامی میں فقہ و تفسیر قرآن کریم کے مایہ ناز استاد تھے۔ ڈاکٹر شکیل اوج
نے 2000ءمیں جامعہ کراچی ہی سے ڈاکٹریٹ آف فلاسفی (پی ایچ ڈی) کی سند حاصل کی اور
وہ 15 سے زاید کتابوں کے مصنف تھے۔ڈاکٹر شکیل اوج کے قتل کے بعد شہر کے مختلف
تدریسی اداروں میں تعلیمی سرگرمیاں معطل کر دی گئیں اور سندھ پروفیسرز لیکچرار
ایسوسی ایشن کے سربراہ نے اس واقعہ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا
ہے کہ اگر اساتذہ یونہی قتل ہوتے رہے تو شہر پڑھے لکھے لوگوں سے خالی ہو جائے گا۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ لہر کے دوران اساتذہ کو بھی دھمکیاں موصول ہوئی ہیں،
تاہم ان کی حفاظت کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا گیا۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی نے
ملزمان کی گرفتاری میں مدد کرنے پر بیس لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے اور واقعہ
کی تفتیش اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے ایک خصوصی ٹیم بھی تشکیل دی ہے۔ صدر مملکت
ممنون حسین، وزیراعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، عمران خان، سراج الحق،
لیاقت بلوچ، طاہر القادری نے پروفیسر محمد شکیل اوج کے قتل کی مذمت کی ہے۔ ایک ہفتہ
قبل ہی کراچی میںملک کے معروف دینی ادارے جامعہ بنوریہ العالمیہ کے استاذ معروف
عالم دین مفتی محمد نعیم کے داماد اور جامعہ کراچی کے لیکچرار مولانا مسعود بیگ کو
چار موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کر کے ٹارگٹ کلنگ میں قتل کیا تھا، حالانکہ ان کا
تعلق کسی بھی سیاسی یا مذہبی تنظیم سے نہےں تھا۔ ان دونوں واقعات کو سامنے رکھتے
ہوئے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ کس طرح ملک کی معروف جامعات میں درس وتدریس کے
فرائض انجام دینے والے اہل علم کو ایک نئی سازش کے تحت نشانہ بنایا جارہاہے۔ کراچی
میں چوٹی کے ڈاکٹرز، انجینئرز، پروفیسرز، وکلائ، دانشوروں، قلمکاروں اور علمائے
کرام کا قتل اب روز کا معمول بن چکا ہے۔ گزشتہ دنوں آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق
کراچی میں 2 سال کے دوران 130 ڈاکٹرز قتل اور 150اغوا ہوئے ہیں اور دوسرے اہم شعبوں
سے تعلق رکھنے والے اہم افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے اعداد و شمار بھی اس سے مختلف نہیں
ہیں۔ حکومت کی جانب سے کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور جرائم کی وارداتوں کو روکنے کے لیے
ٹارگٹڈ آپریشن جاری تو ہے، لیکن رواں سال کے آغاز سے ہی کراچی میں پروفیشنلز اور
علمائے کرام کو گھات لگا کر قتل کیا جا رہا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے
ٹارگٹ کلنگ کی ان وارداتوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔ 16 جنوری کو ایک معروف
ڈاکٹر کو ان کے کلینک کے قریب فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔ 16 فروری کی شب شاہراہ فیصل
پر معروف عالم دین جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مفتی عثمان یار خان کو قتل کیا گیا۔
17 فروری کوہشت گردوں کی فائرنگ سے ڈینٹل کالج کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید قاضی
جاں بحق ہوئے۔ 26 فروری کو ناظم آباد میں ایک معروف پروفیسر کو قتل کیا گیا۔ 8
اپریل کو ایک معروف ڈاکٹر کو ان کے کلینک کے باہر فائرنگ کرکے قتل کیا گیا، جبکہ
دوسرے ہی روز 9 اپریل کو دارالصحت ہسپتال کے ایمرجنسی سیکشن کے ہیڈ ڈاکٹر حیدر کو
ہسپتال کے باہر فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ 10 اپریل کو ایڈووکیٹ وقار الحسن اور
ایڈووکیٹ غلام کشمیری کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا، جبکہ 12 اپریل کو
این ای ڈی یونیورسٹی کے لیکچرار کو بھی قتل کیا گیا۔ 21 اپریل کو گورنمنٹ کالج آف
ٹیکنالوجی کے پروفیسر سیف الدین کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔ 14مئی کو جناح
ہسپتال کے ایم ایل او ڈاکٹر منظور میمن قتل ہوئے۔ 30 مئی کو بھی ایک ڈاکٹر کو
گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ جولائی اور اگست کے مہینوں میں بھی وکلا اور ڈاکٹر
برادری سے تعلق رکھنے والوں کو قتل کیا گیا۔ 6 ستمبر کوعلامہ عباس کمیلی کے بیٹے
علی اکبر کمیلی کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ صرف چار روز بعد ہی پروفیسر مولانا
مسعود بیگ کو فائرنگ کرکے شہید کر دیا گیا۔ 18 ستمبر کوجامعہ کراچی میں اسلامک
اسٹیڈیز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا۔
دیکھا جائے تو کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ایک روز کے لیے بھی نہیں رکا۔ رپورٹ
کے مطابق کراچی میں گزشتہ پانچ سال کے دوران ساڑھے آٹھ ہزار افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہو
چکی ہے اور روں سال صرف 8 ماہ کے دوران ہی تقریبا 1500 افراد ٹارگٹ کلنگ کی بھینٹ
چڑھ چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عرصے سے کراچی میں جرائم پیشہ افراد کے
خلاف آپریشن جاری ہے، اس کے باوجود ابھی تک دہشت گردوں پر قابو نہیں پایا جاسکا،
بلکہ آئے روز دہشت گرد کسی اہم شخصیت کو باآسانی نشانہ بنا لیتے ہیں، نہ توصوبائی
حکومت اورنہ ہی وفاقی حکومت ،کسی نے بھی کھلی دہشت گردی کے ان واقعات اور قتل
وغارتگری کوبند کرانے کے لیے کوئی ٹھوس اور جامع اقدامات نہیں کیے ہیں اور حکومت
صرف موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا کر اپنے آپ کو ذمہ داری سے سبکدوش
سمجھتی ہے یا پھر اس قسم کے بیانات دیے جاتے ہیں کہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ میں کمی
واقع ہوچکی ہے۔ چار روز قبل ہی آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے دعوی کیا ہے کہ
کراچی میں روان سال ٹارگٹ کلنگ کی شرح 9 سے کم ہوکر 5 فیصد پر آگئی ہے۔ حالات کو
دیکھتے ہوئے ان کی بات پر یقین کرنا مشکل معلوم ہوتا ہے، لیکن اگر ان کی بات مان
بھی لی جائے تو صرف اس قسم کے بیانات سے ذمہ داری ختم نہیں ہوتی، بلکہ کراچی سے
مکمل بدامنی کا خاتمہ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات کئی بار سامنے آچکی ہے کہ
کراچی میں ہونے والی دہشت گردی میں ملک دشمن غیر ملکی قوتیں ملوث ہیں، جن کا مقصد
پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہے۔ تیسری قوت کا ذکر بعض ذمہ دار پولیس
افسران بھی کرچکے ہیں،صاحب اقتدار طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ دشمن ملک عناصر کو
کیفرِ کردار تک پہنچائیں۔ مبصرین کے مطابق کراچی میں جاری آپریشن کے باوجود ٹارگٹ
کلنگ کا جاری سلسلہ کراچی میں جاری آپریشن کی کارکردگی پر واضح سوالیہ نشان ہے۔
دوسری جانب سندھ رینجرز نے شہر میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف جاری آپریشن کی
رفتار تیزکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ رینجرز ہیڈ کوارٹرز میں ڈی جی
رینجرز میجرجنرل رضوان اختر کی زیرصدارت آپریشنل کمیٹی کے اجلاس میں کیاگیا۔ اجلاس
میں امن وامان اور شہر میں ہونے والی حالیہ ٹارگٹ کلنگ کی نئی لہرکا جائزہ لیا گیا
اور شہر میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف جاری آپریشن کی رفتار مزید تیزکرنے کی
بھی منصوبہ بندی کی گئی، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنے وسائل کو مربوط کرتے
ہوئے فیصلہ کیا کہ آپریشن کی ایک نئی اور موثر مہم کا آغاز کیا جائے۔ جبکہ نئے
ڈائریکٹر جنرل رینجرز سندھ میجر جنرل بلال اختر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیا ہے،
اس سے قبل اس عہدے پر فرائض انجام دینے والے میجر جنرل رضوان اختر نے کمان نئے ڈی
جی رینجرز سندھ کے حوالے کی۔ میجر جنرل رضوان اختر نے ڈی جی رینجرز سندھ کے عہدے پر
ڈھائی سال تک خدمات انجام دیں، ان کے لیے کراچی میں امن کا قیام سب سے بڑا چیلنج
رہا اور نئے ڈی جی کو بھی اسی کڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ |