نئے صوبےوقت کی ضرورت یا بے وقت کی راگنی؟

پیپلز پارٹی نے سابقہ دورِ حکومت میں اپنی روز افزوں کرپشن اور نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبے بنانے کاجو شوشہ چھوڑا تھا وہ اب بر گ و بار لاناشروع ہو گیا ہے۔ جنوبی پنجاب میں لسانی تعصب کو ہوا دے کرپیپلز پارٹی نے ایک تیر سے دو شکارکھیلنے کی ناکام کوشش کی تھی۔مسلم لیگ نون کی سیاسی قوت توڑنے کے ساتھ ساتھ اس شوشے کا بڑا مقصد محرومی کے شکار عوام کے دکھوں کا استحصال کر کے اپنی شرمناک پرفارمنس سے ان کی توجہ ہٹانی تھی۔ جنوبی پنجاب کے عو ام نے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو یکسر مسترد کر کے یہ واضح پیغام دیا کہ نئے صوبے کے سبز باغ دکھا کر عوام کو الو بنانے کا زمانہ اب گزر چکا ہے ۔ سرائیکی صوبے کے نعرے پر خود جنوبی پنجاب والوں سے زیادہ ایم کیو ایم کو جو خوشی ہوئی وہ دیدنی تھی۔ ایم کیو ایم نے نہ صرف اس مطالبے کی دل و جان سے حمایت کی بلکہ دو قدم آگے بڑھ کر صوبہ ہزارہ کی پھلجڑی بھی چھوڑ دی۔ اہلِ نظر کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا کہ ہو نہ ہو دال میں کچھ کالا ضرور ہے ورنہ ایم کیو ایم جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے خیال پر یوں ریجھ ریجھ نہ جاتی۔

اب جبکہ اس بحث کو کم و بیش دو سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو آیا ہے تو لندن سے سکاٹ لینڈ یارڈ کی تفتیشوں کے ستائیجناب الطاف حسین نے نئے صوبوں کے قیام کی تجویز پیش کر کے اس مردہ موضوع کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے ۔ بیس نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کا مطالبہ بظاہر بڑا ہی بے ضرر ہے لیکن اس پر پیپلز پارٹی کی سیخ پائی اور نئے پاکستان کے خواب دیکھنے والی تحریکِ انصاف کے ردِ عمل سے لگتا ہے کہ معاملہ اتنا بھی سیدھا نہیں جتنا نظر آ رہا ہے۔حیرت ہے کہ کلجب پنجاب کی تقسیم اور اس میں نئے صوبوں کے قیام کی بحث چھڑی ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی کی باچھیں کھل کھل جا رہی تھیں اور تحریکِ انصاف کو بھی اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آ رہی تھی لیکن آج جب ایم کیو ایم نے ا سی صوبائی تقسیم کے فارمولے کو سند ھ میں اپلائی کرنے کی بات کی ہے تو سب اس پر بلبلا اٹھے ہیں ۔ بلاول بھٹو نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگا کر بظاہر سندھی بولنے والوں کی ترجمانی کرنے کی کوشش کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مر جائے گی لیکن سند ھ کو تقسیم نہیں ہونے دے گی۔پنجاب اور سندھ کے لیے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رویوں میں موجود اس تضاد کو سمجھنا نئے صوبو ں کی الجھن کو سلجھانے کے لیے ضروری ہے۔

پنجاب کو تقسیم کرنے اور سندھ کو تقسیم نہ ہونے دینے کا دعویٰ کر کے پیپلز پارٹی دراصل خود کو ایک قومی جماعت کی بجائے علا قائی پریشر گروہ بنانے پر مصر ہے ۔ یہ منطق نہایت مضحکہ خیز ہے کہ پنجاب میں چونکہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک محدود ہے اور اس کی تقسیم کی صورت میں نون لیگ کو زک پہنچنے کا چانس ہے اس لیے یہ تقسیم نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہیجبکہسندھ میں چونکہ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک زیادہ ہے اس لیے تقسیم کی صورت میں اسے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے پس یہ تقسیم نہ صرف ناجائز بلکہ سخت حرام ہے ۔ جہاں مخالف جماعت کی طاقت توڑنے کی بات ہو وہاں تقسیم مباح اور جہاں اپنے مفادات کو ٹھیس لگنے کا احتمال ہو وہاں حرام، پیپلز پارٹی کے اس فلسفے کو سمجھنا آسان نہیں ۔

پنجاب کی تقسیم کے خوشی خوشی منصوبے گھڑتے ہوئے اگرپیپلز پارٹی یہ سمجھ رہی تھی کہ یہ انگارے سندھ میں اس کے گھر تک نہیں پہنچیں گے تو یہ اس کی بہت بڑی خوش فہمی تھی۔ پنجاب کی تقسیم کا آئیڈیا پیش کرنے کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے یہ ثابت کرنا آسان نہیں کہ سندھ کی موجودہ جغرافیائی حد بندی چونکہ آسمانی صحیفہ ہے اس لیے اس میں ردو بدل نہیں کیا جا سکتا۔ اگر دلیل یہ دی جائے کہ پنجاب آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ہے تو سندھ کی آبادی بھی کچھ کم نہیں۔ اگر دس کروڑ آبادی والے صوبے کو تقسیم کیا جا سکتا ہے تو پانچ کروڑ کی آبادی والے صوبے کو تقسیم کرنے میں کیا حر ج ہے؟

ایم کیو ایم بھی انتظامی بنیادوں پر صوبوں کی تقسیم کے پردے میں اپنے لسانی تعصب کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقیت یہ ہے کہ اس کی نظریں کراچی کے الگ صوبے پر ہیں جس کو بھلے ہی انتظامی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے لیکن اس میں لسانی عنصر بحرحال غالب رہے گا۔ یہی حال ہزارہ اور سرائیکی صوبے کا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں ترقی کے کتنے بھی زینے کیوں نہ طے کر جائیں ان کی سوچ اور نظر کی تنگی چھپائے نہیں چھپتی۔ نئے صوبے کے قیام کا خیال برا نہیں بلکہ وقت کی عین ضرورت ہے لیکن جہاں نیتوں میں کھوٹ ہو وہاں اچھے اچھے منصوبے فتنہ و فسادکا موجب بن جاتے ہیں ۔سیاسی بحران کی جس کیفیت سے ملک گزر رہا ہے اس میں ایک نئے مسئلے کو چھیڑ دینا بے وقت کی راگنی نہیں بلکہ ایم کیو ایم کی نہایت نپی تلی چال ہے۔ اب اس چال کی لپیٹ میں کون آتا ہے ، کون پٹتا ہے اور کس کی نیا پار لگتی ہے اس کا تعین آنے والا وقت کرے گا۔ یوں لگ رہا ہے کہ ’لے کے رہیں گے اور بٹ کے رہے گا‘ کے نعرے دوبارہ گونجنے کا وقت آ پہنچا ہے ۔
Shahid Iqbal
About the Author: Shahid Iqbal Read More Articles by Shahid Iqbal: 2 Articles with 1511 views Learning reality, teaching truth.. View More