خوش فہمی کے سنہری خواب اور خود
فریبی کے رنگین سپنے۔ ۔ ۔ ۔
خوش فہمی کے سنہری خواب اور خود فریبی کے رنگین سپنے انسان کو فہم و ادراک
کی صلاحیت سے محروم اور اس کی سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت کو
ماؤف کردیتے ہیں، اس مرض میں مبتلا شخص کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اسے نظر
آنے والے منظر کی حقیقت کیا ہے، پیش منظر اتنا حسین، خوبصورت اور دلکش ہوتا
ہے کہ پس منظر میں پوشیدہ چیختے چلاتے اور چنگھاڑتے طوفان اور جنم لینے
والے خوفناک حادثے اس کی نظروں سے اوجھل اور پوشیدہ رہتے ہیں، اسے تو بس سب
کچھ اچھا، صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے، نگاہوں کے سامنے سے خوش فہمی اور
خود فریبی کا پردہ ہٹتے ہٹتے اتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ سوائے کف افسوس
ملنے کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ارباب اقتدار آج اسی بیماری میں مبتلا نظر آتے ہیں، خوش
فہمی اور خود فریبی انہیں سمجھا رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک اور اچھا ہے”حالات
کنٹرول میں ہیں، ہم درست اور صحیح سمت میں گامزن ہیں، صدر کے ساتھ بہترین
ورکنگ ریلیشن اور اعتماد کا رشتہ قائم ہے اور اختلافات کی خبریں بے بنیاد
ہیں، ہر تین ماہ بعد حکومت کے خاتمے کی باتیں محض اسپیڈ بریکر ہیں جن کا
مقصد ہماری ہمت کو کم کرنا ہے، پونے دوسال گزر چکے ہیں، حکومت مضبوط ہے اور
جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں، صدر کو خوامخواہ تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے،
نہ ہی صدر جانے والے ہیں اور نہ ہی کوئی بڑی تبدیلی آنے والی ہے، ہم کسی سے
ڈرنے والے نہیں، ہم نے ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت مخالف قوتوں کا ڈٹ
کر مقابلہ کیا ہے اور آج بھی کررہے ہیں۔“
ارباب اقتدار کے یہ بیانات دراصل اسی کیفیت کے عکاس ہیں جس کا اظہار ہم
اوپر کرچکے ہیں، درحقیقت یہ بیانات اندورن خانہ ”ہیں کواکب کچھ اور نظر آتے
ہیں کچھ اور“ کی چغلی کھاتے ہیں، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ٹھیک کو کبھی
ٹھیک کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی، کیونکہ ٹھیک اور صحیح وہی ہوتا ہے جسے عوام
اور خلق خدا درست سمجھتی ہے، اگر مملکت کی عوام حکومتی اقدامات اور
کارکردگی سے مطمئین ہیں تو حکومت کامیاب اور مضبوط ہے، لیکن اگر عوام
مطمئین نہیں تو آپ کا یہ کہنا کہ حکومت مضبوط اور جمہوریت کو کوئی خطرہ
نہیں سوائے خود فریبی اور خوش فہمی کے اور کچھ نہیں، آج مملکت کے عوام اپنے
ارباب اختیار کی پالیسیوں اور طریقہ کار سے کتنے مطمئین ہیں اسے کسی اظہار
کی ضرورت نہیں، صرف یہ کہہ دینے سے کہ ایک چینل اور اخباری گروپ حکومت
گرانے کی سازش کررہا ہے، حقائق کو جھٹلایا اور بدلا نہیں جاسکتا ہے۔
اس وقت حالات کے تیزی سے بدلتے ہوئے منظر نامے طرح طرح کے سوالات اور شکوک
و شبہات کو جنم دے رہے ہیں، اب تو بین الاقوامی میڈیا بھی حکومتی پالیسی
اور کارکردگی پر حرف اٹھا رہا ہے اور اسے غیر تسلی بخش قرار دے کر نئی نئی
کہانیاں سنا رہا ہے، ایک اخباری رپورٹ کے دعویٰ کے مطابق زرداری حکومت
خاتمے کے قریب پہنچ چکی ہے اورامریکا صدر زرداری کی اقتدار پر کمزور ہوتی
ہوئی گرفت پر انتہائی پریشان ہے، مشہور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی
رپورٹ میں لکھا ہے کہ زرداری کی سیاسی کمزوریاں پاک، امریکی تعلقات کے لئے
اضافی خطرہ ہیں، اوباما انتظامیہ کو خدشہ ہے کہ زرداری کی پوزیشن کمزوری کی
طرف گامزن رہے گی اور اگر وہ اپنا عہدہ بچانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو صرف
علامتی صدر بن کر رہ جائیں گے، کیونکہ فوج انہیں پسند نہیں کرتی جبکہ
اپوزیشن اور اپنے وزیر اعظم کی طرف سے بھی انہیں چیلنجز درپیش ہیں، این آر
او کا قانون بھی اٹھائیس نومبر کو ختم ہوچکا ہے اور صدر کو بدعنوانی کے
الزامات کا بھی سامنا ہے، اس کے ساتھ انہیں منتخب حکومت کی برطرفی اور اعلیٰ
فوجی قیادت کی تقرری کے اختیارات سے محرومی کا چیلنج بھی در پیش ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے صدر کی جانب سے نیشنل کمانڈ کونسل کی سربراہی وزیراعظم کے
سپرد کئے جانے کو ایک بڑا واقعہ قرار دیتے ہوئے اسے صدر زرداری کی کمزوری
سے تعبیر کیا، نیویارک ٹائمز نے بھی اپنی رپورٹ میں تقریباً ایسے ہی خیالات
کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کی کمزوری نے افغانستان
میں درپیش مسائل کو مزید پیچیدہ کردیا ہے، صدر زرداری اس وقت اتنے کمزور
ہیں کہ ان کی حکومت ختم ہوتی نظر آرہی ہے، صدر کا نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی
سربراہی وزیراعظم کے سپرد کرنے کا اقدام بظاہر مواخذے یا عدالتی کارروائی
سے بچنے یا کم از کم صدر کے عہدے پر فائز رہنے کی کوشش نظر آتا ہے، ایک
امریکی عہدیدار کا کہنا ہے کہ سب کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور حقیقی خدشات
موجود ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے بالخصوص صدر آصف علی زرداری کی ذات کے
حوالے سے جو افواہیں گردش کررہی ہیں اور متعدد ”مائنس “ فارمولوں کے تذکرے
زبانِ زدعام ہیں اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ زیر گردش مجوزہ
فارمولوں کے حوالے سے دال میں کچھ کالا ضرور ہے، آج قومی اور بین الاقوامی
میڈیا کے خدشات، ملک میں گردش کرتی ہوئی افواہیں اور غیر یقینی سیاسی
صورتحال کی بنیادی وجہ حکومت کی قومی مسائل، انتخابی ایجنڈے اور آئین و
قانون پر عمل درآمد سے گریز اور صرف نظر ہے، گزشتہ پونے دو سال کے دوران
موجودہ حکومت نے جمہوری نظام کو پروان چڑھانے، قومی ایجنڈے کو آگے بڑھانے
اور جمہوری قوتوں کے تعاون سے اداروں کو مضبوط بنانے کی کوئی شعوری کوشش
نہیں کی اور نہ ہی معزول ججز کی بحالی، میثاق جمہوریت، پارلیمانی بالادستی،
لوڈشیڈنگ سے نجات کے وعدے، پرویز مشرف کے ٹرائیل، کیری لوگر بل اور اب این
آر او، ان میں سے کسی ایک بھی مسئلے کو حقیقی اسپرٹ کے ساتھ حل کرنے کی
جانب قدم بڑھایا بلکہ وقتاً فوقتاً ایسے ایشوز جو قومی، سیاسی اور جمہوری
نظام کیلئے ہی نہیں بلکہ ملک اور قوم کے مجموعی مفادات سے بھی متصادم تھے،
میں الجھ کر اپنے آپ کو بھی کمزور کیا۔
یوں 17ویں ترمیم کے خاتمہ میں ٹال مٹول، ججز کی بحالی سے اجتناب، این آر او
کے تحت مراعات یافتہ افراد کے تحفظ اور پرویز مشرف دور کی امریکہ نواز
پالیسیوں کو جاری رکھنے اور کرپشن و بے ضابطگی جیسے سنگین واقعات کو
سنجیدگی سے نہ لینے کی وجہ سے صرف پونے دو سال کے عرصہ میں مائنس ون، تھری،
فائیو اور آل جیسے فارمولے منظر عام پر آئے اور کیری لوگر بل کی قبولیت کے
علاوہ این آر او کی منظوری پر اصرار اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے موجودہ سسٹم کے
چل چلاﺅ کی باتیں ہونے لگیں، حالانکہ اگر حکومت چاہتی اور سنجیدگی سے کوشش
کرتی تو یہ مسائل ابتدائی مراحل میں حل کرکے مضبوط سیاسی و جمہوری نظام کی
بنیاد رکھی جا سکتی تھی، جس کے بعد حکومت یکسوئی سے مہنگائی، بے روزگاری،
کرپشن، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور دیگر عوامی مسائل پر قابو پاسکتی تھی، لیکن
ایسا نہیں ہوا۔
اٹھارہ فروری 2008ء کے انتخابات میں عوام نے جرنیلی آمریت اور اسکے تمام
ساتھیوں کو مسترد کر کے نئی حکومت کے ساتھ جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ نہ
صرف پوری نہیں ہو سکیں بلکہ انکے معاشی، اقتصادی حالات بھی مزید دگرگوں ہو
گئے، آج امن و امان کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہے، لوگوں کیلئے آٹا، چینی
اور روزی روزگار کا مسئلہ بھی سنگین ہو گیا ہے، غربت اور پسماندگی پہلے سے
بھی زیادہ بڑھ گئی ہے، بیروزگاری، بھوک اور افلاس کے ہاتھوں تنگ آکر لوگ
خودکشیاں کررہے یا اپنے جگر کے ٹکڑوں کو فروخت کررہے ہیں، گڈ گورننس کی یہ
حالت ہے کہ کہیں بھی حکومت اور حکومتی رٹ نظر ہی نہیں آتی، گویا موجودہ
جمہوری نظام میں عوام کیلئے سکھ کا سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے، اگر
قومی مسائل پر ڈیڑھ سال سے جاری خوشمنا بیانات، کبھی نہ پورے ہونے والے
وعدوں اور لایعنی دعوؤں سے مسائل حل ہونے ہوتے تو آج یہ صورتحال نہیں ہوتی۔
چنانچہ اس غیر یقینی حالات میں اگر عوامی اضطراب کی بنیاد پر افواہوں کی
صورت میں زیر گردش منفی مثبت فارمولوں میں صدر زرداری کو اپنی پارٹی کی
حکومت کیخلاف کسی سازش کی بو محسوس ہو رہی ہے تو انہیں قربانیاں دینے کا
دعویٰ کرنے کے بجائے، سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہئے کہ انکی پارٹی کے اقتدار
کیخلاف عوامی اضطراب کی نوبت کیوں آئی ہے اور اس میں انکے اپنے ساتھیوں اور
پالیسیوں کا کتنا کردار اور عمل دخل ہے، بلاشبہ سسٹم کو بچانے کی ذمہ داری
جمہوریت کا درد رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے جس کیلئے وہ
یکسو بھی ہیں مگر اس سسٹم کو قومی امنگوں کا ترجمان اور عوام کے دکھوں کے
مداوا کا باعث بھی تو ہونا چاہئے، اگر تمام سہولتیں اور مراعات اقتدار کے
ایوانوں میں نظر آئیں اور حکمرانوں کو اقتدار کے ایوانوں میں لانے والے
عوام بھوکے مریں، دربدر کی ٹھوکریں کھائیں اور ملک کی آزادی و خودمختاری
بھی خطرے میں پڑی ہو تو عوام کی ترجمانی کے دعویدار سیاسی قائدین چاہیں بھی
تو خود کو اس صورتحال سے الگ نہیں کر سکتے۔
اس لئے حکمرانوں کی اپنی پالیسیوں کا پیدا کردہ موجودہ عوامی اضطراب اگر
بقول صدر زرداری پیپلزپارٹی کی حکومت اور سسٹم کیخلاف سازش ہے تو انہیں خود
فیصلہ کرلینا چاہئے کہ اس کی اولین ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے، انہیں
الزام تراشی کے بجائے اصلاح احوال کی کوششیں اور اپنی پارٹی کی حکومت کو گڈ
گورننس کی مثال بنانا چاہئے، کیونکہ اپنے طرز حکمرانی میں موجود تمام
خامیوں کو دور کر کے ہی جمہوری نظام کے استحکام کو یقینی بنایا جاسکتا ہے،
بصورت دیگر انہیں پتے ٹوٹنے کی آوازیں اور ہوا کی کسی سرسراہٹ سے بھی اپنے
اور اپنی پارٹی کے اقتدار کیلئے خطرات محسوس ہوتے رہیں گے، حقیقت یہ ہے کہ
موجودہ جمہوری نظام کو غیرمستحکم کرنے کا کام کسی اخباری گروپ یا چینل نے
نہیں بلکہ موجودہ حکمرانوں نے خود انجام دیا ہے، اگر اخباری گروپ، میڈیا یا
چینلز حکومت بنا اور گرا سکتے ہیں تو ماننا پڑے گا کہ پرویز مشرف کی وردی
کا اترنا، اقتدار سے جانا، 18فروری کے الیکشن کا ہونا، پیپلز پارٹی کی
حکومت کا بننا اور ججز بحالی سمیت تمام معاملات اس ہی کے مرہون منت ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ٹرخالوجی اور لٹکالوجی کلچر اپنانا، عہد شکنی اور بار
بار وعدوں سے انحراف، عوام کے بنیادی مسائل سے صرف نظر، کیری لوگر بل اور
این آر او پر قوم کو اندھیرے میں رکھنے کی کوششیں اور قومی مفادات کو لاحق
سنگین خطرات جیسے مسائل میڈیا کے پیدا کردہ نہیں، بلکہ حکمرانوں کے اپنے
پیدا کردہ ہیں، میڈیا تو وسیع تر قومی اور عوامی مفاد میں ان حقائق کو منظر
عام پر لایا ہے، لہٰذا عقل و دانش کا تقاضہ یہ کہتا ہے کہ آئینہ توڑنے کے
بجائے اپنا چہرہ سنوارنے کی کوشش کی جائے، حکمران خوش فہمی اور خود فریبی
کے خول سے باہر نکلیں، حقائق کا ادراک کریں اور اپنے دستر خوانی مشیروں کے
بجائے حکمرانوں کی اصل قوت اور طاقت عوام سے پوچھیں کہ کیا وہ حکومت اور
حکمرانوں سے مطمئین ہیں، اگر ہیں تو سمجھ لیجئے کہ حالات کنٹرول میں ہیں،
ملک درست سمت میں گامزن ہے، صدر اور وزیر اعظم میں اختلافات کی خبریں بے
بنیاد ہیں، کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی ہے اور واقعی حکومت کامیاب مضبوط
اور جمہوریت کیلئے کوئی خطرہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ |