ملت کا پاسباں و اسلام کا نشاں محمد علی جناح

25 دسمبر یوم پیدائش قائد اعظم ایڈیشن

شیکسپئر کہتا ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہی عظیم ہوتے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کارناموں کی بدولت عظمت حاصل کر لیتے ہیں گو کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح میں عظمت و قابلیت اور نیک نامی کی ساری خوبیاں پیدائشی تھیں اور یہ خوش قسمتی ہمیں نصیب ہوئی کہ رب کائنات نے باب الاسلام سندہ کے مشہور شہر کراچی میں 25 دسمبر1876 بروز پیر کو جناح پونجا کے ہاں پیدا ہونے والے بچے جس کی پیدائش ہی کے وقت سے لوگوں نے اسے دیکھتے ہیں یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ بچہ ایک دن بادشاہ ہوگا اور یہ الفاظ اس وقت سچ ثابت ہوگئے کہ جب برصغیر میں ایک آزاد مسلم مملکت کے قیام کا وہ دیرینہ خواب جو مسلمانان ہند گزشتہ دو صدیوںسے دیکھتے چلے آرہے تھے وہ 14اگست1947 کو قائد اعظم محمد علی جناح کی مدبرانہ صلاحیتوں، فہم وفراست، غیر متزلزل عزم وہمت، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے مسلمانوں کی بقا وسلامتی کے خاطر ایک آزاد مملکت خداداد پاکستان کی شکل میں معرض وجود میں آگیا قائداعظم کی ابتدائی تعلیم 1876میں قائم ہونے والے الفینٹ ورنا کیولرمشن اسکول بولٹن مارکیٹ سے 1883 میں شروع ہوئی اس طرح اس درسگاہ سے انہوں نے چوتھی جماعت تک گجراتی میں تعلیم حاصل کی پھر ان کے والد محترم جو نہ صرف ایک معزز و معروف تاجر تھے بلکہ وہ خود بھی ایک معروف مشن اسکول میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دیتے تھے انہوں نے ان کا( قائد کا) چرچ مشن اسکول کے بجائے(1885 میں سرسید احمد خان کے مدرستہ العلوم علی گڑھ کے دس سال بعد قائم ہونے والے) سندہ مدرستہ الاسلام میں داخلہ 4 جولائی1887میں انگریزی کی پہلی جماعت میں دلوایا

مگر پھر قائد چند ماہ بعد ہی یہ مدرسہ بھی چھوڑ کر کراچی سے پرانی بمبئی (موجودہ ممبئی) تک کا اپنی زندگی کا پہلا اور لمبا سمندری سفر کیا اور بمبئی(موجودہ ممبئی) چلے گئے جہاں ان کے ماموں قاسم رہائش پزیر تھے یہاں سے قائد کی ساری زندگی سفر میں ہی گزری اگرچہ یہاں ممبئی میں انہیں کراچی سے زیادہ تعلیم کے مواقع میسر آئے یہاں ان کا داخلہ انجمن اسلام ہائی اسکول کی پھر انگریزی کی پہلی جماعت میں ہوگیا یہاں بھی قائد زیادہ عرصے نہ ٹھر سکے کیوں کہ وہ اپنی والدہ سے بے حد محبت کرتے تھے اس لئے وہ ان سے زیادہ دن کی دوری برداشت نہ کرسکے اس لئے وہ اپنی والدہ کی محبت میں بیتاب ہوکر ایک بار پھر کراچی چلے آئے جہاں قائد اپنی والدہ سے بے انتہا محبت کرتے تھے تو وہیں ان کی والدہ بھی اپنے اس عظیم بیٹے کو بے انتہا چاہتی تھیں اور وہ انہیں پیار سے محمد کہہ کر پکارتی تھیں یہاں کراچی پہنچ کر ان کا داخلہ ایک بار پھر سندہ مدرستہ الاسلام میں 23 دسمبر1887 میں ہوگیا اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھا ذہن عطا کیا تھا انہیں جب اور جہاں کوئی بھی موقع ملتا وہ وقت ضیاع کئے بغیر اپنی پڑھائی جاری رکھتے ان کے ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ ان کے والد ممبئی گئے تو وہاں بھی فوری طور پر ان کا اسکول میں داخلہ کروایا اور جب یہ واپس کراچی آئے تو یہاں بھی انہیں داخلہ دلوانے میں تاخیر نہ کی انہوں نے کسی بھی حال میں تعلیم کو نظرانداز نہ ہونے دیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور یہ زمانہ ہے 1890 کا جب محمد علی جناح پانچویں جماعت میں تھے جبھی ان کے والد نے ان کو انگلستان بھیجنے کا ارادہ کرلیا تھا تو ادھر ان کی محبت کرنے والی والدہ کا یہ اصرار بھی زور پکڑتا جارہا تھا کہ ہمارے محمد کی پہلے شادی کر دی جائے تو پھر ولایت بھیجا جائے ان کی والدہ کی صحت بھی اچھی نہ تھی اور ان کو یہ اندیشہ بھی تھا کہ ان کا بیٹا محمد کہیں ولایت سے کوئی میم نہ لے آئے آخر کار ان کی والدہ کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے محمد علی جناح جو خود ابھی بلوغت کی عمر کو نہیں پہنچے تھے ان کی امر بی سے نکاح ہوگیا ہاں البتہ !ان کی رخصتی نہیں ہوئی تھی یوں محمد علی جناح نے 31 اکتوبر 1892 کو چرچ مشن ہائی اسکول کی چھٹی جماعت چھوڑی اور جنوری1893 میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان روانہ ہوگئے یہاں پہنچ کر انہوں نے اپنے والد کو خط لکھا کہ مجھے لندن میں رہنے کی اجازت دیجئے تاکہ میں یہاں قانون کی تعلیم حاصل کرلوں ان کے والد نے کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے انہیں اس کی اجازت دے دی اور پھر یوں انہوں نے بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے اہلیت اور درسگاہ کے احاطے میں قدم رکھنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لئے ایک ابتدائی امتحان دیا یعنی یہ درسگاہ میں داخلے کا امتحان تھا

یہ امتحان انہیں یوں بھی دینا پڑا کہ قائد صرف چھٹی جماعت پاس تھے اور اس درسگاہ میں داخلے کی اہلیت میٹرک تھی واضح ہو کہ اس زمانے میں میٹرک دسویں کو نہیں بلکہ ساتویں کو کہتے تھے آخر کار 5جولائی1893کو لنکنز ان میں قائد کو داخلہ مل گیا اس زمانے میں لندن میں بیرسٹری کی تعلیم کے لئے چار ادارے تھے جن کو ان کہتے تھے اور یہ اب بھی موجود ہیں یوں1896کے وسط میں آپ لندن سے وطن واپس آئے تو اس وقت تک ان کا گھرانہ کراچی سے ممبئی منتقل ہوچکا تھا اور امر بائی کا بھی انتقال ہوچکا تھا اس طرح قائد بھی ممبئی چلے گئے اور یہاں پہنچنے کے بعد انہوں نے اپولو ہوٹل میں کمرہ نمبر110 کرائے پر لے کر اقامت اختیار کی اور 24اگست 1896 کو ہائیکورٹ کے رجسٹر میں اپنا نام درج کروایا اور باقاعدگی سے وکالت کرنے لگے ان دنوں مسلمانوں کی حالت سخت خراب تھی یہ 1906 کا زمانہ ہے واقعات بتاتے ہیں کہ اس دوران آپ کی سیاسی اور پارلیمانی زندگی کی ابتدا ہوئی کہ جب کلکتہ میں کانگریس کا سالانہ اجلاس ہوا تو انہیں اس اسلامی قانون اور برطانوی عدالتی کارروائی پر اظہارخیال کا پورا موقع ملا یہ قائد کی پہلی تقریر تھی جسے مؤرخ ان کی مذہبی و سیاسی تقریر قرار دیتے ہیں جو کسی پلیٹ فارم سے ہوئی تھی اس وقت تک آل انڈیا مسلم لیگ قائم نہیں ہوئی تھی جبکہ اس کی بنیاد انہی دنوں یعنی 30دسمبر1906 میں ڈھاکہ میں رکھی گئی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس مسلمانوں کی سب سے بڑی انجمن موجود تو تھی مگر وہ صرف ایجوکیشنل یعنی تعلیمی تھی جبکہ آل انڈیا نیشنل کانگریس کے نام سے ایک سیاسی جماعت انگریزوں نے قائم کر رکھی تھی اور مسلم وقف علی الاولاد کا مسئلہ اور اس کا 1906میں تازہ ہونا بیرسٹر جناح کی شہرت و کامیابی کا پہلا زینہ ثابت ہوا اس مسئلے پر ان کی کاوش، ذہانت و قابلیت نے مسلمانان ہند کے دل جیت لئے اور 26 دسمبر1907میں جناح نے کانگریس دوسرے گروہ کا ساتھ دیا کیوں کہ کانگریس کے ڈیلی گیٹس دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ایک گروہ انتہا پسندوں کا تھا اور دوسرا اعتدال پسندوں کا 1909 میں جناح ممبئی کے مسلم حلقے سے منتخب ہو کر امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں پہنچے یہاں آپ کا مقابلہ مولوی رفیع الدین سے تھا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے ان کو انتخاب میں شکست دی اسی طرح 1913 میں مسلمان وقف ویلیڈیٹنگ بل کے بارے میں سیللیکٹ کمیٹی کی رپورٹ پر امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں تقریر کے اس بل کی منظوری وائسرائے نے 7مارچ کو دی اور قانون بن گیا جو مسلمانان برعظیم کے حق میں عظیم الشان اہمیت کا قانون تھا اسی سال23-22 مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس لکھنو میں خصوصی دعوت پر شرکت کی اور اسی اجلاس میں سیلف گورنمنٹ سوٹ ٹو انڈیا کے لئے مسلم لیگ کا جدید نعرہ اور مطالبہ منظور کرلیا گیا پھر آپ لندن روانہ ہوئے اور 25جون کو کیکسٹن ہال ویسٹ منسٹر میں لندن انڈین ایسوسی ایشن کے قیام پر تقریر کی مولانا محمد علی اور سید وزیر حسن نے جو مسجد کانپور کے سلسلے میں لندن میں پہلے ہی سے موجود تھے ان کو آل انڈیا مسلم لیگ کارکن 10اکتوبر کو بنایا ان حضرات نے وہیں آپ سے دستخط لئے لندن سے واپسی پر انہوں نے انجمن ضیا الاسلام ممبئی کے جلسے کی صدارت 20دسمبر کو کی اور 27دسمبر کو کانتیس کے اجلاس کراچی میں شریک ہوئے اور پھر یہاں سے آپ سیدھے آگرا چلے گئے اور وہاں آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی اس وقت قائد اس کے باقاعدہ ممبر بن چکے تھے 1916میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس جو لکھنو میں 30 اور 31 دسمبر کو منعقد ہوا اس میں صدارت کی مجلس استقبالیہ کے چیئرمین نے آپ کو شاندار خراج تحسین یہ کہہ کر پیش کیا کہ اگرچہ یہ عمر کے لحاظ سے نسبتاً جوان ہیں لیکن انہوں نے ملک کی عوامی زندگی میں اپنا امتیاز قائم کرلیا ہے امپیریل لیجسلیٹو کونسل کے دوبارہ رکن منتخب ہوئے ممبئی کی پوانشل کانفرنس منعقدہ احمدآباد کی صدارت آپ نے اسی سال21 اکتوبر کو کی اور مسلمانوں کے لئے ایک جداگانہ انتخاب کی وکالت بھی کی مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان ہندو مسلم مفاہمت اور سمجھوتے کی صورت میں مشہور میثاق لکھنو بھی آپ ہی کی کوششوں سے وجود میں آیا اور اس پر دستخط ثبت ہوئے اور اس معاہدے کے ہیرو اور چیمپئن اور سفیر اتحاد قرار پائے

1928میں یکم جنوری کو کلکتہ میں ہونے والے مسلم لیگ کے اس اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے یہ اعلان کیا کہ برطانیہ عظمی کے خلاف یہ دستوری اعلان جنگ ہے ہماری مساوی حصہ داری سے انکار کیا گیا ہے ہم لوگ جدید تعلیم وتلقین (New Doctring) کی مخالفت اپنی بھرپور قوت سے کریں گے جلیانوالہ باغ جسمانی قصابی تھی اور سائمن کمیشن ہماری روح کو ذبح کرنے کی تدبیر ہے مسٹر جناح اور ان کے قریبی رفیق مولانا محمد علی جوہر دونوں یورپ میں تھے اس سال کے اواخر میں نہرو رپورٹ ان کو باہر ہی بھیجی گئی اور اس کی ایک کاپی بحری جہاز پر جون میں ان کو ملی انہوں نے نہرو رپورٹ کی سخت مخالفت کی اور مولانا محمد علی جوہر نے بھی مخالفت کی انہوں نے دسمبر میں مسلم لیگ کے اجلاس کلکتہ میں شرکت کی اور وہ اجلاس ہی میں علاضی صدارت سے ریٹائر ہوگئے1929میں مارچ میں قائد نے اپنے چودہ نکات مرتب کئے یہ اکثریت سے مفاہمت کی ایک تجویز تھی انہوں نے وزیراعظم انگلستان مسٹر ریمزے میک ڈونلڈ کو ایک خط لکھا اور گول میز کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی1930میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الہ آباد کے دوران، جس میں علامہ اقبال نے دسمبر میں مسلم انڈیا ودان انڈیا کی تجویز پیش کی قائداعظم گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے لندن جاچکے تھے اور وہ برعظیم کے معاملات سے اس قدر دلبرداشتہ ہوچکے تھے کی لندن ہی میں رہ جانے کا فیصلہ کرلیا یہ فیصلہ ایک خود اختیاری جلاوطنی تھی انہوں نے ویسٹ ہیتھ لندن میں ایک گھر بھی خرید لیا اور پریوی کونسل میں بیرسٹر کی حیثیت سے پریکٹس بھی شروع کردی1933 میں مسلم لیگ کا دہلی میں نومبر کے مہینے میں ایک اجلاس ہوا ایک گروپ نے جس کو مسٹر ایم اے جناح کی ملک میں واپسی اور متوقع موجودگی سے فائدہ اٹھاکر ایک قرارداد منظورکی لیگ دو گروپوں میں بٹ گئی تھی اسے یکجا کرنا تھا اور یوں1934 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی صفوں میں پڑنے والا یہ رخنہ 4 مارچ کو دونوں حلقوں کے مشترکہ اجلاس سے دور ہوا اور ایک قرارداد منظور کی گئی کہ اس تفرقے کو دور کیا جائے اس مسٹر جناح کو متحد جماعت کا صدر منتخب کیا جائے ایک ہی ماہ کے اندر مسٹر جناح کی آمد پر ان کا بڑا گرم جوشی سے استقبال ہوا اور انہوں نے مسلم لیگ کی تنظیم کا کام شروع کیا 1936میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں نوابزادہ لیاقت علی خان کو تین سال کے لئے اعزازی سیکریٹری منتخب کیا گیا 1937میں اکتوبر کے مہینے میں لکھنو میں مسلم لیگ کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت مسٹر جناح نے کی انہوں نے اپنے صدارتی خطاب میں بہ آواز بلند کہا کہ قوم کی حکومت، قوم پر مشتمل، قوم کی خاطر اور کہا کہ فیصلہ کرنے سے پہلے سو مرتبہ غور کرو جب فیصلہ کرلو تو پھر متحد ہو کر فرد واحد کی طرح مستعدی سے کھڑے ہوجاؤ اور قدم جمالو، صداقت اور وفاداری سے کام لو، تو میں پورا بھروسہ رکھتا ہوں کہ کامیابی تمہاری ہوگی اس طرح کلکتہ میں اپریل1938میں مسلم لیگ کے ایک خصوصی اجلاس سے مسٹر جناح نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ کسی شخص پر انحصار نہ کرنا بس صرف اپنی فطری و طبعی قوت پر انحصار کرنا چاہئے مسلمانوں نے ابھی تک یہ محسوس نہیں کیا ہے کہ ان کے اندر کیسی طاقت اور کیسی قوت پوشیدہ ہے اگر یہ صحیح طریقے سے منظم ومرتب اور متحد ہوجائیں تو ایک چٹان ہیں اسی سال دسمبر کے مہینے میں مسلم لیگ کا ایک سالانہ اجلاس پٹنہ میں ہو اور یہیں سے وہ قائداعظم مشہور ہوئے مسلمانان ہند کے دو عظیم رہنما ڈاکٹر اقبال اور مولانا شوکت علی نے رحلت کی اور ایک اور عظیم شخصیت، عالمی عظمت کی حامل شخصیت، مصطفے کمال نے بھی کوچ کیا اس اجلاس میں ان سب کی وفات پر تعزیتی قراردادیں منظور ہوئیں1939 کو عید کے روز 13نومبر کو قائداعظم کی تقریر نشر ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ ہے کہ قرآن مجید میں انسان کو خلیفہ اللہ کہا گیا ہے یہ لقب ہم لوگوں پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ قرآن مجید کا اتباع کریں اور دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کریں جو سلوک اللہ کا ساری انسانیت کے ساتھ ہے اور مارچ1940 میں لاہور میں مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس قائد کی صدارت میں ہوا اور وہاں قرارداد منظور ہوئی جو بعد میں قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی جس میں قائد اعظم نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا تھا کہ ہم لوگ برطانوی حکومت سے اس کی ضمانت چاہتے کہ ہندوستانی فوجوں کو کسی مسلمان ملک میں یا مسلمان طاقت کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا اور یہ ضمانت حکومت کو دینی پڑے گی

25دسمبر کو ان کی چونسٹھویں64ویں سالگرہ مسلم لیگ نے سرکاری طور پر کراچی میں منائی اور ایک سووینیئر ان کی خدمت میں پیش کیا اس موقع پر انہوں نے کہا کی اسلام توقع رکھتا ہے کہ ہر مسلمان اپنا فرض اداکرے گا اور 1942میں الہ آباد کے اجلاس سے قائداعظم نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ اب ہمیں بولنا کم ہے اور کرنا زیادہ ہے انہوں نے کرپس کی تجاویز پر تفصیل سے گفتگو کی اور اس کے مختلف پہلوؤں کی خوبی کو واضح کیا اس اجلاس نے ایک قرارداد کے ذریعے اختیارات کلی قائد اعظم کو سونپ دیئے اور سارے اجلاس نے بجز ایک شخصیت مولانا حسرت موہانی کے بالاتفاق اس قرارداد کی حمایت کی مولانا نے اس سے اختلاف کیا تو اجلاس نے بیٹھ جائیے، یبٹھ جائیے کا شور برپا کیا قائداعظم نے مجمع کو خاموش کیا اور کہا کہ آزادی تقریر ہر ایک کا پیدائشی حق ہے آپ مولانا کو اس حق سے نہیں روک سکتے ان کو موقع دیجئے کہ اپنا خیال پیش کریں اور اسی سال ماہ اکتوبر کو قائد اعظم نے عید پر ساری قوم کو پیغام دیا جس میں انہوں نے کہا کہ یہ عالمگیر جنگ مسلمانوں کی سرزمینوں پر دوسرے میدانوں کے مقابلے میں کچھ کم نہیں ہے مسلم ممالک اور سرزمینیں بھی میدان جنگ بنی ہوئی ہیں بلکہ سیاسی اور فوجی اعتبار سے نہایت اہم مقامات اور مراکز مسلم ممالک ہی میں ہیں1943میں آل انڈیا مسلم لیگ کا آخری اور تاریخی اجلاس کراچی میں ہوا مگر اس سے پہلے ایک سالانہ اجلاس اپریل کے مہینے میں دہلی میں ہوچکا تھا یہ برطانوی ہند کی راجدھانی کا آخری اجلاس تھا جس کے صدارتی خطات نے قائد اعظم نے کہا کہ مسلم اقلیت کے صوبوں کو فراموش نہ کرنا یہی لوگ ہیں کہ جب مسلم اکثریت کے صوبوں میں اندھیرا تھا انہوں نے سارے برعظیم میں روشنی بکھیری اجالا پھیلایا ۔1944اس سال گاندھی اور قائداعظم میں گفت و شنید ہوئی اس دوران قائد اعظم نے گاندھی کو قرارداد لاہور(پاکستان) پیش کی1945کو مرکزی اور صوبائی مجلس قانون ساز کے انتخابات ہوئے اور یہ انتخابات پاکستان کے مسئلے پر ہوئے مسلم لیگ نے مرکز میں تمام مسلم نشتیں حاصل کر لیں اور غالب ترین اکثریت صوبوں میں وائسرائے کی ایگزیکیٹیو کونسل میں توسیع کا اعلان ہو ا وائسرائے اور کانگریس دونوں میں سے کسی نے بھی مسلم لیگ کے اس دعویٰ کو نہ مانا کہ تمام مسلمان ممبروں کی نامزدگی کا حق صرف مسلم لیگ کو ہی حاصل ہے 1946 اپریل میں آل انڈیا مسلم لیگ لیجسلیٹرز کنونشن اینگلو اردو کالج میں منعقد ہوا یہ تاریخی کنونشن حقیقت میں مسلم انڈیا کی پارلیمینٹ کا اجلاس تھا 1947 وہ ماہ جون کی 3 تاریخ تھی اس روز تقسیم کے منصوبے پر قائد نے اپنا پیغام نشر کیا(تقسیم سے قبل) آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا آخری اجلاس دہلی میں منعقد ہوا قائداعظم اس اجلاس میں جوں ہی داخل ہوئے تو لوگوں نے شہنشاہ پاکستان کا نعرہ لگا کر استقبال کیا قائد اعظم نے سختی سے اس تصور کی مخالفت کی اور مسلم لیگ کے کارکنوں کو مشورہ دیا کہ وہ آئندہ اس لفظ کو پھر زبان پر نہ لائیں اور پھر بڑے فخر کے ساتھ کہا کہ میں پاکستان کا سپاہی ہوں شہنشاہ نہیں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت قرار دینے کا فیصلہ بھی اسی سال19جون کو کیا گیا 4جولائی کو برٹش گورنمنٹ نے انڈین انڈیپنڈنٹ ایکٹ پاس کیا قائد اعظم اپنی بہن محترم فاطمہ جناح کے ہمراہ 7اگست کو کراچی پہنچے 11اگست کو پاکستان کانسٹی ٹوئنٹ اسمبلی سے خطاب کیا اور مستقبل کی رہنمائی کی انہوں نے کہا کہ حکومت کا پہلا فریضہ امن وامان کو برقرار کھنا ہے تاکہ مملکت کی جانب سے عوام کو ان کی زندگی ، جائیداد اور مذہبی اعتقادات کے تحفظ کی پوری پوری ضمانت حاصل ہو اور آخرکار خداخدا کر کے وہ دن بھی آیا جس دن کے لئے مسلمانان برصغیر نے زبردست قربانیاں دی تھیں وہ مبارک دن 27رمضان المبارک 14اگست کا تھا اس روز اختیار و اقتدار منتقل کرنے کی تقریب ہو ئی لارڈ ماؤنٹ بیٹن، لیڈی ماؤنٹ بیٹن، قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح جلوس کی صورت میں اسمبلی کے ایوان میں پہنچے اس تقریب میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے امید ہے کہ رواداری کی جو روایت اکبراعظم نے قائم کی تھی پاکستان میں اسی کو اپنایا جائیگا قائداعظم تقریر کے لئے اٹھے اور انہوں نے لارڈماؤنٹ بیٹن کو جواب دیا کہ شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں سے جو رواداری برتی اور خیرسگالی کا جو مظاہرہ کیا وہ اس دور کی کوئی نئی پیداوار نہ تھی اس کی تعلیم 13سو سال قبل ہمارے رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دی ہے اور صرف الفاظ ہی کی صورت میں نہیں دی بلکہ عمل کر کے بھی بتایا ہے1948میں گورنر جنرل کی حیثیت سے ایچ ایم پی ایس دلاور کے قیام پر23جنوری کو خطاب کیا اور کہا کہ ادارہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جو اصول درج ہیں میں ان کی مکمل حمایت کرتا ہوں لیکن ہم لو گ اپنی دفاعی تنظیم اور حصول قوت کی طرف سے آنکھ بند نہیں کرسکتے ہمارے اپنے ملک کی مدافعت و دفاع کی اولین ذمہ داری ہماری اپنی ہے 14فروری کو سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے فرمایا کہ یہ میرا ایمان ہے کہ ہمار ی نجات ان سنہری ضوابط عمل کی تعمیل پر منحصر ہے کہ جو عظیم المرتبت مقنن پیغمبر اسلام نے عطا فرمائے ہیں آئیے ہم لوگ اپنی جمہوریت کی بنیاد اسلام کے سچے تصورات و اصول پر استوار کریں خدا قادر مطلق نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ اپنے معاملات (امارت و حکومت) کی تمام بحث وتمحیص کو باہم مشاورت سے طے کیا کرو۔ اس سال 19فروری کو ایک نشری تقریر کے ذریعے انہوں نے باشدگان آسٹریلیا کو مخاطب کیا کہ لیکن (دیکھنا) تم کسی غلطی میں نہ پڑنا پاکستان کوئی تھیوکریسی (پاپائیت) نہیں ہے نہ اس قسم کی کوئی اور چیز ہے قائداعظم نے 21فروری کو ایک رجمنٹ ملیر کراچی کے آفیسروں اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے آفیسروں کو یہ تلقین کی کہ اب تم لوگوں کو اس امرکی نگرانی کرنی ہے کی اسلامی جمہوریت (اسلامک ڈیموکریسی) اسلامی عدل اجتماعی (اسلامک سوشل جسٹس) اور انسان انسان کی برابری اور مساوات کی ترقی خود تمہاری اپنی سرزمین کے اندر ہو 21مارچ کو قائد اعظم نے ڈھاکا کے جلسئہ عام میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے دشمن جب قیام پاکستان کی مہم کو روکنے میں ناکام ہوگئے تو اب انہوں نے اپنی اس نامرادی سے بدحواس ہو کر اس بات پر اپنی توجہ مرکوز کردی ہے کہ خودمملکت پاکستان کو درہم برہم کریں اور مسلمانان پاکستان کے اندر تفرقہ اندازیاں کریں اور ان کو باہم متصادم کریں یکم جولائی کو کراچی میں قائد اعظم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ہمیں لازمی طور پر اپنی تقدیر سازی کا کام خود اپنے نظام اور اپنے سسٹم کی بنیاد پر انجام دیناہے اور دنیا کے سامنے ایک معاشی و اقتصادی نظام(اکانومک سسٹم) پیش کرناہے جو مساوات انسانی اور عدل اجتماعی کے صحیح اور سچے اسلامی تصورات پر مبنی ہو اور پھر اسی سال 7 اگست کو عیدالفطر کے موقع پر میرے عظیم رہبر قائداعظم نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو آخری پیغام دیا اور اس میں فرمایا کہ میری آخری تمنا یہ ہے کہ عالم اسلام کا ایک متحد محاذ قائم کیاجائے،اور14اگست کو پاکستان کے پہلے یوم آزادی کے موقع پر قائداعظم نے قوم کو اپناآخری پیغام دیا اس کے بعد وہ زیارت سے کراچی واپس تشریف لائے جو ان کی سرزمین پیدائش ہے اور یہیں آکر اس ملت کے پاسبان اور اسلام کے نشان محمدعلی جناح نے 11ستمبر کوآخری سانس لی اور کروڑوں محبت کرنے والوں کو چھوڑگئے اناللہ واناالیہ راجعون (بحوالہ کتاب میرے قائداعظم)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 900279 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.