صدر زرداری کی کمزور ہوتی حکومتی
گرفت سے امریکا پریشان کیوں ہے؟
وزیر اعظم کا یہ کیسا سچ ہے؟ حکومت کا سربراہ میں ہوں زرداری نہیں....؟
حکومت + اوگرا+ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور+ مظلوم عوام
گو کہ دنیا کے ہر مہذب معاشرے کی بنیاد سچ کی پروش کی ہی پاداش میں کھڑی کی
جاتی ہے مگر دوسری طرف اُس معاشرے کا بھلا کیا کیا جائے کہ جس معاشرے کی
بنیاد تو حق و سچ کے اصولوں پر تو رکھی جائے مگر بعد میں اِس معاشرے کی
بنیاد وںمیں جھوٹ اور مکروفریب کی مصنوعی خوبصورتی کی آمیزیش شامل کرلی
جائے تو کسی ایسے معاشرے کا کیا بنے گا؟ جس کا اپنا دامن ہی رفتہ رفتہ جھوٹ
اور مکروفریب کے ناسور سے جگہ جگہ سے چھلنی ہوگیا ہو تو پھر ایسا معاشرہ
اور اِس معاشرے کے لوگ دنیا کے کسی بھی تہذیب یافتہ قوم کے مدمقابل کیسے
کھڑا ہوسکتے ہیں کہ جس معاشرے کی خاصیت ہی یہ ہو کہ اِس معاشرے کا ہر فرد
یہ جانے کہ جھوٹ تمام گناہوں کی ماں اور سچ سب برائیوں کا علاج ہے اور اِسی
طرح دنیا کا جو بھی معاشرہ اِس کلیہ پر سختی سے کاربند رہا کہ سچائی
کامیابی کا سبب اور جھوٹ رسوائی کا مؤجب ہے تو دوسری طرف یہ اِس پر بھی ڈٹا
رہا کہ سچ کہنے کی عادت ڈالو چاہے وہ کتنی ہی کڑوی ہو سچ سننے کی عادت ڈالو
چاہے وہ تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو تو اِسے معاشرے نے ہی دنیا میں اپنا
مثالی کردار ادا کیا اور آج بھی دنیا کی بہت سی اقوام اُس معاشرے کی تقلید
کرتے ہوئے خود کو اِس جیسا بنانے کی جستجو میں مگن دکھائی دیتی ہیں کہ جن
کی عمارت سچ کی مضبوط بنیادوں پر کھڑی ہیں۔
تھامس بروکس کا ایک قول ہے کہ سچائی ایک بہت بڑی قوت ہے جو بالآخر غالب آکر
ہی رہتی ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ اِس خبر نے یہ ثابت کردیا ہے کہ سچ
چھپائے نہیں چھپتا اور جھوٹ چلائے بھی نہیں چل سکتا اور اِس کے ساتھ ہی اِس
خبر نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی بھی کردیا ہے کہ جو گزشتہ دنوں ہمارے
ہر اخبار اور چینل کی پہلی خبر بنی رہی کہ” دو معتبر امریکی اخبارات نے
متواتر اپنی رپورٹس میں اِن خدشات کا کھل کر دعویٰ کیا ہے کہ اوباما
انتظامیہ پاکستان میں بیشتر معاملات پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی
کمزور ہوتی ہوئی گرفت پر انتہائی پریشان ہے اِس حوالے سے یہاں میرے نزدیک
یہ باعث تشویش ہے کہ آخر امریکا کو کیا پڑی ہے کہ وہ پاکستان میں صدر
زرداری کی کمزور ہوتی حکومت سے پریشانی میں مبتلا ہے اس لئے کہ پاکستان میں
کسی کی حکومت بنانے اور کسی کو حکومت سے ہٹانے میں امریکا کا پورا ہاتھ
ہوتا ہے اور اِس بار بھی جلد ہی امریکا یہ چاہتا ہے کہ کسی بھی طرح سے صدر
زرداری کی حکومت کو مستحکم کیا جائے یا اگر اِس سے بھی کوئی کام نہ بنے تو
اِن کی حکومت ختم کر کے اپنی مرضی کا کوئی صدر پاکستان میں جلد لایا جائے
جبکہ اِس کے ساتھ ہی آگے چل کر اِن رپورٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکا
کو اِب یہ یقین ہوگیا ہے کہ پاکستان میں صدر آصف علی زرداری کی حکومت بہت
جلد اپنے خاتمے کے قریب پہنچ گئی ہے جس کے مطابق واشنگٹن پوسٹ نے پاکستانی
صدر آصف علی زرداری کے دل کو ہلا دینے والی سچ سے قریب تر ایک رپورٹ میں
تحریر کیا ہے کہ زرداری کی سیاسی کمزوریاں پاک امریکی تعلقات کے لئے اضافی
خطرہ ہیں اور اوباما انتظامیہ کو یہ خدشہ بھی ہے کہ پاکستانی صدر زرداری کی
پوزیشن کمزوری کی طرف تیزی سے گامزن ہے اور اِس کے ساتھ ہی اِس اخبار نے یہ
دعویٰ کیا ہے کہ اور اگر زرداری اپنا عہدہ بچانے میں کامیاب ہوگئے تو بھی
یہ صرف ایک علامتی صدر بن کررہ جائیں گے اِس کے علاوہ اِس اخبار نے اپنا
خدشہ اِس سچ کے ساتھ تحریر کیا ہے فوج انہیں پسند نہیں کرتی جبکہ اپوزیشن
اور اپنے وزیراعظم کی طرف سے بھی انہیں چیلنجز درپیش ہیں اور اِسی طرح اِس
اخبار نے اپنی اِس رپورٹ میں یہ لکھا ہے کہ این آر او کا قانون بھی
28نومبر2009 کو ختم ہوچکا ہے اور صدر زرداری کو بدعنوانی کے الزامات کا بھی
سامنا ہے اور اِس کے ساتھ ہی امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی اِس رپورٹ
میں یہ بھی کھل کر لکھا ہے کہ پاکستانی صدر آصف علی زرداری کو منتخب حکومت
کی برطرفی اور اعلیٰ فوجی قیادت کی تقرری کے اختیارات سے محرومی کا چیلنج
بھی درپیش ہے۔
میرے خیال میں ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان میں جمہوریت کا پودا ابھی
پوری طرح سے اپنی جڑیں پھیلا بھی نہیں پایا ہے امریکی اخبار کو پاکستان کے
منتخب صدر آصف علی زرداری سے متعلق ایسی رپورٹیں شائع کرنے سے اجتناب برتنا
چاہئے کہ جس سے پاکستان میں منتخب صدر کی شخصیت کا کردار مشکوک ہوجائے اور
ملک میں جاری جمہوری عمل رک جائے۔
یہ اور بات ہے کہ امریکی اخبار نے جتنا لکھا اور جو لکھا وہ یقیناً سچ پر
مبنی ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی مگر جیسا بھی ہے امریکی اخبارات کو
پاکستانی صدر زرداری سے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے پاکستان میں جاری جمہوری
عمل کے بارے میں یہ بھی ضرور سوچنا ہوگا کہ یہ وقت پاکستان میں جمہوری عمل
کو پروان چڑھانے کا ہے ناں کہ اِس عمل میں روڑے اٹکانے اور پاکستانی جمہوری
حکومت کو ختم کرنے کاوقت ہے۔
پاکستان کی حکومت اور عوام کے لئے بھی امریکی اخبارات کا یہ طرزِعمل باعث
تشویش ہے کہ امریکی اخبارات پاکستان سے متعلق اتنے سچ کا سہارا کیوں لیتے
ہیں کہ بسا اوقات پاکستان میں چلتی ہوئی اچھی بھلی جمہوری حکومت اِن کے سچ
کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہیں ابھی عوام امریکی اخبارات میں چھپنے والی اِن سچی
رپورٹوں پر ہی تشویش میں مبتلا تھے تو ادُھر ہی دوسری طرف پاکستانی وزیر
اعظم یوسف رضا گیلانی کے اِس سچ پر مبنی بیان نے پاکستانی صدر آصف علی
زرداری اور قوم کو بھی تذبذب ڈال دیا ہے کہ”اِس وقت ملک پر حکومت صدر آصف
علی زرداری نہیں بلکہ وہ خود کر رہے ہیں اور میں ہی چیف ایگزیکیٹو کی حیثیت
سے حکومتی سربراہ ہوں، صدر زرداری نہیں البتہ انہوں نے اتنا کچھ کہنے کے
بعد اتنا ضرور کہا کہ میرے ساتھ صدر کے اختلافات کی خبریں بے بنیاد ہیں اور
اِس کے ساتھ ہی اِن کا اِس عزم کے ساتھ یہ کہنا تھا کہ پاکستان کی لیڈر شپ
متحد ہے ۔؟
میرے خیال سے اگر وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے اِس سچ کی روشنی میں
دیکھا جائے تو یہ بات حقیقت معلوم دیتی ہے اور واقعی ایسا ہی لگتا ہے کہ
ملک پر حکومت صدر آصف علی زرداری نہیں بلکہ وزیر اعظم خود کر رہے ہیں کیوں
کہ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کسی بھی ملکی معاملے میں کہیں بھی کوئی
ٹھہراؤ نظر نہیں آرہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب ! ذرا معاف کیجئے گا! اور آپ بھی
اِس سچ کو تسلیم کریں آپ کے تمام اچھے احکامات اور اقدامات اپنی جگہ ہیں
مگر یہ بھی آپ مانیں کہ آپ کی طبیعت میں بھی ذرا ٹھہراؤ کا فقدان ہے اگر آپ
کی طبیعت سے ٹھہراؤ میں کمی کی یہ خامی ختم ہوجائے تو آپ کے اِب تک ملکی
اور بین الاقوامی طور پر کئے گئے بہت سے اقدامات بھی ملک اور قوم کے لئے
کارآمد ہوجائیں۔ اور جہاں تک آپ کی یہ بات ہے کہ پاکستان کی لیڈر شپ متحد
ہے ....؟تو اِس حوالے سے ایک میں ہی کیا پورا پاکستان اور ساری دنیا بھی یہ
بات اچھی طرح سے جانتی اور محسوس بھی کرتی ہے کہ پاکستان کی لیڈر شپ متحد
نہیں ہے۔ اِس کی کیا وجہ ہے یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ پاکستان کی لیڈر شپ
متحد کیوں نہیں ہے۔ اور اگر کوئی انہیں متحد کرنا بھی چاہے تو یہ کسی بھی
صورت میں متحد نہیں ہوسکتے کیوں کہ اِن میں برداشت اور عفو و درگزر کا مادہ
ہی نہیں کہ یہ ایک دوسرے کو برداشت کرسکیں۔ اور جس دن پاکستان کی لیڈر شپ
میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور عفو و درگزر کا عنصر پوری طرح سے غالب
آجائے گا تو اُس دن پاکستان کی لیڈر شپ متحد ہوجائے گی۔
اِن تمام باتوں کا اصل نچوڑ یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے پودے کو ابھی
اچھی طرح سے جڑ تو پکڑنے دیا جائے اور ایک اِیسا قدآور درخت تو بنے دیا
جائے کہ اِس کے سائے سے پاکستانی عوام اور سیاستدانوں مستفید تو ہوسکیں
ابھی سے یوں ہی ملکی اور عالمی طور پر پاکستان کے جمہوری عمل کے ننھے سے
پودے کو یوں تنقیدوں کا نشانہ بنا کر اِسے مرجھانے کے لئے نہ چھوڑ دیا جائے
کہ پاکستان میں جمہوریت کا جاری عمل رک جائے اور پاکستان میں جمہوریت کا
شیرازہ بکھر جائے۔ اور اِس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر اپنی
حکمرانی کے نشے میں ایک بار پھر کوئی جابر فاسق و فاجر آمر امریکی اشاروں
پر اپنے بوٹوں تلے جمہوریت کے پودے کو مسلتا ہوا مسلط ہوجائے۔ اور ہم اپنی
بغلیں جھانکتے رہ جائیں۔
بہرکیف!چلتے چلتے میں آج کے اپنے اِس کالم میں اِس کا بھی تذکرہ انتہائی
افسوس کے ساتھ کرتے چلوں کہ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے
کے تمام اختیارات اوگرا کو دے کر ملک کی ساڑھے سترہ کروڑ عوام کے ساتھ اپنے
ظلم کی انتہا کردی ہے اور یہ سب کچھ ایک ایسی حکومت کے دور میں کیا گیا ہے
کہ جس کا برسوں سے یہ ایک ہی روٹی، کپڑا اور مکان کا انتہائی دلفریب نعرہ
ہے کہ جس کے جھانسے آکر قوم اِسے ووٹ دے کر اقتدار سونپتی ہے جی ہاں! اِس
ہی حکومت نے عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے لئے پیٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں کا تعین کا حق اوگرا کے ہاتھوں میں دے کر جو ستم پاکستانی قوم کے
ساتھ کیا ہے اِس پر پوری پاکستانی قوم حکمرانوں سے یہ سوال کرتی ہے کہ اگر
حکومت نہیں چلاسکتے تو اپنے عہدوں سے مستعفی کیوں نہیں ہوجاتے؟ کیا عوام پر
ظلم و ستم کرنے کے لئے ہی مسندِ حکمرانی پر قابض ہوئے ہیں؟ گزشتہ دونوں
ایام میں عیدالضحیٰ میں جب پوری پاکستانی قوم سنت ابراہیمی ادا کرنے کے لئے
قربانی کے جانور پر چھری پھیر رہی تھی تو اُدھر ہی دوسری طرف موجودہ حکومت
نے آئی ایم ایف جیسے دنیا کے بڑے سود خور ادارے کی خوشنودی کے لئے اِس کے
ظالمانہ مشورے پر ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ
کرلیا اور جیسے ہی پاکستانی قوم ایام بکراعید سے جانوروں کے گلوں پر چھری
پھیر کر فارغ ہوئی تو ویسے ہی اِس ظالم حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی
قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر کے عوام گلے پر مہنگائی کی چھری پھیر کر عید
کا تحفہ دیا جو سراسر ظلم ہے۔ |