9\11کے بعد سابق امریکی
صدر جارج بش ڈبلیو نے جب صلیبی جنگوں کی بات کی تودراصل مستقبل میں صلیبوں
کی طرف سے یہ عالمِ اسلام کے خلاف اعلان جنگ تھا جس کا سرخیل یہودی حمایت
یافتہ خود جارج بش ڈبلیو تھا ․اگر چہ اس اعلان پر مسلمانوں کے غیظ و غضب سے
مجبور ہو کر اس نے اپنے الفاظ واپس تو لے لیئے مگر امریکہ اور اس کے صلیبی
اتحادیوں نے اپنی فوجوں کو واپس نہیں بلایا ․انہوں نے اپنے اس ابلیسی
منصوبے کو دل میں بسائے رکھا اور ابھی تک دل میں ہی ہے ․ ان کے دلوں میں
چھپی ہوئی اسلام دشمنی کو قرآن بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔ ’’ ان
کی دشمنی تو ان کی باتوں ہی سے ظاہر ہے لیکن جو کچھ ان کے دلوں میں چھپا
ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے ‘‘ ۔ پچھلے چودوہ سالوں سے افغانستان ،
پاکستان اور عراق پر دہشت گردی کے نام پر کئی گئی ننگی جارحیت اس کی سب سے
بڑی دلیل ہے ․ امریکہ اور اس کے صلیبی اتحادیوں کا Crusade Strategy کا یہی
وہ خفیہ نعرہ تھا جس کے تحت وہ امتِ مسلمہ کو ختم کرنے کی نیت باندھ چکے
تھے ․
امریکہ کی زیر قیادت چالیس ممالک کے اتحاد کی خبر مجھے ماضی کی طرف لے گئی
․ جب امریکہ نے 2003میں کیمیائی ہتھیاروں اور القاعدہ کی موجودگی کا سفید
جھوٹ بول کر صلیبی اتحادیوں سے ملکر عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی ․
لیکن آج تک وسیع پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیار کبھی نہیں ملے ․ اس سے
قبل 2اگست 1990کوجب صدام حسین نے امریکی آشیر باد سے کویت پر حملہ کر کے اس
پر قبضہ کر لیا ․ تو اس وقت بھی د نیا نے دیکھا کہ امریکہ کی زیرِ قیادت
عالمی اتحاد نے عراق میں کشت وخون کا ڈھیر لگا دیا ․ اس دوران 15لاکھ سے
زائد عراقی مسلمان صہیونیوں کے مکروہ عزائم کا شکارہو گئے ․ اسی طرح گذشتہ
تین سالوں سے مشرقِ وسطیٰ کے عوام کو رنگ ونسل ، قومیت ، فرقے اور مذہبی
تعصبات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے ․ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس وقت سے
لیکر آج تک صلیبی فورسزنے بحر متوسط The Mediterranean Sea، خلیج
عربArabian Gulf کے پانیوں ، سعودیہ ، کویت ،قطر ، بحرین ، عراق اور
پاکستان و افغانستان میں ڈیرے جمائے ہوئے ہیں ․ اب تیسری بار پھر امریکہ ،عراق
پر ’’ داعش ‘‘ کی آڑ میں 40ممالک کا اتحاد قائم کر کے حملہ آور ہونے کے پر
تول رہا ہے اور بہانہ یہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں اور انکے اڈوں
کو نشانہ بنائے گا․ ( دہشت گرد اور دہشت گردی ) کے اس بودے اور بدنام جواز
کی آڑ میں فتنہ گر یہودی ساری دنیا اور خاص کر امتِ مسلمہ پر اپنا گریٹر
اسرائیلی منصوبہ ( دجالی سلطنت ) کی راہ ہموار کر رہے ہیں ․ ایک بار پھر
عراق کا عرق نکالنے کی مکمل سازش تیار کر لی گئی ہے ․ اورعراقی حکومت نے
بھی ’’ دولتِ اسلامیہ‘‘ کا راستہ روکنے کے لیئے سلامتی کونسل میں قرارداد
پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ․
صہیونی امریکیوں و مغربی ممالک کا حدف صرف شام و عراق ہی نہیں بلکہ پورے
مشرقِ وسطیٰ سمیت جنوبی ایشا کا علاقہ بھی شامل ہے ․ لیکن اس وقت درپردہ
صہیونی و امریکہ عراق پر حملے کے لیئے اتنے بے چین کیوں ہیں ؟ اس کی کچھ
وجوہات ہیں جو کہ منددجہ ذیل ہیں ․ اس سے قبل ہم محترم قارئین کو یہ بھی
بتاتے چلے کہ ماہ جولائی میں ہی راقم نے یہ کہہ دیا تھا کہ امریکہ اپنے
حلیفوں سمیت عراق پر ایک بار پھر حملہ آور ضرور ہو گا ․
( 1 ) ۔ ماہ اگست میں النصرۃ محاذ اور اس کے اتحادی جنگجوؤں نے دمشق سے
67کلومیٹر دور اسرائیلی سرحد پر واقع شہر القنیطرہ پر حملے شروع کیئے اور
گولان سے متصل علاقوں پر قبضہ کر لیا ․اس علاقے کے اسی فیصد قصبوں اور
دیہاتوں پر سے بشار علوی فورسز کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے ․ واضع رہے کہ
ناجائز صہیونی ریاست نے 1967کی چھے روزہ جنگ کے دوران شام کی گولان کی
پہاڑیوں کے 1200مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر کے صہیونی ریاست میں ضم کر
لیا تھا ․ گولان کی پہاڑیوں سے متصل علاقے پر قبضے کا مطلب ناجائز صہیونی
ریاست ( اسرائیل ) میں داخلے کا پروانہ مل جانا․ جس سے ملعونوں کی نیندیں
اڑ گئی ہیں ․
( 2) ۔ مکار و عیار ملعونوں نے غزہ پر حالیہ ننگی جارحیت کے دوران اس شرط
پر جنگ بندی قبول کی تھی کہ آئندہ اسرائیل کو کسی بھی پیش آئندہ خطرات کی
سامنا کرنے پر امریکی حکومت اس کو سیکورٹی مہیا کرے گئی ․ یعنی اس معاہدہ
کی آڑ میں ناجائز صہیونی ریاست کی سکیورٹی کو امریکہ اور اس کے مغربی
اتحادیوں کے ہاتھوں یقینی بنا لیا گیا ہے ․ (اس کا صاف مطلب ہے کہ ناجائز
صہیونی ریاست پر حملوں سے قبل امریکیوں اور صلیبیوں سے معرکے لڑنا پڑے گئے
․ )
( 3 ) ۔ امریکہ سمیت یورپی معا شروں میں تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی اسلام کی
اشاعت سے انکی حکومتیں شدیداسلام فوبیا میں مبتلاء ہو گئیں․اپنے معاشروں کو
اسلام سے دور کرنے کے لیئے ایک سازش کے تحت یورپی شباب اور نو مسلموں کو
شام بھیجا گیا تاکہ وہ مزاحمتی تحریکوں میں شامل ہو کر بشار کے غلم وستم کو
روکنے میں مدد دیں ․ لیکن جب شام میں اسلام پسندوں نے قوت پکڑی تو صہیونی
زدہ پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا نے ان کامیابیوں کو ( دہشت گردی ) کا نام دے
کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم انداز میں اپنے اپنے معاشروں میں پیش
کیا․ جس کے بعد ان معاشروں میں اسلام و مسلمانوں کے خلاف منفی رجحانات نے
جنم لینا شروع کر دیا ․
( 4 ) ۔ اس سارے صیہونی کھیل کا اصل میدان سرزمینِ شام ہے ․ جس کے لیئے
امریکہ و مغربی اقوام بہت عرصہ سے یہاں پر فوجیں اتارنے کے مواقع کی تلاش
میں تھیں لیکن ان کو کوئی بہانہ نہیں مل رہا تھا ․ جب 2013میں بشار حکومت
نے نہتے بے گناہ مسلمانوں کے خلاف کیمیائی گیس استعمال کی تو امریکہ کو شام
میں فوجیں اتارنے کا ایک موقع ہاتھ لگا تھا لیکن روس و چین کی دھمکیوں اور
ڈپلومیسی کی وجہ سے امریکہ کو اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑا․ اب عراق میں داعش
کی پیش قدمی رکنے کا نام ہی نہی لے رہی ․ تو امریکہ کو ایک بہانہ مل گیا کہ
وہ عراق کے ساتھ ساتھ شام پر بھی surgical airstrikeکرے ․لیکن ا مریکہ اس
دفعہ اس بہانے شام میں اپنی فوجیں ضرور اتارے گا کیونکہ امریکہ شام میں
بشار کی حکومت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہم نوا جنگجوؤں کو بھی بھر
پور طریقے سے مسلح بھی کرنا چاہتا ہے ․ تاکہ مستقبل میں شام میں بڑھتے ہوئے
مجاہدین اسلام کا راستہ روکنے کے لیئے ان جنگجوؤں کو استعمال کیا جا سکے ․
جس طرح وہ افغانستان میں کر رہا ہے ․ہو سکتا ہے حالات کے تحت وہ عراق میں
بھی اپنی فورسز اتار دے ․
جبکہ روس ، شام اور ایران اپنے طور پر امریکہ کو اس جارحیت سے باز رکھنے کے
لیئے سرگرم ہو گئے ہیں ․ 14ستمبر کو ایرانی قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری
جنرل علی شمخانی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ دہشت گردی کی آڑ میں شام پر
حملے سازش کر رہا ہے ․اور واشنگٹن اس سے قبل پہلے بھی کئی دوسرے ممالک کی
سلامتی اور خود مختاری سے کھیل چکا ہے ․جبکہ روس نے سلامتی کونسل کی منظوری
کے بغیر کسی بھی ایسے اقدام کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کیا ہے ․اسی طرح
شامی حکومت کی جانب سے یہ اشارہ بھی دیا جا چکا ہے کہ اگر امریکہ نے دمشق
کی منظوری کے بغیر اس کی سرزمین پر حملے کیئے تو غیر ملکی جنگی طیاروں کو
مار گرایا جائے گا ․
درحقیقت صہیونی حمایت یافتہ امریکی فورسز کا اصل حدف داعش نہیں بلکہ سرزمین
شام ہے جس کو آنے والی جنگوں کے لیئے تیار کیا جارہا ہے ․ تو کیا شام ،
عراق ، غزہ اور افغانستان میں شروع کیا گیا ابلیسی کھیل تیسری عالمی جنگ کی
شروعات ہیں جو آخر کار’’ ہرمجدون ‘‘کی ہولناک جنگ کی شکل اختیار کر لے گی ؟
جن کے پس پشت ملعون یہود ہیں جو نصاریٰ کی طرح نجات دہندہ کی آمد کا عقیدہ
رکھتے ہیں ․ اور موجودہ دور کو ہی وہ اس کی آمد کا وقت سمجھ رہے ہیں ․
دونوں میں صرف تفصیلات کا فرق ہے اس لیئے اس تطہیری جنگ میں ان دونوں کی
حثیت اُمت واحد اور ملتِ واحد کی سی ہے ․ یہی وہ وجوہات ہیں جس کے لیئے
امریکی صہیونی لیڈروں نے الہامی انداز میں ’’ دنیا کے خاتمہ ‘‘ کی باتیں
بھی کرنا شروع کر دی ہیں ․ اور ’’ دجالی سلطنت ‘‘ کی تکمیل کے مکروہ
منصوبوں کے لیئے کمر بستہ ہو گئے ہیں ․ |