جمہوریت کو این آر او سے سینچنا
حکمرانوں کی بڑی غلطی ہوگی
حکمران جماعت میں انتقامی سیاست کارجحان
سیاست کرنا تحمل مزاجی اور تدبر والوں کا کام ہے....؟
ذوالفقار مرزا کی پریس کانفرنس ایم کیوایم اور سندہ کی سیاست
ایک ایسے وقت میں کہ جب پورے ملک میں این آر او کو ہدف تنقید بنایا جا رہا
ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت این آر او پر ہونے والی تنقیدوں
کی پرواہ کئے بغیر ہی ملک میںجمہوریت کو این آر او سے سینچنا چاہ رہی ہے جو
کہ حکمرانوں کی ایک بڑی غلطی ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا غیر قانونی عمل دنیا
کی کسی بھی جمہوریت کے لئے ہرگز سودمند ثابت نہیں ہوسکتا کہ جس پر عوامی
اور سیاسی آرا اِس کے کھلم کھلا مخالف ہو۔ اور اِن حالات میں پاکستان پیپلز
پارٹی کی حکومت این آر او کی حمایت وجہ کی سے حسب روایت ایک بار پھر
اسٹیبلشمنٹ کی سازشوں کے حوالے سے ایک تر نوالہ بن چکی ہے اور اِس سے قطعاً
انکار نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اِس حکومت کے خلاف ایسے حالات پیدا
کئے جارہے ہیں کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری نہ کرسکے اور یہ حکومت تنگ آ کر
اپنا اقتدار خود چھوڑ جائے۔ اِن حالات میں تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ
پاکستان پیپلز پارٹی والے حالات کی نزاکت کو سمجھتے اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب
سے اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والے تمام سازشوں کا اپنے اتحادیوں کے ساتھ
مل کر مقابلہ کرتے اور یہ ثابت کرتے کہ ہماری حکومت ہر اعتبار سے مستحکم ہے
اور ہم اپنی حکومت کے خلاف کی جانے والی اندورنی اور بیرونی سازش کو اپنے
اتحادیوں کے ساتھ مل کر ناکام بنادیں گے۔
مگر ہائے رے افسوس کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت یہ بات سمجھنے سے
قاصر نظر آتی ہے اور وہ یہ بات بھی شائد بھول رہی کہ پرویز مشرف جیسا آمر
بھی پورے ملک سے اپنی مخالفت کے باوجود اپنی حکومت کے نو سال محض اپنی اِس
حکمت عملی پر ڈٹ کر گزار گیا کہ اِس نے دنیا کے بارہویں انٹرنیشنل شہر
کراچی پر اپنا مکمل طور پر اثر ورسوخ رکھنے والی سندہ کی ایک بڑی سیاسی
جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ اپنے سیاسی روابط برقرار رکھے اور اِن کے ہر
مفید سیاسی مشوروں اور حکمتِ عملیوں کو اپنے دور اقتدار کا اہم حصہ بنائے
رکھا اور اپنے دورِ حکومت کے آخری ایام تک وہ اِن سے مستفید ہوتا رہا اور
جب اِسے اِس جماعت نے اقتدار چھوڑنے کا مشورہ دیا تو وہ بھی اِن کے اِس
مشورے پر لبیک کہتا ہوا اپنے اقتدار کو خیر باد کہہ گیا اور پورے سرکاری
پروٹوکول کے ساتھ رخصت ہوا۔
جبکہ میرے نزدیک پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت اِس معاملے میں اپنے
پیش رو مشرف کی حکمت عملی کے بلکل برعکس کام کرتی نظر آتی ہے اور یہ کہ
پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت مرکز اور صوبے سندہ میں اپنے اِس بڑے
اتحادی ایم کیو ایم کے ساتھ روکھا پھیکا سیاسی رابطہ قائم رکھے ہوئے ہے جو
کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے لئے موجودہ حالات میں کسی بھی صورت میں
درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کو ایم کیو
ایم کے خلاف نازیبا بیان استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ جس طرح کہ گزشتہ دنوں
یعنی عید سے دو روز قبل پیپلز پارٹی سندہ کے میڈیا سیل کی افتتاحی تقریب کے
بعد بلاول ہاؤس میں وزیر داخلہ سندہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی انتہائی تلخ
لہجے میں ہونے والی پریس کانفرنس نے سندہ کے پرامن سیاسی ماحول میں ہلچل
پیدا کر کے سیاسی تجزیہ نگاروں کو بھی پراگندہ کردیا ہے۔ جس میں انہوں نے
سندہ میں اپنے اتحادی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان( ایم کیو ایم ) سے متعلق
اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ نے ساڑھے 3ہزار مقدمات افراد سے ختم
کرائے اور اِس کے علاوہ انہوں نے اپنی اِس تلخ و ترش پریس کانفرنس میں یہ
بھی کہا کہ ڈاکٹر فاروق ستار ہم پر کرپشن کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ
عوام کو یہ بھی بتائیں کہ وہ 12مئی 2007 کے سانحے کے بعد مشرف دور میں جیل
کرپشن اور نوکریاں بانٹنے کے الزام میں گئے تھے یا پھر کراچی میں خون کے
بازار گرم کرنے کے الزام میں اور فاروق ستار نے پرویز مشرف کے حکم پر کراچی
کو 12مئی 2007 کے دن بلاک کیا۔ میرے خیال سے یہ بات کسی بھی صورت میں زیب
نہیں دیتی کہ حکمران جماعت محض حکمرانی کے نشے میں اپنی اتحادی جماعت کے
خلاف ایسے نازیبا الفاظ استعمال کریں کہ جس سے ملک میں جاری جمہوری عمل کو
نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ اور ملک میں 18فروری 2008 کے انتخابات کے بعد
اگنے والے جمہوریت کے پودے کو کچلنے کے لئے برسرِ اقتدار جماعت خود ہی ایک
کالے قانون این آر او کو تحفظ دینے کے خاطر کیوں انتقامی سیاست کے خاردار
پودے کو سینچ کر پروان چڑھا رہی ہے۔ میرے خیال سے شائد اِسے اِس بات کا
کوئی اندازہ نہیں کہ اِس کی اِس ذرا سی غلطی سے اِس کا اپنا موجودہ بھی
پارہ پارہ ہو کر بکھر جائے گا اور یہ حکومت اپنے ہی ہاتھوں کی جانے والی
اِس سنگین غلطی کی وجہ سے قصہ پارینہ بن جائے گی۔ جبکہ یہاں ضرورت اِس امر
کی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی این آر او جیسے کالے قانون کی حفاظت کرنے کے
بجائے اِسے اپنی پوری قوت سے کالعدم قرار دینے کی اپنی ہر ممکن کوشش کرے
اور اِس سلسلے میں حکمران جماعت خود اپنی حلیف اور حریف جماعتوں کے ساتھ
مفاہمتی عمل کو جاری رکھتے ہوئے۔ اپنی کامیابی کی جانب آگے بڑھے۔
اگرچہ صدر مملکت آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے
اپنی پارٹی کے رہنماؤں کو سختی سے منع کیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے خلاف
کسی ایسے بیان بازی سے اجتناب برتیں کہ جس سے ہمارے سیاسی اتحاد میں دوریاں
پیدا ہوں۔ اور اِسی طرح دوسری طرف ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی
اپنے ایک بیان میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے اِس بیان کا زبردست خیر
مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر زرداری کا بیان خوش آئند ہے اور ساتھ ہی
انہوں نے اپنی جماعت ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو بھی احتیاط سے بیانات دینے
کی تاکید کی۔ اور اِ س کے ساتھ ہی ایک وزیر اعلیٰ سندہ قائم علی شاہ کا یہ
بیان بھی حوصلہ افزا قرار دیا جاسکتا ہے کہ جس میں انہوں نے کہا ہے کہ
اتحادی جماعتوں میں اختلافات ہیں نہ متحدہ حکومت سے الگ ہورہی ہے۔ اور
پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سازشیں کرنے والے نہیں چاہتے کہ ہم
عوام کی خدمت کریں۔ میرے خیال سے اِس صورت حال میں دونوں سیاسی جماعتوں کی
اعلیٰ قیادتوں کی جانب سے آنے والے بیانات نہ صرف ملکی بلکہ صوبے سندہ کے
سیاسی ماحول میں مزید استحکام پیدا کرنے کے بھی باعث بنیں گے۔
اور ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ بات اَب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی
ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جب بھی حکومت آئی ہے یا پاکستان پیپلز پارٹی
کو جب بھی اقتدار ملا ہے تو بدقسمتی سے اِسے ہر مرتبہ اپنے سیاسی حریفوں کی
جانب سے شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اِس طرح اِسے ٹارگٹ کیا گیا
کہ بالآخر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو اپنی مدت سے قبل ہی اپنے
اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ مگر ہر مرتبہ کے برعکس اِس مرتبہ تعجب کی بات تو
یہ ہے کہ اِس بار پاکستان پیپلز پارٹی کی اِس حکومت کو دوسروں کے ساتھ ساتھ
اپنے ہی لوگوں کی جانب سے بھی اندورنِ خانہ شدید قسم کی تنقید اور تسلسل کے
ساتھ اِس کی اَب تک کی حکومتی کارگزاری پر ٹارگٹ بنانے کا سلسلہ شروع جاری
ہے۔ تو دوسری طرف انہیں تنقیدوں کی وجہ سے صدر زرداری کی حکومت اور پاکستان
پیپلز پارٹی کا سیاسی امیج بھی نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ عالمی حوالے سے
بھی متزلزل ہورہا ہے۔ اور یوں ملک میں پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے
باعث ملکی اور بین الاقوامی سطح کے سیاسی حلقوں میں یہ چہ میگوئیاں شروع
ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اندورنِ خانہ اور باہر سے ہونے والی شدید
مخالفانہ تنقید کے باعث صدر زرداری کے زیر سایہ قائم ہونے والی یہ حکومت
اپنی مدت پوری ہونے سے بیشتر ہی اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے
ختم ہوجائے۔
حالانکہ اِن گزرتے ہوئے لمحات میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو
بھی اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے سہارے یہ فیصلہ ضرور کرنا ہوگا کہ آخر وہ کیا
عوامل ہیں کہ نہ صرف ملک میں بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان پیپلز پارٹی کی
اِس حکومت کو کیوں شدید تنقیدوں کا سامنا ہے کہ اِسے اپنی حکومت کے آئندہ
سال گزارنے بھاری ہورہے ہیں اور عوامی سطح پر اِس کی مقبولیت کا گراف کیوں
گرتا جا رہا ہے۔
الفرڈای سمتھ کا ایک مشہور قول ہے کہ ” اگر انسان سیاسی میدان میں کچھ کرنے
کا خواہش مند ہے تو اِس کے اندر بہت ضروری ہے کہ دوست بنانے اور انسانی
فطرت کو سمجھنے کی صلاحیت بھی موجود ہونی چاہئے“یوں اِس قول کی رو سے یہ
بات پوری سے واضح ہوئی کہ سیاسی میدان میں اترنے والے جس انسان میں یہ
خصوصیات موجود ہوں وہ یقیناً ایک اچھا سیاستدان کہلائے جانے کا بھی مستحق
ہے اور اگر جس کسی میں یہ عنصر ذرا برابر بھی موجود نہ ہو تو ایسا شخص نہ
تو سیاسی میدان میں ہی اپنی کوئی پہچان بنوا سکتا ہے اور نہ ہی وہ معاشرے
میں اپنی ذات کو دوسروں کے لئے کارآمد ثابت کرنے اور کرانے میں اپنا کوئی
فعل کردار ادا کرسکتا ہے یوں ایسا شخص نہ تو اپنے ہی لئے بلکہ انسانیت کے
لئے بھی بے مقصد اور ناکام حیثیت کا بن کر رہ جاتا ہے۔ اگرچہ مندرجہ بالا
الفرڈای سمتھ کے اِس قول میں اُن لوگوں کے لئے بھی بڑی حکمت پنہاں ہے کہ جو
سیاسی میدان میں گودنے کے خواہشمند ہیں اور وہ اگر واقعی یہ چاہتے ہیں کہ
اپنی ذات سے انسانیت کے لئے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ سب سے پہلے اپنے
اندر دوست بنانے اور انسانی فطرت کو اچھی طرح سے سمجھنے کی پوری صلاحیت
پیدا کریں اور جب انہیں خود یہ یقین ہوجائے کہ اُن میں دوست بنانے اور
انسانی فطرت کو سمجھنے کی صلاحیت جنم لے چکی ہے تو پھر یہ سیاسی میدان میں
قدم رکھیں۔ ورنہ یہ ایسے لوگوں سے یہ ہی کچھ ہوگا۔(ختم شد) |