وفاقی کابینہ کا اجلاس....عوام کو بڑے فیصلوں کی نوید
(عابد محمود عزام, karachi)
ملک ایک طویل عرصے سے بے بہا
سنگین مسائل و مشکلات کا شکار ہے۔ ہر نکلتے سورج کے ساتھ یہاں کے عوام کے
لیے مزید مسائل جنم لے کر ان کی پریشانیوں میں اضافے کا سبب بنتے رہتے ہیں
اور حکومت وقتاً فوقتاً مختلف فیصلے تو کرتی ہے، لیکن ان کا تعلق عوام کی
بجائے حکومت اور حکومتی ارکان سے متعلق ہوتا ہے اور اگر حکومت کبھی عوام سے
متعلق فیصلے کرتی ہے تو ان میں اکثر مہنگائی کے فیصلے ہوتے ہیں، جن سے عوام
پر مثبت کی بجائے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح عوام کو کبھی کبھار ہی
حکومت کی جانب سے اچھے فیصلوں کی صورت میں خوشی نصیب ہوتی ہے۔ لہٰذا گزشتہ
روز وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں متعدد اہم
فیصلے کیے گئے ہیں، جو براہ راست عوام سے متعلق ہیں، جن پر عمل درآمد کرکے
بے پناہ مسائل کی شکار قوم کی پریشانیوں میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ وزیر
اطلاعات و نشریات پرویز رشید کے مطابق کابینہ کے اجلاس میں چار بڑے فیصلے
کیے گئے۔ پہلا فیصلہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمتوں پر عاید پابندی اٹھالی گئی
ہے، ماضی میں سرکاری نوکریوں کو میرٹ کے بغیر ذاتی پسندو ناپسند اور جماعتی
وابستگیوں کے حوالے سے لوگوں کا تقرر کیا جاتا تھا۔ حکومت نے فیصلہ کیا تھا
کہ نوکریاں میرٹ پر دینا عوام کا بنیادی حق ہے۔ سرکاری نوکری صلاحیت،
قابلیت، میرٹ اور شفاف طریقے سے دی جائے گی۔ جماعتی وابستگیوں سے بالاتر
ہوکر لوگوں کو ان کا حق دیا جائے گا۔ تمام محکمے خالی اسامیوں پر بھرتیاں
کرنے میں آزاد ہوں گے۔ بھرتیوں کی نگرانی کابینہ کی ایک کمیٹی کرے گی اور
کمیٹی ان اصولوں کی نگرانی کرے گی، جن کی بنیاد پر بھرتیوں کا فیصلہ کیا ہے،
تاکہ کسی کو یہ شکایت نہ ہو کہ نوکری میرٹ کی بجائے سفارش پر دی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کا سرکاری ملازمتوں سے پابندی اٹھالینا
ایک عمدہ اور قابل تعریف فیصلہ ہے، وفاقی کابینہ میں کیے گئے اس فیصلے سے
جہاں ایک طرف ملک کے پڑھے لکھے طبقے میں حکومت کے حوالے سے اچھے خیالات اور
جذبات پیدا ہوں گے، وہیں تعلیم یافتہ طبقے میں احساس محرومی بھی ختم ہوگا،
کیونکہ سرکاری نوکریوں پر پابندی کی وجہ سے ملک کا تعلیم یافتہ طبقہ
انتہائی احساس محرومی کا شکار ہے، نوکریاں نہ ملنے کہ وجہ سے لوگ تعلیم
حاصل کرنا چھوڑنے پر مجبور ہیں اور اس کے ساتھ نوکریاں نہ ملنے کہ وجہ سے
ملک میں جرائم کی شرح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔پڑھا لکھا طبقہ نوکری نہ
ملنے کی صورت میں مزدوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے یا پھر بہت سے تعلیم یافتہ
نوجوان مزدوری پر ڈاکا اور چوری وغیرہ کو ترجیح دیتے ہیں، لہٰذا اب حکومت
کی جانب سے نوکریوں پر پابندی ختم کرنے سے ملک میں تعلیم یافتہ طبقے کے بہت
سے مسائل کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی ہے۔
کابینہ اجلاس میں کیے گئے دوسرے فیصلے کے مطابق سیلاب زدگان کو 25 ہزار
روپے فی خاندان عید سے پہلے ادا کردیے جائیں گے، اس کے لیے نصف رقم صوبائی
اور نصف رقم وفاقی حکومت فراہم کرے گی۔ 2010ءکے سیلاب میں بھی اسی اصول پر
عمل کیا گیا تھا۔ سیلاب متاثرین کو شفاف انداز میں ادائیگیاں کی جائیں گی۔
وفاقی حکومت فصلوں، گھروں کی تعمیر، دکانوں اور مویشیوں کے نقصان کے لیے
بھی رقوم فراہم کرے گی۔ وزیراعظم نے اس کے لیے ہدایات جاری کردی ہیں اور
پانی اترنے کے بعد نقصانات کا تخمینہ مکمل کرلیا جائے گا اور اس میں بھی
شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سال رواں ملک میں آنے
والے سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی مچی ہے، جہاں سیکڑوں لوگ اپنی جانوں سے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، وہیں لاکھوں لوگ بے گھر اور ہزاروں مکانات تباہ ہوچکے
ہیں، ان حالات میں لوگ بے یارومددگار امداد کے طلب گار ہیں،لہٰذا حکومت نے
سیلاب زدگان کی امداد کا فیصلہ کر کے بہت ہی بہتر قدم اٹھایا ہے، لیکن اس
امر کی ضرورت ہے کہ ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی یقینی بنایا جائے۔ تیسرا
فیصلہ بجلی کے بلوں سے متعلق ہے، جس میں گزشتہ ماہ صارفین کو اضافی یونٹس
ڈال کر ایڈوانس رقوم وصول کی گئیں۔ 200 یونٹ استعمال کرنے والے جن لوگوں سے
گزشتہ ماہ کے بل میں گزشتہ سال کے مقابلے میں زیادہ رقم وصول کی گئی تو ان
کی رقوم واپس کردی جائیں گی۔ 200 سے زاید یونٹس استعمال کرنے والوں کا بل
اگر گزشتہ سال کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ ہے، تو ان کی رقوم تین قسطوں میں
ایڈجسٹ کی جائیں گی۔ عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بجلی کے بلوں
میں اضافے کے معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، بجلی چوری اور کرپشن میں
ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔ و زیراعظم نے بلوں میں
اضافے کو واپس لیتے ہوئے تین مختلف کمپنیوں کو آڈٹ کرنے کے لیے مقرر کرنے
کی بھی ہدایت کی ہے۔ جس کمپنی کی طرف سے زاید بل دیے گئے اس کے خلاف سخت
ایکشن لینے کا بھی کہا گیا ہے۔ بلوں میں اضافے کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش
کردی ہے، آڈٹ کے فیصلے پر وزیراعظم نے تین دنوں میں عملدرآمد کی ہدایت کی
ہے۔ اضافی بل محکمے کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں۔ اپنی ذمہ داریوں سے
غافل نہیں، زاید بلوں کے معاملے میں جو بھی ملوث ہوگا، اس کے خلاف کارروائی
کی جائے گی۔ بجلی چور دندناتے پھر رہے ہیں اور عدالت سے حکم امتناعی حاصل
کرتے ہیں۔ 52 ارب روپے ریکوری کرنی ہیں، مگر عدالتوں کے حکم امتناعی کے
باعث وصول نہیں کر پا رہے۔ وزیر مملکت عابد شیر علی نے کہا ہے کہ بجلی چوری
کی ہزاروں ایف آئی آر درج ہیں۔ اپنے قانونی مشیروں کے ذریعے بجلی چوروں کی
ضمانتیں منسوخ کرانے اور نئے آرڈر ختم کرائے جائیں گے۔ میٹر ریڈنگ پرائیویٹ
کمپنیوں سے بھی کرائی جائے گی، تاکہ شکایات کا ازالہ کیا جاسکے۔
باخبر ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صارفین بجلی سے اضافی بل
وصول کرنے کے معاملہ پر ایک بار پھر وفاقی وزارت پانی و بجلی کو شدید تنقید
کا نشانہ بنایا گیا، جس پر وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے ذمہ داری
قبول کرتے ہوئے مستعفی ہونے کی پیشکش کر دی، تاہم وزیر اعظم محمد نواز شریف
نے ان کے مستعفی ہونے کی پیشکش مسترد کر دی اور کام جاری رکھنے کی ہدایت
کی۔ اجلاس کا نصف وقت بجلی کے زاید بلوں پر بحث کی نذر ہو گیا، ساتھی وزرا
نے کم و بیش 2 گھنٹے تک بجلی کے بلوں میں اضافے پر تنقید کی، وہ زاید بلوں
پر پھٹ پڑے، وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف زچ ہو کر اجلاس سے اٹھ کر
چلے گئے۔ اجلاس کے دوران وفاقی وزرا کا پانی و بجلی کے معاملات میں ”بیرونی
مداخلت“ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا، وزیر اعظم سے کہا گیا کہ وزارتوں
کے معاملات میں ”بیرونی مداخلت“ کو روکا جائے۔ ذرائع کے مطابق ڈاکٹر مصدق
ملک کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی کہ
صارفین سے بجلی کے زاید بل وصول کرنے کی شکایات حقیقت پر مبنی ہیں، جس پر
وزیر اعظم نے 200 یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے بل آئندہ ماہ کے
بل میں ایڈجسٹ کرنے کا حکم جاری کیا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس
میں بیرونی مداخلت کو ”لاہور“ سے ہونے والی مداخلت سے تعبیر کیا گیا اور
کہا گیا ہے کہ کچھ دیگر افسر بھی براہ راست وفاقی وزارت پانی و بجلی کے
حکام کو ہدایات دیتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہونے والا چوتھا فیصلہ
یہ تھا کہ مزدور کی کم از کم اجرت 12 ہزار روپے کرنے کے فیصلے کو قانونی
تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ کم سے کم اجرت کے قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں
کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ مبصرین نے اس فیصلے کو بھی بہت سرہاتے ہوئے
کہا ہے کہ مزدور کی اجرت کے حوالے سے کم از کم 12ہزار روپے مقرر کرنا ایک
اچھا قدم ہے، اگرچہ اس مہنگے ترین دور میں بارہ ہزار روپے بھی گزارا کرنے
کے لیے کم ہیں، لیکن ملک میں بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کو حکومت کی
جانب سے مقرر کردہ دس ہزار روپے اجرت بھی نہیں ملتی، ان حالات میں حکومت نے
پندرہ ہزار روپے مقرر کر کے مزدور طبقے کی مشکلات کافی حد تک کم کرنے کی
کوشش کی ہے۔ مبصرین کے مطابق وفاقی کابینہ میں ہونے والے تمام فیصلے بہت ہی
قابل تحسین ہیں، لیکن حقیقت میں یہ قابل تعریف اسی صورت میں بنیں گے جب ان
پر عمل ہوگا، یہ نہ ہو کہ ہر بار کی طرح یہ فیصلے بھی عوام کی خوشی کا وقتی
سامان ثابت ہوں۔ |
|