سیلاب اور ہماری ذمے داری

ابھی گزشتہ سال کے سیلابوں کے لگائے ہوئے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے کہ حالیہ سیلاب نے نئے گمبھیر مسائل پیدا کردیے ہیں۔ دنیا ہر آن تیزی سے بدل رہی ہے لیکن قیام پاکستان کے 67 برس گزرنے کے باوجود ہمارے یہاں کچھ بھی نہیں بدلا۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں،کبھی فوجی آمریت اور کبھی نام نہاد جمہوریت لیکن ظلمت میں کوئی کمی نظر نہیں آئی،کتنے افسوس کی بات ہے کہ حکمران اس بات کو فراموش کر بیٹھے کہ پچھلے سال کے سیلابوں سے کتنی تباہی و بربادی ہوئی تھی اور کتنا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا تھا اگر حکومت کو سابقہ تجربے کا ذرا بھی خیال ہوتا تو اس نے آیندہ کے لیے کچھ نہ کچھ حفاظتی اقدامات ضرور کیے ہوتے۔

اس صورت حال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ محکمہ موسمیات کے سربراہ نے حکومت کو جولائی کے مہینے ہی میں آیندہ پیش آنے والی صورت حال سے خبردار کردیا تھا لیکن افسوس کہ حکومت نے ہوش کے ناخن ہی نہیں لیے کیوں کہ اسے اپنے مفاد کی دلچسپیوں سے ہی فرصت اور فراغت نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی یہ پرانی عادت ہے کہ ہر سال جب بھی سیلاب آتا ہے وہ خواب غفلت سے یکا یک بیدار ہوکر متاثرہ علاقوں کے طوفانی اور ہنگامی دورے کرتے ہیں جن کی میڈیا پر خوب خوب تشہیر کی جاتی ہے تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ ہمارے لیڈران کرام کو اپنے عوام سے کوئی ہمدردی ہے حالانکہ کڑوا سچ یہ ہے کہ
قوم کے غم میں ڈنرکھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہیں مگر آرام کے ساتھ

کی کوشش نہیں کرتے۔
یہ بات حکمرانوں کو بھی معلوم ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال گرمیوں میں ہمالیہ کی برف پگھلتی ہے، مون سون کی وجہ سے پانی میں اضافہ ہوتا ہے، پہاڑوں سے چشموں کا پانی دریاؤں کی طرف بہنے لگتا ہے، بھارت میں ہونے والی بارشوں کا پانی بھی ہمارے دریاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، ہماچل پردیش کی بارشوں اور پہاڑوں کا پانی بھی پاکستان کی طرف بہتا ہے، ہر سال مون سون کے موسم میں بھارت کے ڈیم بھر جاتے ہیں تو ان کے گیٹ کھول دیے جاتے ہیں اور وہ پانی کا رخ ہماری طرف کر دیا جاتا ہے، کشمیر اور مشرقی پنجاب میں ہونے والی بارشوں کا بوجھ بھی پاکستانی دریاؤں کو برداشت کرنا پڑتا ہے

ہمارے دریائے ستلج، بیاس، راوی سب کے راستے بھارت میں ہیں، عام حالات میں تو وہ ہمارا پانی روکنے کے نت نئے منصوبے تراشتا رہتا ہے، تاہم جب بارشوں کی زیادتی کی وجہ سے سیلابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے تو وہ اس سیلابی ریلے کا رخ بڑی مہارت سے پاکستان کی جانب موڑ دیتا ہے اور جب یہی پانی غارت گری کرتا ہے تو وہ بڑی معصومیت سے ہمیں امدادی سرگرمیوں کی آفر بھی کرتا ہے، اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ بھارت میں تقریباً 350 ڈیم ہیں اور ہمارے پاس چھوٹے بڑے کل 41 ڈیم ہیں لہٰذا ہمارے پاس مزید ڈیم بنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔

اگر بڑے پیمانے پر ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جاتے، دریاؤں کو گہرا کرکے ان میں زیادہ پانی برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی تو آج سیلاب نے جو تباہی و بربادی مچائی ہے ممکن ہے اس کی نوبت نہ آتی-

نقصانات کے مداوے کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں بہتر تھا کہ وہ سیلابی پانی ذخیرہ و محفوظ کرنے کے منصوبوں ڈیم، بیراج اور آبی ذخائر کی تعمیر پر خرچ کیے جاتے۔ اگر ہم آبی ذخائر کو محفوظ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیں تو دیگر فوائد کے ہمراہ عین ممکن ہے کہ بھارت آیندہ کبھی بگلیہار ڈیم کا پانی پاکستان کی جانب ہی نہیں چھوڑے کیونکہ باصلاحیت ہونے کے بعد یہی پانی ہمارے لیے بیش قیمت ہوجائے گا اور ہمیشہ کی طرح اس قدر تباہی و بربادی پھیلانے کے بجائے ہماری ترقی بالخصوص توانائی کے بحران پر قابو پانے کا اہم محرک ثابت ہوگا-

ہمارے حکمران صرف سیلاب کے دنوں میں ہیلی کاپٹروں میں دورے کرنے کی بجائے سیلاب سے نمٹنے کے لانگ ٹرم منصوبے بنانے اور ان مسائل کا کوئی مستقل حل نکالنے کے لیے جاپان سے بھی تعاون حاصل کرسکتے ہیں اور فرانس کی حکمتوں سے بھی سیکھ سکتے ہیں، لیکن یہاں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے فرصت ملے تب ہی کچھ اور سوچیں۔

یہ بات بھی بار بار دہرائی جاچکی ہے کہ پاکستان ڈیمز تعمیر کرکے ان دکھوں سے نجات پاسکتا ہے۔ اگر بڑے پیمانے پر ڈیمز، بیراج اور آبی ذخائر تعمیر کیے جاتے تو آج سیلاب نے جو تباہی مچائی ہے، ممکن ہے اس کی نوبت نہ آتی۔ پاکستان سندھ طاس معاہدے کے بعد منگلا اور تربیلا بند بنانے کے سوا کوئی بڑا ڈیم تعمیر نہ کرسکا، جب کہ چین کی طرح پنجاب اور سندھ میں چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کرلیے جاتے تو بارش کا پانی اور بھارت کی طرف سے آنے والے سیلابی پانی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بچا جاسکتا تھا۔ حالانکہ بھارت نے سندھ طاس معاہدے کو پس پشت ڈال کر سیکڑوں ڈیمز تعمیر اور پانی ذخیرہ کرنے کی وسیع پیمانے پر صلاحیت حاصل کرلی ہے، لیکن ہم کچھ نہ کر سکے۔ جب سیلاب آتا ہے۔

سیلاب متاثرین کی مدد کے ضمن میں پاک فوج کا کردار یقیناً مثالی اور قابل تعریف ہے، قوم کو بچاتے ہوئے ہمارے جوانوں نے خود اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے جام شہادت نوش کیا اور ہمیشہ کی طرح ملک و قوم کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کی مثالی روایت کو قائم رکھا ہے۔ ہماری تاریخ ایثار و قربانی اور غم خواری کی روشنی سے منور ہے، مسلمان کے لیے یہ ہرگز روا نہیں کہ اپنے بھائیوں کی مشکلات اور پریشانیوں سے بے نیاز رہے اور بے اعتنائی برتے یا محض ایک تماشائی بنا رہے، مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں، ایک دوسرے کے لیے پیکر رحم ہیں، ایک دوسرے کے ولی ہیں، مومن ایک دوسرے سے رحم، محبت اور مہربانی میں ایسے ہیں گویا بدن کا ایک عضو تکلیف زدہ ہو تو پورا جسم اس کا درد و کرب محسوس کرتا ہے اور دین تو نام ہی خیر خواہی کا ہے۔

اس وقت تو ہر طرف پانی ہی پانی ہوتا ہے، لیکن سیلاب اترنے کے کچھ عرصے بعد ملک میں پانی کی قلت کی آوازیں اٹھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر حکومت سیلاب کے اس پانی کو محفوظ کرنے کی طرف توجہ دے تو یہ زحمت کی بجائے رحمت بن سکتا ہے اور نہ صرف سیلاب کے مضمرات سے بچا جاسکتا ہے، بلکہ پانی محفوظ کر کے سارا سال ملک سے پانی کی قلت کو بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔
Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 260815 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More