ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
(عابد محمود عزام, karachi)
کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور
عظمت و استحکام میں اس ملک کے افراد ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کسی
قوم کو دنیا کی صف اول میں لاکھڑا کرنے اور عزت و شرف کی قبا پہنانے میں اس
قوم کے افراد نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، وہی ملک ترقی کے زینے چڑھتا ہوا
اوج فلک پر جلوہ نما ہو کر دوسروں کے لیے مثال بنتا ہے، جس کے افراد میں
محنت و جدو جہد، فہم و فراست، سمجھداری اور سنجیدگی پائی جاتی ہو۔ جس قوم
کو مذکورہ اوصاف سے مزین افراد میسر آجائیں تو ان کا ملک دنوں میں ہی پوری
دنیا میں سورج کی طرح چمکتا دکھائی دیتا ہے۔ قوم افراد کے مجموعے کو کہتے
ہیں اور مختلف افراد مل کر لفظ قوم کے الفاظ و مفاہیم کو عملی جامہ پہناتے
ہیں۔ قوموں کی ترقی و تنزلی کا فیصلہ افراد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ شاعر
مشرق کہتے ہیں
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ!!
اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ کسی قوم کو اوج ثریا سے تنزلی
کی گھاٹیوں میں گرانے میں بھی افراد ہی کلیدی کردار ادا کرتے ہےں۔ اگر کسی
قوم کے افراد محنت و جدو جہد، فہم و فراست، سمجھداری اور سنجیدگی سے محروم
ہوں تو پھر تنزلی ہی قوموں کے مقدر میں لکھی جاتی ہے۔ ہزار ہا افسوس کہ
ہمیں اپنے ملک میں غیر سنجیدگی و عدم فہم و شعور کے مظاہر زندگی کے ہر موڑ
پر نظر آتے ہیں اور اس حوالے سے ہمارا نوجوان طبقہ پیش پیش دکھائی دیتا ہے،
حالانکہ نوجوان طبقہ کسی بھی قوم کا انتہائی قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔
نوجوانوں میں قوموں کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کا جذبہ اور اپنے ملک کا نام
روشن کرنے کی امنگ ہوتی ہے۔ ان کی قابلیت و صلاحیتیں انہیں حالات کا رخ موڑ
دینے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ نوجوان طبقے کی صلاحیتوں کو اگر مثبت انداز
میں کام میں لایا جائے تو ترقی و کامیابی قوموں کے قدم چومتی ہےں، لیکن اگر
قوموں کے اس سرمائے کو منفی سرگرمیوں میں استعمال کیا جائے تو یہ صلاحیتیں
قوموں کے لیے وبال بن جایا کرتی ہیں۔ جب یہی نوجوان طبقہ اپنے تمام اوصاف
اور ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر غیر سنجیدگی اور کم ہمتی کا دامن تھام لے
تو پھر اس طبقے سے ترقی کی امیدیں وابستہ کرنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں
ہے۔
افسوس! ہمارے ملک میں قوم کے ماتھے کے جھومر اس نوجوانوں طبقے کو غلط
استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاست دان ہر بار کسی نئے ہی نعرے کی آڑ میں ملک کے
نوجوانوں کو راہ راست سے ہٹاتے ہےں، ان کو سنجیدہ اور معتدل مزاج بنانے کی
بجائے غیر سنجیدہ اور انتہا پسند بنا دیا جاتا ہے، ان کو دوسروں کا ادب
کرنے کی تعلیم دینے کی بجائے دوسروں کی توہین کرنے پر ابھارا جاتا ہے، ہر
جماعت کا کارکن اپنے لیڈر کو اپنا آئیڈل سمجھتا ہے، اس کے نقش قدم پر چلتا
ہے، اس کی زبان بولتا ہے اور اس کے طور طریقے اپناتا ہے، لیڈر کی حرکات و
سکنات غیر شعوری طور پر اپنے کارکنوں کی تربیت کر رہی ہوتی ہیں، کیونکہ
کارکن اپنے لیڈر کی ہر بات کا اثر قبول کرتے ہےں۔ ہر جماعت کا یہی معاملہ
ہے۔ ان حالات میں جب کسی بھی جماعت کا لیڈر اپنے کارکنوں کے سامنے دوسرے
لیڈروں پر بلا دھڑک طعن و تشنیع کرے، ان پر کیچڑ اچھالے اور ان کو برا بھلا
کہے تو اس سے کارکن صرف اپنے لیڈر کو ہر خطا سے معصوم اور باقی سب کو غلط
ترین انسان تصور کرنے لگتے ہیں اور غیر شعوری طور پر کارکنوں میں حریف
جماعتوں کے لیڈروں کی توہین کے جذبات ابھرتے ہیں، جس سے آہستہ آہستہ ان
قبیح و مکروہ جذبات کا مختلف طریقوں سے ظہور ہونا شروع ہوجاتا ہے اور
دوسروں کی توہین کا دروازا کھل جاتا ہے اور پھر ملک کو مشکلات سے نکالنے کا
عزم لے کر اٹھنے والا یہی نوجوان طبقہ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے اپنا
اکثر وقت سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اپنی حریف جماعتوں کو برا بھلا کہتے ہوئے
گزارتا ہے۔ ملک میں موجودہ سیاسی بحران میں اپنے سیاسی لیڈروں کی محبت میں
سرشار کارکنوں میں عدم سنجیدگی و عدم برداشت کی ایسی انتہا نظر آئی کہ
الامان و الحفیظ۔ مخالف سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں کو سوشل میڈیا پر ”ثواب“
اور مشن سمجھ کر برا بھلا کہا گیا اور ان کی توہین کی گئی۔ مخالف سیاسی
جماعتوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ”جنگ“ لڑنے والے طبقے نے حریف سیاسی لیڈروں
کی جو توہین کی وہ تو رہی ایک طرف، بلکہ ”نئے پاکستان“ کے ”معماروں“ نے تو
”پرانے پاکستان“ کے غیرجانبدار شمار کیے جانے والے بہت سے صحافیوں کے خلاف
بھی وہی طوفان بدتمیزی برپا کیا، جس طوفان میں اپنے حریفوں کو نیست و نابود
اور غرق کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ صحافی کا کام تجزیہ کرنا ہے، اس کی بات سے
اگر کسی کو اختلاف ہو تو اس کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے، سب کا
صحافی کی بات سے متفق ہونا ممکن نہیں ہے۔ تمام انسانوں کی سوچ، نظریہ اور
فکر کا ایک ہونا آفاقی حقیقت کے خلاف ہے، کیونکہ معاشرے میں انسانوں کی سوچ
و فکر میں تفاوت کا پایا جانا قدرت کی جانب سے ہے، جس کو کسی طور بھی تبدیل
نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی معاشرہ ایک گل دستے کی مانند ہے، جس طرح گل دستے میں مختلف رنگ کے
پھول اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتے ہیں، بالکل اسی طرح انسانی معاشرہ بھی
مختلف الخیال، مختلف سوچ اور مختلف فکر کے افراد سے مل کر ترتیب پاتا ہے
اور اس کا یہی تنوع اس کی خوبصورتی کا باعث ہوتا ہے۔ اس حقیقت کا تقاضا یہ
ہے کہ اپنی جماعت، اپنے لیڈر اور اپنے نظریے کو تو مقدم رکھا جائے، لیکن
مخالف نظریے، سوچ اور فکر کے حامل لوگوں کے خلاف زبان درازی سے احتراز کیا
جائے، کیونکہ عزت نفس ہر ایک کی ہوتی ہے۔ مخالفین کی توہین کرنا، ان پر
کیچڑ اچھالنا، ان کے خلاف نازیبا زبان استعمال اور لعن طعن کرنا کسی طور
بھی سنجیدہ سوچ نہیں ہوسکتی۔ مخالفین کے لیے عامیانہ زبان کا استعمال کرنا
کوئی فخر و امتیاز کی بات نہیں، بلکہ اس سے انسان کی شخصیت اور کردار ظاہر
ہوتا ہے۔ ایک معتدل سوچ یہ ہے کہ اپنی عزت کروانے کے لیے دوسرے کی عزت کرنی
چاہیے۔ اپنے جذبات کی تسکین کے لیے دوسرے کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنا
چاہیے۔ ہر نقطہ نظر کا انسان اپنے جذبات کو مجروح ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔
جو ہم خود کے لیے چاہتے ہیں دوسروں کے لیے بھی وہی چاہیں اور زندگی ”جیو
اور جینے دو“ کے فلسفے کی عملی تعبیر ہونی چاہیے۔ ہمارا مذہب اسلام بھی
ہمیں دوسروں کے احساسات اور جذبات کا احترام کرنے کی تلقین کرتا ہے، لیکن
ہمارے سیاست دانوں نے صرف اپنے مفاد کی خاطر قوم کی ریڑھ کی ہڈی کا درجہ
رکھنے والے نوجوان طبقے میں عدم برداشت، عدم تحمل، اشتعال پسندی اور غیر
سنجیدگی کو رواج دے کر قوم کے مستقبل کو گرہن لگایا ہے۔ ہمارے سیاست دان
اپنی تقریروں میں بار بار قائد اعظم محمد علی جناح کی مثالیں تو دیتے ہیں،
لیکن ان کے نقش قدم پر نہیں چلتے۔ بانی ¿پاکستان نے کبھی نوجوانوں کو اپنے
مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ انہوں نے ہمیشہ نوجوانوں کی کردار سازی پہ
زور دیا، لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے، اپنے مفادات سلامت رہیں، ملک و
قوم کو نقصان پہنچے، اس کی کسی کو کیا فکر۔
|
|