جاوید چوہدری معروف کالم
نگار سے سبھی واقف ہیں پاکستان میں ان کا نام ہے۔شاندار کالم لکھتے ہیں ۔
دنیا بھر کی قوموں کی خصوصیات ، محنت کشی ، انقلاب ادھر ادھر کی معلومات سے
قوم کو نوازتے رہتے ہیں ۔ مگر بد قسمتی سے قوم نے ان کو گالیوں سے نوازا ہے۔
موجود ہ سیاسی بحران میں جاوید چوہدری کے کالموں کو بڑی تعداد میں پڑھا اور
تنقید کا نشانہ بنایاجا ر ہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام کا کہنا ہے کہ
جاوید چوہدری بک گیا ہے حکومت نے اسے بھی خرید لیا ہے۔
جاوید چوہدری دوسری قوموں کی مثالیں دیتے رہتے ہیں ۔انقلاب کی بات کر تے
رہتے ہیں مگر جب اپنی قوم جاگی تو ان کا ضمیر سو گیا ۔ انھوں نے اپنے قلم
سے حکومت کی پیوندکاری کی جس کے نتیجے میں قوم نے ان کو گالیوں سے نوازا ۔یقین
مانیے پیسہ بڑی طاقت ہے مگر اپنے پیشے کی عزت سے کھیلنا اتنا سینئر صحافی
کو زیب نہیں دیتا ہے۔ اﷲ ہی جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے مگر جاوید چوہدری کی
موجودہ تحریروں سے بے حد خوشبو آرہی ہے کہ انھوں نے شاندار قسم کا لفافہ
تھاما ہے۔ عوام پہلے سے مشتعل تھی ان کے کالم پڑھ کر اور مشتعل ہو گی اور
سوشل میڈیا پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔ جاوید چوہدری نے نرم گوشہ اختیار
کرنے کے لیے کالم لکھا ’’میں گالیاں سن رہا ہوں ‘‘گویا انھوں نے تسلیم کیا
کہ مجھے گالیاں سننے پر مجبور کیا جا رہاہے۔انھوں نے اپنے اس کالم میں
وجوہات بیان کی کہ وہ گالیاں کیوں سن رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے
کالم میں ترجیحات میں پڑھتی ہون اچانک تبدیلی کیوں آئی کیوں لوگوں نے
اخلاقیات عبور کیں۔۔؟کیوں عوام نے گالیوں سے آپ کو فیس بک ، ٹوئیٹر اور ویب
پیجز پر گندا کیا۔ اس کے بہت ساری وجوہات ہیں جو میں آپ کو بتاتی ہوں۔
آپ نے تین طرح کی غداری کی عوام سے اپنے پیشے سے اور پاکستان سے جس نے آپ
کودنیا میں ایک مقام دیا ۔ میرا سوال یہ نہیں کہ آپ نے حکومت کے حق میں ہی
کیو ں لکھا ۔میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے اس عوام کیلئے کیوں نہیں لکھا جو
اپنے حقوق کیلئے جمہوریت کی بقاء کیلئے جاگ چکی ہے ۔۔۔ بندہ عوام اور
پاکستان سے غداری کریگا تو عوام آپکو محب وطن تو نہیں کہے گی۔
مشر ف کے دور میں آپ کا قلم مشرف کا سینا چوڑا کرتا تھا۔ زرداری کے دور میں
بھی قلم ڈگمگاتا رہا۔ اور اب نواز کے دور میں روایت کیمطابق لفافہ۔۔۔ اور
آپ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔۔۔قلم تیزی سے چلنے لگا اور ضمیر چھٹی پر
چلا گیا۔۔۔ پھر آپ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ آپ گالیاں کیوں سن رہے
ہیں۔۔۔؟
آپ نے اپنے کالم میں گالی برداشت کرنے کی وجہ بتائی کہ آپ جمہوریت پسند ہین
۔اس لیے نمبر بلاک نہیں کرتے اور نہ ہی گالی ڈیلیٹ کرتے ہیں ۔۔اورآپ اپنے
ضمیر کی مسجد میں بیٹھ کر گالیوں کی جمہوریت برداشت کرتے ہیں ۔۔ لیکن جاوید
چوہدری صاحب آپ ذرا یہ بتانے کی تکلیف فرمادیں کہ جانب دار ہوکر رائے دینا
کون سے جمہوریت پسندی ہے۔۔ ہمیشہ رائے دینے کے لیے تصویر کے دو رخ دیکھنے
پڑتے ہیں مگر آپ تو کسی کی ذاتی پسند کو اپنا جمہوری حق بیان کر رہے ہیں۔
ماشاء اﷲ آپ صاحب علم ہیں سمجھ تو گئے ہوں گے کہ عوام کیوں اپنا جمہوری حق
گالیوں کی صورت میں استعمال کر رہی ہے۔
آپ نے اپنے عقل مند ہونے کا ذکر بھی کیا کہ آپ عقل کی بات کرتے ہیں اسی لیے
لوگ برا بھلا کہتے ہیں۔۔ سبھی مانتے ہیں کہ آپ پڑھے لکھے، قابل احترام ،
عقل مند انسان ہیں۔۔ بیشک اس میں جھوٹ نہین ۔ مگر جاوید چوہدری صاحب تھوڑی
سے وضاحت کر دیں ۔ کہ ایک طرف حکومت کی بادشاہت ہے حکمران عیش و عشرت کی
زندگی گزار رہے ہیں اور دوسری طرف غریب عوام جو بنیادی ضروریات سے محروم
ہیں۔دن رات محنت کرکے حکمرانوں کے لیے ٹیکس کے پیسے اکھٹے کر رہے ہیں ۔ مگر
انھیں تحفظ زندگی مہیا نہیں ہیں وہ غریب عوام اپنے حقوق کیلئے باہر نکل آئے
ہیں۔ اور آپ عوام کو سراہنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ان
کے حق میں بولنے کی بجائے ، حکومت کیلئے اپنا قلم تراشتے ہیں۔ تو یہ کون
عقل مندی کا کام کررہے ہیں ۔ اگر آپ اس کو عقل مندی کہتے ہیں تو معاف کیجئے
عوام کبھی بھی آپ کی اس عقل مندی کو نہیں سراہے گی۔
آپ قوم کو پاکستان کے مستقبل کا اصل چہرہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں آپ
کوغیر محب وطن اور بکاؤ کہتی ہیں۔جاوید چوہدری صاحب جب آپ ان حکمرانوں کی
پاسداری کریں گے کہ اپنے ملک میں تو سرمایہ کاری کرتے نہیں مگر بیرون ملک
کھربوں کو بزنس کرتے ہیں ۔ تو یقینا آپ محب وطن کے جذبے سے دور ہیں۔ پڑھی
لکھی نوجوان نسل نوکری کے لیے دھکے کھائے، صاف پانی کو ترسے ، بجلی کی
راہیں دیکھے اور مہنگائی برھتی ہوئی دیکھیں تو ایک دن قوم کا نوجوان ضرور
اپنے حق کیلئے باہر نکلے گا۔ بالکل اسی طرح آج پاکستان کا مستقبل آپکی
عاجری کو للکا ررہاہے۔
صحافت ایک ایسا پیشہ ہے جس میں صحافیوں کو قلم کو با آسانی خریدا جا سکتا
ہے۔ صحافیوں کے بکنے کی ایک سب سے بڑی وجہ پاکستان کے بدتر معاشی حالات
ہیں۔ لیکن جاوید چوہدری صاحب اگر آپ اپنے قلم کے ذریعے حکومت کو آئینہ
دکھاتے ۔حکمرانوں کی غلطیوں کو تحریر کرتے ، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذکر کرتے
،کسان کی مجبوری ، محنت اور حکمرانوں کی عیاشی کو سامنے لاتے ،جو لوگ اپنے
حقوق کیلئے مرنے کیلئے شاہراہ دستور پر تیار بیٹھے ہیں،ان کی برداشت پہ
لکھتے تو یقین مانیئے ساری قوم آپ کی جرات مندی، عقل مندی اور برداشت کو
عزت بخشی۔ ابھی بھی وقت نہیں گزرا اپنے پیشے کی عزت کو بچا لیں اور غیر
جانبدارانہ صحافت سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائیں۔ |