شہباز کی للکار۔ دھرنے اور سیلاب ۔۔۔۔۔

 مئی 2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی واضح کامیابی اور طویل جلاوطنی کے بعد وزیراعظم نواز شریف اور انکی کابینہ نے 5 جون کو اپنے عہدوں کا حلف اٹھایا اور مسند اقتدار سنبھالا،ملکی معیشیت کے استحکام اور امن و امان کے قیام کیلئے موثر اقدامات کیئے گئے ،بجلی و گیس بحرانوں سے نجات کیلئے دیرپا اور ٹھوس پالیسیاں مرتب کی گئیں،نئی حکومت کو قائم ہوئے ابھی15 ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے تھے کہ ڈی چوک اسلام آباد کو تبدیلی کی لہر نے جکڑ لیا،ایک طرف پاک فوج دہشت گردی کیخلاف ’’ضرب عضب آپریشن ،، کررہی ہے، کشمیر،پنجاب اور سندھ کے لوگ سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں تو دوسری طرف آزادی اور انقلاب کے نام پر دھرنے دیکر ترقی کے راستے میں بلٹ پروف کنٹینرز کھڑے کردئیے گئے،ایک محتاط اندازے کے مطابق ملکی معیشیت کو تقریبا 15 سو ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا گیا،انتخابی اصلاحات کے فارمولے کو ایک طرف رکھ کر وزیراعظم کے استعفےٰ کا مطالبہ شدت سے دہرایا جارہا ہے،سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تبدیلی کیلئے دھرنوں کا مناسب وقت تھا؟۔ایسا وقت جب نئی حکومت کو قائم ہوئے ابھی15 ماہ بھی مکمل نہیں ہوئے تھے، شاید مناسب وقت نہ تھا؟۔

پاک فوج دہشت گردی کیخلاف ’’ضرب عضب آپریشن ،، کررہی ہے،لاکھوں آئی ڈی پیز اپنے گھر بار چھوڑ چھاڑ کر خیمہ بستیوں میں امداد کے منتظر تھے، کشمیر،پنجاب اور سندھ کے لوگ سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں ، کروڑوں ایکڑ اراضی پر کھڑی فصلیں ،لاکھوں مکانات ،ہزاروں مویشی، سینکڑوں انسان سیلاب کی نذرہوگئے، کیا ان لوگوں کی مدد کرنا ضروری تھا یا کہ دھرنے ضروری تھے؟۔عمران خان اور طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ وہ عوام کی جنگ لڑرہے ہیں کیا مشکل وقت میں عوام کو تنہا چھوڑ کر عوام کی جنگ لڑی جاسکتی ہے؟۔ جس قدر تکلیفیں، اذیتیں اور پریشانیاں غریب لوگوں کو برداشت کرنی پڑتی ہیں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا اسی طرح تباہی و بربادی کا کھیل جاری رہے گا کیا اسی طرح انسان مرتے رہیں گے، سیلاب زدگان کی امداد کیلئے حکومتی مشینری اور پاک فوج کے جوان ریلیف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں،وزیر اعلی میاں محمد شہبازشریف جو کہ کینسر کے مریض بھی ہیں اپنی حالت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ہرممکن حد تک سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں تک پہنچنے کی جستجواور متاثرین کے دکھ درد بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میاں شہباز شریف کے انقلابی اور دلیرانہ فیصلے کی جس کی اگر دیگر صوبے اور مرکز بھی تقلید کرتا ہے اور پوری حکومتی مشینری غیر ترقیاتی اور غیر ضروری اخراجات کو کم کرتے ہوئے خودداری اور حقیقی آزادی حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کر لیتی ہے تو ہماری زندہ دِل قوم بھی اِس کارِ خیر میں اپنی حکومت سے پیچھے نہیں رہے گی اور روکھی سوکھی کھا کر بھیان غلامی کی مکروہ زنجیروں کو توڑنے کیلئے تیار ہو جائے گی۔

چین کے دریاؤں میں بھی 35 سال پہلے سیلاب آیا تھا اگلے سال چینی قوم اور حکومت نے مل کر دریاؤں کو اس قدر گہرا کرلیا کہ سال کے بارہ مہینے دریا نارمل حالت میں اپنی گزر گاہوں میں ہی بہتے ہیں۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہوسکتا کہ دریائے سندھ سمیت تمام دریاں میں جہاں جہاں شدید طغیانی کی وجہ سے بند ٹوٹ جاتے ہیں وہاں وہاں ان دریاں کو حکومت اور کسانوں کے باہمی اشتراک عمل سے آٹھ دس فٹ مزید گہرا کرکے پانی کی مزید گنجائش پیدا کرلی جائے اس طرح جو مٹی اور ریت میسر آئے گی اس سے دریاؤں کے بندوں کو مضبوط بنانے کا کام لیا جاسکتا ہے ۔ موسم برسات میں جب بھارت ان دریاں میں پانی چھوڑتا ہے تو وہ پانی بھی ذخیرہ گاہوں میں محفوظ کرکے سال بھر زراعت کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے اس طرح نہ حکومت کو ہر سال سیلاب زدگان کی آبادکاری اور دیکھ بھال پر کچھ خرچ کرنا پڑے گا او رنہ ہی اربوں روپے کی کھیتوں میں تیار فصلیں مویشی اور انسانوں کو ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ دریاؤں کو گہرا کرنے کے ساتھ ساتھ بطور خاص نشیبی علاقوں میں سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے اتنی تعداد میں ذخیرہ گاہیں تعمیر کرے جہاں سیلابی پانی کو محفوظ کرکے کاشتکاری کے لیے استعمال کیاجاسکے اور ہر سال کی طرح سیلاب کا پانی انسان بستیوں اور کھربوں روپے کی تیار فصلوں کو تباہ نہ کرسکے اور دیہاتوں میں رہنے والے غریب بھی سکھ کاکوئی سانس سکیں ۔بے شک وزیر اعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی کاوشیں اپنی جگہ لائق تحسین ہیں لیکن تباہی و بربادی کے موذی کھیل کو ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہنا چاہیئے کیونکہ ابھی پچھلے سیلاب کے زخم بھرتے نہیں ہیں کہ نیا سونامی دہلیز پر دستک دینے لگتا ہے ۔ ہم میاں شہباز شریف سے بھرپور امید رکھتے ہیں کہ وہ کسی بھی صورت میں اپنے اس عزم کو کمزور نہیں ہونے دیں گے اور قوم کو حقیقی آزادی و خود مختاری کی اس منزل تک پہنچا کر دم لیں گے جس کا خواب قائد و اقبال نے دیکھا تھا ۔

وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ دھرنہ دینے والے کبھی بھی ملک وقوم کے مخلص نہیں ہو سکتے ۔یہ وقت دھرنوں کا نہیں بلکہ سیلاب متاثرین کی مدد اور ملک و قوم کی خوشحالی کا ہے۔ حکومت ان متاثرین کی بحالی کے لئے تمام وسائل استعمال کرے گی۔ جب تک یہ متاثرین واپس اپنے گھروں کو نہیں لوٹ جاتے میں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ یہ غریب متاثرین درحقیقت پاکستان کا عظیم سرمایہ اور اثاثہ ہیں جنہیں ہم کسی صورت بھی مصیبت کی اس گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔وزیر اعلی نے کہا کہ متاثرین کو عید سے قبل خصوصی عید پیکج بھی دیا جائے گا جبکہ حکومت ان کی فصلوں کا نقصان بھی پورا کرے گی اور انہیں گھر تعمیر کرکے دیں گے،وزیرِاعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے ایبٹ آباد آپریشن کے رد عمل کے طور پربھی آئندہ کسی بھی غیر ملک سے امداد نہ لینے کا اعلان کیا تھا اور اسی ضمن میں امریکہ کی طرف سے صحت ،تعلیم اور سالڈ مینجمنٹ کے سلسلے میں ملنے والی 23کروڑ ڈالر کی اس امداد کو ٹھکرانے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ چلنے والے چھ معاہدوں کو بھی منسوخ کردیا ہے۔ جمعہ 20مئی کو ایک اعلی سطحی اجلاس سے ان کا خطاب واقعی ایک شیر کی للکار معلوم ہو رہا تھاجس میں انہوں نے کہا ''ہمیں حقیقی آزادی اور معاشی ترقی کیلئے اغیار سے بھیک مانگنے کی پالیسی کو ترک کرنا ہو گا اگر ہمیں عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو ہمیں اپنے پاں پر کھڑا ہونا ہو گا،امریکہ نے ایبٹ آباد آپریشن کر کے ہماری قومی غیرت کو للکارا ہے آئندہ ہر گِز امریکی امداد نہیں لیں گے،غیر ترقیاتی اخراجات کم اور نئے وسائل پیدا کر کے دنیا کو اپنے پاں پر کھڑا ہو کے دکھائیں گے''۔
 
Mumtaz Khan
About the Author: Mumtaz Khan Read More Articles by Mumtaz Khan: 10 Articles with 6267 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.