وقت کا ضیاع

پاکستانی قوم ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے انعقاد سے مسلم لیگ (ن) کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتی تھی ؟ اگر وہ سیاسی یکجہتی کا عندیہ دینا چا ہتی تھی تو اس میں ناکام رہی ہے کیونکہ مشترکہ اجلاس میں ہر جماعت نے دل کھول کر وزیرِ اعظم کو ہدفِ تنقید بنایا اور ان پر انتخابی دھاندلیوں ، غیر جمہوری رویوں اور کرپٹ حکومت کے الزامات لگائے گئے۔ فوج کے خلاف نازیبا زبان بھی اس مشترکہ سیشن کا طرہِ امتیاز تھا جس نے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی نیک نامی میں اضافہ نہیں کیا ۔عوام مشترکہ اجلاس کی کارکردگی سے انتہائی مایوس ہوئے ہیں کیونکہ یہ اجلاس دھرنوں کا حل پیش کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ عوام نشستند،گفتند اور بر خاستند والے مذاق پر کافی مشتعل ہیں اور اپنی فوج کی تذلیل پر شدید غصے میں ہیں ۔بہت سی جماعتیں ذاتی مفادات کا رونا روتی رہیں۔دھرنے والوں کو دھشت گرد اور لشکری کہہ کر مخاطب کرتی رہیں ۔کسی جماعت نے عوام کے ھقوق اور ان کے مفادات کی بات کرنا مناسب نہیں سمجھا اور شائد یہی وجہ ہے کہ عوام اس اجلاس کو قومی دولت اور وقت کے ضیاع کا نام دے رہے ہیں ۔ وہ یہ سمجھنے میں ھق بجانب ہیں کہ ان کے ٹیکسوں کو بڑی بے رحمی سے ضا ئع کیا گیا ہے ۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور ان کے اپنے چہیتوں نے ان کے خلاف سازش تیار کی ہے۔میاں محمد نواز شریف کی جتنی سبکی اس مشترکہ اجلاس میں ہوئی ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی تھی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مشترکہ سیشن میں اکثر پارلیمانی جماعتوں نے جمہوریت کی بقا کی خاطر حکومت کی حمائت کی ہے جس سے حکومت قدرے سانس لینے میں آسانی محسوس کر رہی ہے لیکن یہ ساری جماعتیں تو مشترکہ اجلاس سے پہلے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں لہذا مشترکہ اجلاس کا اعلامیہ کوئی نئی بات نہیں جس پر حکومت بغلیں بجائے کیونکہ اس اجلاس میں جسطرح کی تنقید حکومت کا مقدر بنی ہے وہ کافی تشویشناک ہے۔اس اجلاس نے عمران خان کے لانگ مارچ اور دھرنے کے فیصلے پر بھی مہرِ تصدیق ثبت کی ہے کیونکہ ہر جماعت نے انتخابی دھاندلیوں اور کرپشن کا رونا رویا ہے ۔ اس اجلاس میں جس طرح کے الزامات حکومت کے حصے میں آئے ہیں وہ اس سے پہلے اس طرح کھل کر حکومت پر نہیں لگائے گئے تھے جس سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے ۔پی پی پی نے اس اجلاس کو جس طر ح اپنے حق میں استعمال کیاہے وہ بھی کافی دلچسپ ہے ۔ پی پی پی ایک طرف میاں محمد نواز شریف کو جمہوریت کیلئے اپنی حمائت کا یقین دلاتی ہے تو دوسری طرف اس کے غلط اندازِ حکمرانی پر شدید تنقید بھی کرتی ہے۔اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ حکومت کے اہم وزرا کو پورس کے ہاتھیوں سے تشبیہ دی ۔اعتزاز احسن کااستدلال تھا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے،کرپشن کے الزامات میں بھی صداقت ہے، ماڈل ٹا ؤن پر حکومت بے حسی کا شکار تھی اور ملزموں کو پناہ دے رہی تھی ۔ طاہرالقادری کو ایف آئی درج کروانے کیلئے لانگ مارچ کا سہارا لینا پڑا۔یہ دھرنوں کاکمال ہے کہ میاں صاحب پارلیمنٹ میں آئے ہیں وگرنہ پارلیمنٹ انھیں دیکھنے کو ترس گئی تھی۔اعتزاز احسن نے میاں محمد نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئی یہاں تک کہہ دیا کہ میاں صاحب وہ آگ جو اس وقت پورے ملک میں بڑی تیزی سے بھڑکی ہوئی ہے وہ انہی لوگوں کی وجہ سے ہے جو آپ کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ کو دیکھناہو گا کہ فوج سے آپ کے ٹکراؤ کا باعث کون لوگ ہیں ؟ جمہوریت بچانے کیلئے آپ کو ایسے وزرا سے جان چھڑانی ہو گی نہیں تو وہ آپ کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑیں گئے ۔عمران خان او ر طاہر القادری کے مطالبات تیر کی طرح لوگوں کے دلوں میں پیوست ہوتے جا رہے ہیں لیکن ہم اس کے باوجود بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ ہم آپ کی نہیں بلکہ جمہوریت کی حمائت کر رہے ہیں۔ ہماری حمائت کو حکومت کی طاقت نہیں بلکہ جمہوریت کی طاقت سمجھئے ۔

اس مشترکہ اجلاس میں چوہدری اعتزاز احسن اور چوہدری نثار علی خان کے درمیان مخاصمت سے حکومت کو سخت دباؤ اور مشکلات کا سامنا کرناپڑا ۔ حکومت کے مدافعانہ انداز سے اپوزیشن اور حکومت میں محاذ آرائی کی یہ فضا ٹل گئی وگرنہ نہ جانے کیا ہو جاتا؟۔ اس معرکہ کی ابتدا اس وقت ہوئی جب چوہدری نثا ر علی خان نے اعتزاز احسن پر قبضہ گروپ اور زمین مافیا کے الزامات لگا دئے ۔ چوہدری اعتزاز احسن بھی چپ رہنے والے نہیں تھے لہذا انھوں نے اگلے روز اسمبلی میں دھواں دار تقریر کر ڈالی اور چوہدری نثار علی خان کی وہ بے عزتی کی جسے کوئی بھی با غیرت شخص برداشت نہیں کر سکتا لیکن چوہدری نثار علی خان اس رسوائی کو برداشت کرگئے کیونکہ حکومت کو پی پی پی کی حمائت درکار تھی ۔اعتزاز احسن کی تقریر کے بعد وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے تقریر کی اور چوہدری اعتزاز احسن سے اپنے وزیرِ داخلہ کے نازیبا رویہ پر معافی مانگی۔میں نے اپنی زندگی میں کسی بھی وزیرِ اعظم کو پہلی بار اپوزیشن سے معافیاں مانگتے اور ترلے ڈالتے دیکھا ہے۔اس کی وجہ بڑی واضح تھی کیونکہ قادری عمران اتحاد اسلام آباد میں دھرنا دئے ہوا تھا جس سے اقتدار کا سنگھا سن لڑکھڑا رہا تھا۔ ان حالات میں اگر پی پی پی بھی مخا لفت پر کمر کس لیتی توپھر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے اپنی بقا کا اخلاقی جواز تلاش کرنا سخت مشکل ہو جاتا ۔اعتزاز احسن کی تقریر کے بعد چوہدری نثار علی خان نے اس تقریر میں اٹھائے گے نکات پر جوابی بیان دینے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن )کے سارے وفاقی وزرا کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور وہ چوہدری نثا ر علی خان پر دباؤ ڈالتے رہے کہ اس نازک وقت پر اختلافی بیان سے گریز کیا جائے کیونکہ اس طرح مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خاتمے کے امکانات بہت زیاد بڑھ جائیں گئے۔ بہر حال وزرا کی کوششیں رنگ لائیں اور چوہدری نثا ر علی نے اعتزاز احسن کے خلاف در گزر سے کام لینے کا اعلان کر کے اپنے سارے سیاسی کیرئر کو ہمیشہ کیلئے ختم کر لیا۔عزت کے دعویدار چوہدری نثار اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا جواب مرد بن کر دیتے تو پاکستانیوں کا دل خوش ہو جاتا لیکن کائروں کی طرح معافی مانگ کر اپنا معاملہ رفع دفع کر لیا جس نے ان کی شخصیت کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ہے ۔ بہادروں کی طرح میدان میں ڈٹ جانا اور سچائی کا جواب دینا ہمیشہ سے بڑے انسانوں کا خاصہ رہا ہے لیکن چوہدری نثارنے جسطرح پتلی گلی سے نکل جانے کی راہ اپنائی ہے اس سے ان کی ذات کا وہ تصور جو عوام کے اذہان میں تھا بالکل چکنا چور ہو گیا۔سچ کہا تھا شاعرِ مشرق نے کہ بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو ۔ ماڈل ٹاؤن میں عدالتی حکم کے باوجود ۱۴ پاکستانیوں کے قتلِ عام کا حکم دیتے وقت اور ۸۵ افراد کو زخمی کرتے وقت تو در گزر کے معنی یاد نہیں تھے لیکن جیسے ہی یہ ا حساس ہوا کہ پی پی پی کی حمائت واپس لینے سے حکومت گر جائیگی تو پوری مسلم لیگ پی پی پی کے قدموں میں لیٹی ہوئی تھی ۔اقتدار کی خاطر انسان اتنا بھی گر سکتا ہے پہلی بار دیکھا ہے لیکن اس حکومت نے بچنا تو ویسے بھی نہیں ہے۔شائدسو پیاز بھی کھائے ا ور سو جوتے بھی کھائے والی صورتِ حا ل ہے۔اعتزاز احسن کی یہی ایک تقریر ان کے سیاسی کیرئر کا نقطہ عروج ہے ۔اعتزاز احسن نے اپنے خلاف الزامات کا جس جوانمردی سے جواب دیا اس نے انھیں قومی ہیرو کا درجہ دے دیا ہے۔ چوہدری نثار علی خان اگر اپنا مقدمہ نہیں لڑنا چاہتے تھے اور بحث و مباحثہ میں ا لجھنا نہیں چاہتے تھے تو ٹھیک ہے لیکن کم از کم پنے بھائی جنرل افتحار کا مقدمہ تو لڑ لیتے جس سے ان کا اپنا قد بڑھ جاتا۔صفائی پیش نہ کرنے سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بھائی وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے حکم پر جنرل ضیا ا لدین بٹ کا نوٹیفکیشن نکالنے کے انکارسے آرٹیکل چھ کے مرتکب ہوئے تھے ۔ کمزور وں کے ساتھ ایک سلوک اور طاقتور وں کے ساتھ دوسرا سلوک مفاد پر ستی کی بد ترین مثال ہے اور اسے قائم کرنے والا وہ شخص ہے جو برملا کہتا تھا کہ میں منہ پھٹ انسان ہوں اور کسی کا حساب اپنے اوپر قرض نہیں رکھتا ۔ کاش وہ اعتزاز احسن کے الزامات کا قرض بھی چکا دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔وہ الزامات کاجوا ب دینے کی ہمت کرتا تو قوم اس کی بلائیں لیتی ۔لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔بقولِ شاعر۔
۔۔ بہت بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا۔۔۔ جو چیرا تو اک قطرہِ خوں بھی نہ نکلا ۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 620 Articles with 456535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.