دھرنوں سے ملکی معیشت اور خارجہ تعلقات کا دھرن تختہ

اسلام آباد میں آزادی اور انقلاب مارچ کوشروع ہوئے پانچ ہفتے گزر چکے ہیں۔ 14اگست کو تبدیلی لانے والے خود بہت سی تبدیلیوں سے گزر چکے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف تو نیا پاکستان بنانے کے چکر میں اپنی ساکھ اور وقار تک کو داؤ پر لگا چکی ہے کیونکہ پارلیمنٹ اور پاکستان ٹیلی ویژن پر حملوں کا الزام اس پر بھی ہے اور بقول جاوید ہاشمی اس داغ کو دھوتے ہوئے عمران خان کو کئی سال لگیں گے، صفایاں دینا پڑیں گی اور مخالفین کے طعنے بھی سننا پڑیں گے۔

جاوید ہاشمی بغاوت کے بعد پی ٹی آئی کی آنکھ کا کانٹا ہیں تاہم حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے پارٹی کی ساکھ کو بچانے کے لئے بغاوت کی۔ وہ کسی بھی غیر آئینی اقدام کے مخالف تھے اورپی ٹی آئی کے ماتھے پر کوئی داغ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے بہت سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی بھی استعفوں کے حوالے سے پارٹی قیادت سے نالاں ہیں اور ان میں سے تو بعض نے استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں عمران خان کی ایک قومی پارٹی کے چیئرمین ہونے کے ناطے لب و لہجہ پر بھی کافی تنقید سامنے آرہی ہے۔ دوسری طرف طاہرالقادری بھی اپنے’’ عقیدت مندوں ــ‘‘کی موجودگی میں جذبات کا طوفان کھڑا برپا کئے بیٹھے ہیں۔ ان کے کارکنوں کی طرف سے اسلام آباد میں جو کچھ کیا جارہا ہے، سرکاری عمارات ، پاکستان ٹیلی ویژن اور پارلیمان پر جو حملے ہوئے ، پولیس اہلکاروں اور سرکاری ملازمین پر تشدد کیا گیا ،وہ دراصل ایسے دانستہ علامتی اقدامات تھے جو پاکستان کی اندرونی صورتحال پر عمومی جبکہ پاکستان کے بیرونی تعلقات اور سرمایہ کاری کے حوالے سے بالخصوص اور دوررس نتائج کے حامل ہیں۔
افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کو ایسے حالات سے دوچار کرنے کے لئے لندن پلان کا انکشاف ہوا ہے جس میں وہ چہرے بھی موجود تھے جو خود کو پاکستان اور جمہوریت سے وفادار ہونے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں ۔ اب تو شاہ محمود قریشی بھی لیت لعل کے بعد لندن میں عمران ، قادری ملاقات کا اعتراف کرچکے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پردے کھلتے اور چہرے بے نقاب ہوتے جارہے ہیں۔ ہرروز ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے جس کا توڑ کرنے کے لئے مارچ اور دھرنے کے لیڈر اپنے کارکنوں کو مضحکہ خیز اقدامات پر ابھارتے ہیں۔ کبھی سول نافرمانی کی ترغیب دیتے ہیں تو کبھی کرنسی نوٹوں کو متنازعہ بنانے پر اکساتے ہیں۔ بہرحال یہ کھیل جاری ہے اور ہرروزکسی نہ کسی طریقے سے اس میں شدت لانے کی کوشش کی جاتی ہے، کوئی نیا راستہ دکھایا جاتاہے، کارکنوں کو نئی امیدیں دلائی جاتی ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ خواب وہی پورے ہوتے ہیں جو حقیقت سے قریب تر ہوں۔

بہرحال ان لیڈران کے خواب پورے ہوتے ہیں یا نہیں مگر دھرنوں اور مارچوں نے جہاں پاکستان کے ہر شہری کو بے چین کردیا ہے وہاں ان کے ذریعے ملکی معیشت اور خارجہ تعلقات کا دھرن تختہ کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی بدولت ملکی معیشت شدید بحران سے دوچار ہے۔ حکومت نے اس سال جو ترقیاتی اہداف مقرر کر رکھے تھے ان دھرنوں کی وجہ سے وہ تو متاثرہوئے ہی ہیں اوپر سے سیلاب کی تباہ کاریوں نے معاشی صورتحال کو مزید ابتر کردیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دھرنے سے ملکی معیشت کو بالواسطہ اور بلاواسطہ 800سے ایک ہزار ارب روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔ اسلام آباد سمیت پاکستان کے کاروباری حلقے شدید مندی کا شکار ہیں۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے اپنے قرضوں کی ادائیگی کیلئے اپنے تحفظات کا اظہارکیا ہے اور 550 ملین ڈالر کی قسط کا اجراء موخر کردیا ہے۔ مالی سال 2014ء میں 7 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی پاکستان پر واجب الادا ہے ۔ قرضوں کے دباؤ کی بدولت پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر بتدریج گرنا شروع ہوگئے ہیں جس کا براہ راست اثرروپے پر پڑ رہا ہے جس کی قدر 98 روپے سے کم ہوکر 102 پر پہنچ گئی ہے۔اسی طرح ملکی برآمدات میں کمی اوردرآمدات میں اضافہ ہورہا ہے۔حالیہ سیلاب سے زرعی و صنعتی شعبے کی پیداواراور سیمنٹ کے علاوہ کھادوں، ٹیکسٹائل، تیل و گیس کے شعبوں کی کارکردگی بھی متاثر ہوئی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق سیلاب سے اب تک چوبیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں اورپندرہ لاکھ سے زائد ایکڑ اراضی پر چاول، گنے اورکپاس کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں مویشی جن میں گائے، بھینسیں، بکریاں، مرغیاں اور دیگر مویشی شامل ہیں، ہلاک ہوچکے ہیں۔ جس کے باعث گوشت اور دودھ کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے۔ ظاہر ہے اس کا براہ راست اثر غریب عوام پر پڑے گا۔اسی طرح دیگر شعبہ جات پر بھی دھرنے کے شدید اثرات پڑے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں توانائی کا بحران شدید شکل اختیار کرچکا ہے۔ حکومت نے چین کے تعاون سے اس شعبہ میں سرمایہ کاری کے لئے انتہائی تگ و دو کی مگر افسوس ان دھرنوں کی وجہ سے وہ کھٹائی میں پڑ چکی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ایسے ملک میں سرمایہ کاری لانا جان جوکھوں کا کام ہے جہاں دہشت گردی نے اپنے خونیں پنجے گاڑھے ہوں، جہاں توانائی کا شدید بحران ہواور جہاں ترقی کے تمام اشارے منفی رجحان دکھا رہے ہوں۔ حکومت نے ان حالات کے باوجود ملک میں ایسی فضا پیدا کرنے پر انتہائی توجہ دی جو سرمایہ کاری کے فروغ کے لئے سازگا ر ہو۔ حکومت کی کوششوں سے ملکی معاشی اشارے بہتر سمت کی جانب رواں دواں ہوئے اور بہت سے مالیاتی اداروں اور ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی۔ خاص طور پر چین مختلف منصوبوں میں 34ارب ڈالر کی ریکارڈ سرمایہ کاری کیلئے آمادہ ہوا جن پر چینی صدر کے حالیہ دورہ پاکستان میں دستخط کئے جانے تھے لیکن احتجاجی دھرنے اس راہ میں بھی حائل ہوگئے اور چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوگیا۔ عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری قرضوں کی شکل میں نہیں بلکہ چین نے اپنی لاگت سے ان منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ اس دورے کی منسوخی کا ایک اور منفی پہلو یہ بھی ہے کہ چینی صدر نے دورہ بھارت کے دوران وہاں مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کا اعلان کر دیا، حالانکہ دونوں ملکوں میں سرحدی کشیدگی اب بھی موجود ہے، جبکہ پاکستان کو اس منسوخی سے جگ ہنسائی کا سامنا کرنا پڑا۔اس کے علاوہ مالدیت اور سری لنکا کے صدور کے دورے بھی ان دھرنوں کی نذر ہوگئے جو خارجی تعلقات کے لحاظ سے بھی پاکستان کو ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ احتجاج جمہوریت کا خاصہ ہوتے ہیں تاہم ایسے احتجاج اور دھرنے جن کا مقصد ملک کو معاشی، سیاسی اور خارجی سطح پر کمزور کرنا ہو، وہ دراصل ملکی استحکام کے منافی اورتخریب کاری کے مترادف ہیں۔ پاکستانی عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ترقیاتی اہداف پر شدید اثرات مرتب کئے ہیں۔ دہشت گردی کے عفریت نے پہلے ہی ہمیں جکڑ رکھا ہے اور افواج پاکستان ان کے خلاف مسلسل نبردآزما ہیں۔ لاکھوں آئی ڈی پیز کی دیکھ بھال اور ان کی بحالی کی ذمہ داریاں بھی ہیں، ان حالات میں دھرنوں اور مارچوں کو طول دینا اوراپنے سیاسی مقاصد کے لئے ملکی سرمایہ کاری، معاشی سرگرمیوں اورپاکستان کے دوست ممالک سے تعلقات کو داؤ پر لگادینا یقینا پاکستان اور عوام کے مفاد میں نہیں ۔یہ بھی طے ہے کہ یہ دھرنے خواہ کتنے ہی طویل ہوجائیں ملک کے منتخب وزیراعظم اور پارلیمنٹ کوکسی غیرآئینی اور غیرجمہوری طریقے سے ہٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی ملک اس نازک موقع پر اس کا متحمل ہوسکتا ہے۔
Amna Malik
About the Author: Amna Malik Read More Articles by Amna Malik: 80 Articles with 73296 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.