ہندو راشٹر بنام دلت راشٹر

ڈاکٹر ایم اعجاز علی
سابق ایم پی
بانی وسرپرست آل انڈیا یونائٹیڈ مسلم مورچہ

ہندی،ہندو، ہندوستان کا جو کبھی نعرہ بنارس سے اُٹھی تھی وہ سیاسی طور پر مضبوط ہو چکی سنگھ پریوار کی اب آئیڈیولوجی بن چکی ہے۔ ہندو راشٹر کا نعرہ ایک ایسا نعرہ ہے جو ہندو سماج کے لوگوں کو ویسے ہی متاثر کرئے گا جس طرح سے جبراً پیدا کی گئی بابری مسجد و رام جنم بھومی کے مسئلے پر یہ سماج متاثر ہو گیا ۔ ایودھیا مسئلہ پر تو وہ کامیاب ہو چکے ، اب ہندو راشٹر کا معاملہ خوب اُچھالا جائے گا۔ یہ معاملہ جیسے جیسے طول پکڑے گا ویسے ویسے ہندو سماج مزید گول بند ہوگا اور مسلم سماج سیاسی طور پر مزید کنارے ہوتی چلی جائیگی۔ حالانکہ ہندور اشٹر کا مقصد یہ ہے کہ اس کے تحت پارلیامنٹ کو دھرم سند میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ترنگا کو ہٹا کر بھگوا جھنڈ لہرایا جائے گا اور آئین ہند کے بدلے ’’ منواسمرتی‘‘ کے تحت ملک چلے گا۔ اس طرح کے نظام میں مسلمانوں کی کیا حیثیت رہ جائیگی یہی ہمارے لئے لمئحہ فکر ہے۔ ویسے بھی صاحب حیثیت مسلمانوں کو تو ان باتوں پر کم فکر ہوتی ہے کیونکہ اُن کے سامنے کئی ر استے کھلے رہتے ہیں لیکن اُس مسلمانوں کے آنے والی نسلوں کا مستقبل کیا ہوگا جو اکثریت آبادی میں ہیں اور گاؤں قصبوں اور محلوں میں دلتوں کی سی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ مستقبل میں ان کا مذہبی وجود بچے گا یا اسپین کی روداد یہاں دُہرائی جائیگی کیونکہ یہاں رہنے والے سبھی ’’ہندو‘‘ ہوں یہ بھی اُن کے نعرہ میں موجود ہے۔ تب یہ ہے سنگھ پریوار کی اس مہم میں بریک لگانے کے لئے ہمیں ہندوراشٹر کے خلاف سیدھے طور پر مخالفت کرنے کے بجائے حکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔ حکمت تو ایسی ہو کہ اُنہیں کے لوگوں کے ذریعہ‘انہیں کی جوتی اُنہیں کے سر پڑے تاکہ فضول باتیں کرنا بھول جائیں۔ ہندو راشٹر کے خلاف ہمارے پاس ایک حکمت عملی ہے اور ہندوستانی سماج کے دلت طبقات کو اس سلسلے میں ہم استعمال کر سکتے ہیں۔ اُن کے ذریعہ ہم یہ آواز اُٹھائیں کہ سنگھ پریوار والے اگر بھارت جیسے سیکولر راشٹر کے نام کو بدل کر ہندو راشٹر بنانے کے لئے مہم چلا رہے ہیں تو پھر ہندو راشٹر کے بجائے اسے دلت راشٹر کیوں نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تجویز کے پیچھے پختہ دلیل بھی ہے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی پہل پر دلتوں( Depressed Classes)کا جومعاملہ سامنے آیا تھا اور اُسی کے مطابق 1936میں جو ریزرویشن انگریزی حکومت کے ذریعہ دی گئی تھی اُ س کے حساب سے بھارت میں دلتوں کی آبادی تقریباً55فیصد ہو جاتی ہے ۔ 1950میں جب یہی ریزرویشن آئین ہند میں قانون کی شکل میں آیا ، اس وقت ڈاکٹر امبیڈکر کی مجوزہ آبادی جسے ہم آج دلت کو آبادی کہہ سکتے ہیں‘ کو ریزرویشن مخالف طاقتوں کے ذریعہ پہلے تین حصوں میں توڑا گیا کچھ کو دفعہ 341میں ہی رکھا گیا اور اُسے شیڈول کاسٹ کہا گیا جبکہ کچھ کو ٹرائبل کے نام پر دفعہ342میں منتقل کر دیا گیا اور کچھ حصے کو پچھڑوں کے نام پر دفعہ340میں پھینک دیا گیا ۔ حد تو یہ ہے کہ شروع میں تو صرف دفعہ 341اور دفعہ342والوں کو ہی ریزرویشن جاری رکھا گیا تھا، دفعہ 340والوں کو 1990کے پہلے ریزرویشن کی مراعات کہا ملتی تھی ۔تلخ حقیقت تو یہی ہے کہ بھارت کی دبنگ طاقتیں ہمیشہ سے ریزرویشن مخالف رہی ہیں۔ آئین بنتے وقت بھی یہ ریزر ویشن دیناکہاں چاہتی تھیں۔ وہ تو ڈاکٹر امبیڈکر کی ثابت قدمی تھی کہ کاٹ چھانٹ کرہی صحیح لیکن ریزرویشن ملا۔ بہر حال ڈاکٹر امبیڈکرکی مجوزہ آبادی کو ، اُن کی موجودہ گی میں نہ صرف توڑا گیا بلکہ ان دونوں دفعات پر مذہبی قید لگا کر اقلیتی آبادی کو ریزرویشن کے دائرے سے باہر کیا گیا جبکہ پیشے کی بنیاد پر اقلیتوں خصوصی طور پر مسلمانوں کی بڑی آبادی کو 1936ء میں اسی ریزرویشن کے دائرے میں ہی رکھا گیا تھا۔ اس طرح دلت آبادی کو کل ملاکر5؍ حصوں میں توڑا گیا تاکہ مستقبل میں جبکہ ووٹ کا راج ہوگا‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ استحصال زدہ طاقتیں ملک کی کرسی پر قبضہ کرلے۔ سنگھ پریوار والے اس ملک میں منووادی نظام ہی قائم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ استحصال زدہ طبقات کو یہ پیروں کے تلوے میں رکھ کر اُن سے محض خدمت گذاری کا کام لیں ۔ اپنے اس نظام کو انہوں نے کسی بھی حکومت میں نہیں بدلنے دیا ۔ خواہ وہ مسلمانوں کا دور ہو یا انگریزوں کا۔ تعلیم سے اُنہیں آراستہ کرنا ، اُن کی مالی حالت کو درست کرنا ، ان کی بستیوں میں بنیادی سہولیات دینا وغیرہ تو کبھی ان کے ذہن کے گوشے میں بھی نہیں آتا ہے۔ اسی ذہنیت کا اثر ہے کہ تعلیم کی شرح آج بھی 35-40فیصد سے زیادہ نہیں ہوپائی ہے۔ غریبی کی شرح 75فیصد سے زیادہ ہے، سلم(Slim) بستیوں سے کو ئی بھی شہر اچھوت نہیں ہے جبکہ دیش کے غیر شہری حصوں کی بدحالی کی بات چھوڑیئے۔ غور و فکر کی بات یہ ہے کہ یہ سب آزادی قائم ہونے کے 67سالوں بعد کی ہے اور تب جبکہ 64سالوں سے یہاں آئین کے تحت جمہوریت بھی قائم ہے۔ جمہوریت کے بجائے اگر یہاں راج شاہی قائم ہوتی اور قانون منو اسمرتی کے حساب سے ملک چلتا اور تب ہمارے ملک کی ایسی حالت اتنے عرصوں کے بعد بھی قائم رہی تو یہ مانی جاتی لیکن یہاں تو آئند ہند بھی ہے اور جمہوریت بھی ہے اس کے باوجود اس بد حالی کا ہونا، یہ سب ہندووادی سوچ رکھنے والوں کی دماغ کو بتاتا ہے تبھی تو آزادی کے 67برسوں بعدحالات تو ویسی ہی رہی اور اب تو تاحیات یہ حالات قائم رہے اس کے لئے ہی تو ہندو راشٹر قائم کرناچاہتے ہیں۔ اس دلیل کو ہمیں اپنے دلت و پچھڑے بھائیوں کے بیچ قاعدے سے پھیلانا ہوگا تاکہ وہ سمجھیں کہ ہندو راشٹر میں ان کی کیا حیثیت بنا دی جائیگی۔ جو حق و حقوق آئین کے تحت سیکولر راشٹر میں مل رہا ہے تو بچے گا بھی نہیں ۔ یہ سمجھا دینے کے بعد اُس سے کہوانا ہوگا کہ ملک کو ’’ دلت راشٹر‘‘ یا ’’شودر راشٹر‘‘ قرار دیا جائے تاکہ ہندو راشٹر کی مہم چلانے والوں کے سر پر انہیں کی جوتی پڑے۔ پھر دلت راشٹر قرار دینے سے دنیا بھی جانے گی کہ آزاد‘ جمہوری ملک میں آج بھی وہ طاقتیں حاوی ہیں جو یہاں کی ’’مول نیواسی ‘‘ کو غلام بناکر رکھے ہوئی ہیں۔ انگریزی حکومت کی غلامی تو ختم ہوگئی لیکن آریاوؤں سے انہیں آج بھی آزادی نہیں ملی ہے تبھی تو ملک کی اتنی خستہ حالات ہے ۔ مول واسی مخالف طاقتیں ایئرپورٹ، پٹرول پمپ، فلائی اوور مال سے شہروں کو سجا کہ دنیا کو مغالطے میں رکھ کر اپنا الّو سیدھا کر رہی ہی جبکہ کر یہاں کی بڑی آبادی آج بھی غلامی والی زندگی گذار رہی ہے۔ دلت راشٹر قرار دینے سے اتنا تو طے ہے کہ جن بدحالیوں کا سامناآج بھی ہمارا ملک و سماج کر رہا ہے اس میں تیزی سے سدھار لانے کی گنجائش بڑھے گی۔ بھارتی ہونے کے ناطے ہر شہری تو یہی چاہئے گا کہ ملک کی ترقی مساوات کی بنیاد پر ہو، سماج کا کوئی بھی حصہ بھی اس ریس میں پیچھے نہ رہے ‘ ساتھ میں ہمارا ملک بھی بین الاقوامی پیمانے پر دیگر ملکوں کی ریس میں آج کی طرح پیچھے نہ رہے ، لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب پورے ملک و سماج کی ترقی میں یکسانیت ہو جو ہندو راشٹر میں ممکن نہیں ہے کیونکہ ذات پات اور دھرم کے نام پر منتشر سماج پر حکومت کرنا ان کانصیب العین ہے۔
Azam nayyar
About the Author: Azam nayyar Read More Articles by Azam nayyar: 12 Articles with 8424 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.