داعش کی کارروائیاں اورعالمی برادری کاکردار

 ۱۱ جولائی کے نوائے وقت میں بغداد سے یہ خبر ہے کہ عراق کے صوبے دیالہ کی سکیورٹی کمپنی کے سربراہ صادق الحسینی نے کہاہے کہ دہشت گرد داعش کے عناصرنے خلافت نہ ماننے پر اپنے ایک اندہوناک اقدام میں اس صوبے کے مختلف علاقوں میں انتالیس عراقیوں کوبے گناہ پھانسی پر لٹکادیا۔ داعش کے عناصرنے العظیم میں سو سے زیادہ گھروں کا سامان لوٹ لیا اور خواتین کو بھی تکلیف پہنچائی۔ اسی دن کے روزنامہ خبریں میں بغداد سے ہی خبر ہے کہ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق داعش کی جانب سے مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کا مذموم سلسلہ طول پکڑ گیا ہے۔ جنگجوؤں نے موصل شہر میں مزارات اورمساجد شہید کرنے کے بعد تاریخی قبرستان کارخ کرلیا۔ انتہا پسندوں نے تاریخی قبرستان میں موجود حضرت یونس علیہ السلام اورحضرت شیث علیہ السلام کے مزارات کو مسمار (شہید) کردیا ہے۔ عراق کی حکومت نے اس کی تصدیق کردی ہے جنگجوؤں نے گرجا گھروں کو بھی آگ لگادی۔ تیل کے ذخائر پر بھی قبضہ کرلیا۔ جس سے اسے ایک ملین ڈالرروزانہ آمدن ہورہی ہے۔ عراق کے شمالی صوبہ کے دارالحکومت دیالہ میں داعش اورفوج کے درمیان لڑائی میں ۹ فوجی ہلاک اور۳۸ زخمی ہوگئے۔ بغدادسے ۵۳ لاشیں بھی ملی ہیں ۔ ان کو گولیاں مارکر قتل کیا گیا۔ واضح رہے داعش نے عراق کے مختلف شہروں میں قبضہ کرتے ہوئے خلافت کا اعلان کردیا ہے۔ عراقی سفیر نے اقوام متحدہ کواپنے خط میں داعش کی طرف سے یونیورسٹی سے یورینیم قبضہ میں لیے جانے اوراس بارے اپنے خدشات کا اظہارکیا۔ اسی اخبار میں ہے کہ امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈرنے کہا ہے کہ مغربی ممالک کے جوشہری شام میں عسکریت پسندوں کی فوج کا حصہ بن کرشام کے صدر بشارلاسد کے خلاف لڑائی میں شریک ہیں وہ امریکہ اور تمام یورپی ممالک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوں گیاقوام متحدہ کے ماہرین نے دعوی کیا ہے کہ داعش نے خلافت کے اعلان کے بعد اپنے ہم عقیدہ متعدد مذہبی راہنماؤں کوقتل کردیا۔ جن میں تیرہ نمایاں علماء بھی شامل ہیں۔۶ اگست کے روزنامہ خبریں میں ہے کہ داعش کے منحرف جنگجو ابوعبیدہ نے لبنانی اخبار کو اپنے خفیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ وقت دورنہیں جب داعش کا نجد میں ظہورہوگا۔ گروپ سے علیحدگی سے پہلے میں زیر قبضہ صحرائی علاقے کا حکمران تھا۔ شام اور عراق پر تنظیم نے خوفناک وارکیے ہیں۔ داعش سے علیحدگی کی وجہ بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ گروپ اپنے ابتدائی نصب العین سے منحرف ہوچکا ہے۔ جس کا مقصد تیل پر قبضہ کرکے دولت کمانا ہے۔ گروپ کے جنگجوؤں کی بڑی تعداد کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔،لہذاوہ جنگی کارروائیوں کو ملک میں پہنچانے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ دہشت گرد کارروائیوں میں حصہ لینے کے الزام میں گرفتارخواتین کی بحالی کے لیے مردوں کی طرزپر خصوصی پروگرام شروع کیا جارہا ہے۔ سعودی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ شدت پسند افراد کے رویوں میں تبدیلی کے لیے ان کا علاج کیا جاتا ہے۔ تاہم مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعدادکم ہے۔شیطانی خوبیوں کے حامل نوجوان شام میں داعش کے ساتھ مل کر فوج کے خلاف لڑرہے ہیں۔مغربی مملاک کے نوجون بھی بڑی تعداد میں شامل ہورہے ہیں۔داعش نے یزیدی برادری کو اسلام قبول کرنے کا الٹی میٹم دے کر علاقہ چھوڑنے کاحکم دے دیاہے اور ہزاروں افراد قتل کردیے ہیں۔انیس اگست کے روزنامہ پاکستان میں ہے کہ عراق میں کرد جنگجوؤں نے داعش کے خلاف امریکہ کی مدد سے سب سے بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے موصل ڈیم کو بازیاب کرالیا ہے۔ملک کے سب سے بڑے حصے کوبجلی فراہم کرنے والے ڈیم پر ایک ہفتہ قبل جنگجوؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔اور کئی بڑے شہروں کوڈیم کا پانی چھوڑکر ڈبونے کی دھمکی دی تھی۔ بیس اگست کے نوائے ؂وقت میں ہے کہ امریکی میڈیا کے مطابق وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے باراک اوباما نے اس کی تصدیق کی۔ مسٹر اوبامانے مزید کہا کہ امریکہ عراق میں اہم پیش رفت ہوتے دیکھ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شدت پسند گروپ کے خلاف طویل مدتی پالیسی اختیارکریں گے۔اسی اخبارمیں ہی دبئی اوردمشق سے مشترکہ خبرہے کہ عراق اورشام میں ایک بڑے علاقے پر قابض گروپ داعش نے ایک ویڈیو پیغام میں امریکہ کودھمکی دی ہے کہ عراق میں اسکے جنگجوؤں پر حملے جاری رکھے گئے تووہ اسے خون میں نہلادے گا۔ستائیس اگست کے روزنامہ پاکستان میں ہے کہ امریکی وزرات خارجہ کی ترجمان جین ساکی ایک پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ عراق اورشام میں اسلامی ریاست کے دہشت گردوں کا فروغ ہمارے لیے بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ لیکن ہم ان کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے کی شام کی پیش کش قبول نہیں کرسکتے۔ شام کی آمرانہ حکومت ایک طرف دائیں ہاتھ سے داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کررہی ہے۔ دوسری طرف بائیں ہاتھ سے شام کے عوام کوان کے جائز حقوق دینے اوران کی شکایات دورکرنے سے احترازکررہی ہے۔ جس سے لوگ تنگ آکر داعش جیسی تنظیموں میں بھرتی ہورہے ہیں۔ امریکی سرزمین کو براہ راست دہشت گردوں سے خطرات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امریکی ترجمان نے بتایا کہ اسلامی ریاست نے خود اعلان کیاتھا کہ وہ امریکہ کی سرزمین پر حملے کا ارادہ رکھتی ہے ہم اس دھمکی کوسنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ ہماری تشویش کا ایک اورپہلو بھی ہے کہ بہت سے امریکی اوریورپی شہریت کے حامل افراداسلامی ریاست کے تحت عراق اورشام کی لڑائی میں مصروف ہیں۔ اور یقینا یہ لوگ واپس آکر دہشت گرد کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ انتیس اگست کے روزنامہ خبریں میں ہے کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شامی حکومت نے مختلف مواقع پر کیمیائی ہتھیاراستعمال کیے۔ داعش کے جنگجوؤں نے بے گناہ افرادکوقتل کیا جسے بچوں کوبھی دیکھنے پرمجبورکیا گیا۔ گروہ کئی علاقوں پر قابض ہے اوربشارالاسد کے خلاف جنگ لڑرہا ہے۔ جنگجو شمالی شام کی آبادیوں میں قتل کرنے کے علاوہ لوگوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر شدید خوف وہراس پھیلا رہے ہیں۔ لاشیں بازاروں میں نمائش کے لیے لگادی جاتی ہیں۔ عورتوں کو داعش کے بیان کردہ لباس کی خلاف ورزی پرکوڑے مارے جاتے ہیں۔ بچوں کودہشت گردی کے تربیتی مراکز میں زبردستی بھرتی کیا جارہا ہے ۔ جان کیری کہتے ہیں عراق میں کردوں کوامریکہ کینیڈا، البانیہ ، روشیا ڈنمارک، اٹلی فرانس اوربرطانیہ اسلحہ فراہم کریں گے۔ ایرانی وزیرخارجہ کہتے ہیں کہ کردستان کے صدر نے ایران کے جنگجوؤں کے خلاف اسلحہ فراہم کیا فوجی نہیں بھیجے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق شام میں عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑنے والاامریکی شہری مارا گیا۔ اسی روز کے روزنامہ جنگ میں بیروت سے خبر ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ انہوں نے یرغمال بنائے گئے دو سو فوجیوں کو ہلاک کردیا ہے۔ حقوق انسانی کے لیے شامی مبصرگروپ کے سربراہ عبدالرحمن کا کہنا تھا کہ درجنوں شامی فوجی اس وقت فرارہوتے ہوئے یرغمال بنائے گئے تھے جب داعش نے ناتقہ ایئر بیس پرقبضہ کرلیا تھا۔اورانہیں رات کے دوران موت کے گھاٹ اتاردیا۔ شامی فوج نے اسرائیل کے ساتھ سرحدی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف بڑا آپریشن شروع کردیا ہے۔ اسی روز کے روزنامہ نوائے وقت میں ہے کہ عراق میں شدت پسند گروپ دولت اسلامیہ کے خلاف جاری امریکی فوجی کارروائی پرروزانہ اوسطا ۷۵ لاکھ ڈالر خرچ ہورہے ہیں۔ پینٹاگان کے ترجمان ریئرجان کربی نے بتایا کہ محکمہ دفاع عراق کی طرز پرشام میں بھی دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پرامریکی فضائی حملوں سے متعلق ایک منصوبے پر کام کررہا ہے۔ جسے منظوری کے لیے صدر اوباما کو پیش کیا جائے گا۔ ترجمان نے کہا یہ منصوبہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے اسی لیے اس بارے زیادہ تفصیل فراہم نہیں کی جاسکتی۔ ۳۱ اگست کے روزنامہ خبریں میں ہے کہ داعش نے ۲۵۰ شامی فوجیوں کے قتل کی ویڈیو جاری کردی ہے۔ گولان سے اقوام متحدہ کے ۴۳ فوجی اغوا کرلیے۔فرنسیسی صدر فرانسواولاند نے خبردارکیا ہے کہ بشارلاسد مغرب کے نہیں داعش کے اتحادی ہیں۔ داعش کو شکست دینے کے لیے شامی حزب اختلاف کو مسلح کرنے کی ضرورت ہے۔ تین ستمبر کے اسی اخبارمیں ہے کہ مغربی تجزیہ نگاروں نے نیا الزام لگاتے ہوئے داعش کو بنانے اور قائم رکھنے کی ذمہ داری قطر ، سعودی عرب اورترکی پر عائد کردی ہے۔ شام مین برسر پیکارشدت پسندوں کی مالی معاونت خلیجی ریاستوں کے کچھ امراء کرتے رہے ہیں۔ جو ترکی جارک لاکھوں ڈالراس گروہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔دوہزاربارہ تیرہ میں یہ عمل معمول بن گیا تھا۔اب دہشت گردوں کوپہنچائی جانے والی بھاری رقم کا بہت چھوٹاحصہ اس راستے سے گروہ تک پہنچایا جارہاہے۔ التوحید، احرارلشام ، جیش الاسلام کے لوگوں کے النصرفرنٹ اور شام میں موجود القاعدہ سے روابط رہے ہیں۔ سعودین عرب نے داعش کی مدد کرنے کی ہمیشہ تردید کی۔ شام میں بشارلاسد کے خلاف جاری شورش کے ابتدائی دنوں میں باغی گروہوں کو رقوم فراہم کی جاتی رہی ہیں۔قطرپر الزام ہے کہ اس کے داعش کے ساتھ خفیہ روابط ہیں ترکی کے کردارپر بھی بہت سے سوالیہ نشان موجودہیں۔کہ اس نے سعودی عرب اورقطرکو راستہ دیا۔ اوروہاں سے داعش کو اسلحہ اوربھاری رقوم فراہم کی جاتی رہی ہیں۔ داعش کی مددکرنا زسعودی عرب کی حکومتی پالیسی نہیں رہی۔وہ بشارالاسد کو ہٹانا چاہتا ہے۔ شام میں برسرپیکارچھوٹے گروہ اسلحہ اوردولت سمیت داعش میں شامل ہوچکے ہیں۔۹ ستمبرکے روزنامہ نوائے وقت میں ہے کہ عرب لیگ کے وزراء خارجہ نے داعش سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری اقدامات پر اتفاق کیا ہے۔قاہرہ میں منعقدہ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کی قراردادکی توثیق کی گئی ہے۔ اسی اخبار میں ہے کہ داعش نے القاعدہ کو بھی تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ سولہ ستمبر کے روزنامہ خبریں میں ہے کہ امریکہ نے داعش کیخلاف باضابطہ اعلان جنگ کردیا ہے۔ ۴۰ ممالک نے حمایت کردی ہے۔ امریکی جنرل ایلن آپریشن کی نگرانی کریں گے۔ اوباما کہتے ہیں دہشت گردی سرطان ہے اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑاکا طیاروں کوحکم دے دیا ہے کہ وہ داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کریں۔ امریکہ داعش کے خلاف حالت جنگ میں ہے۔ جان کیری کہتے ہیں اس جنگی اتحاد میں ایران کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ دس عرب ممالک بھی حمایت کریں گے۔آسٹریلیا ۶ سوفوجی فراہم کرے گا۔ ایران کہتا ہے امریکی اتحاد کا خطے کی مشکلات سے کوئی تعلق نہیں۔ لبنان نے کہا ہے کہ سرحدوں کا احترام کیا جائے تو اتحادمیں شامل ہوں گے۔ بارہ ستمبر کے نوائے وقت میں ہے کہ نیویارک میں ورلڈٹریڈ سنٹرپرحملے کے ۱۳ برس مکمل ہونے پرامریکی قوم سے اپنے خطاب میں اوباما نے کہا ہے کہ دھمکی دینے والے کسی دہشت گرد گروپ کوکہیں پناہ نہیں ملے گی۔ امریکہ دولت اسلامیہ ختم کرنے کے لیے ایک وسیع اتحاد کی قیادت کرے گا۔ ۱۸ ستمبرکے روزنامہ خبریں میں ہے کہ پیرس کانفرنس میں داعش کے خلاف جنگ کے لیے تیس ممالک نے فوجی امداداورمالی وسائل دینے کا وعدہ کیا ہے۔ میزبان فرنسیسی صدرنے کہا کہ یہ عالمی خطرہ ہے اس کا ردعمل بھی عالمی ہونا چاہیے۔ شرکاء کانفرنس نے کہا کہ اس بات کویقینی بنائیں گے کہ کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور اقوم متحدہ کے فریم ورک کے اندررہتے ہوئے ضروری وسائل مہیا کیے جائیں گے۔فرانسیسی وزیرخارجہ نے کہا کہ ایسے گروپ کے خاتمے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ امریکہ نے کہا ہے کہ فضائی کارروائی کے راستے میں حائل ہونے کی کوشش کی توشام کے فضائی نظام کونشانہ بناسکتے ہیں۔ شام میں داعش کے ٹھکانوں کو تباہ کرتے رہیں گے۔ اوباما طویل عرصے سے موقف رکھتے ہیں کہ بشارالاسدکواقتدارسے الگ ہونا چاہیے۔ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد موقف میں شدت آگئی۔ سعودی وزیرخارجہ نے کہا کہ داعش صرف عراق اورشام کے لیے خطرہ نہیں عالمی دہشت گرد تنظیم ہے۔ اتحادشامی اپوزیشن کی بھی مدد کرے۔ بیس ستمبر کے نوائے وقت میں ہے کہ امریکی سینٹ نے داعش کے خلاف شامی باغیوں کواسلحہ دینے کی منظوری دے دی ہے۔ ایران کے کہا ہے کہ امریکہ جوہری مسئلے پر لچک دکھائے توداعش کے خلاف جنگ میں تعاون کریں گے۔ جبکہ وائٹ ہاؤس نے انکار کردیا ہے۔ ۲۴ ستمبر کے نوائے وقت میں ہے کہ عراق میں داعش کے جنگجوؤں نے فوجی اڈے پر ۶ خودکش حملوں میں افسران سمیت ۴۰ فوجی ہلاک اور۷۰ کواغواء کرلیا۔شام میں شام میں داعش کے باغیوں کے ٹھکانوں پرسرکاری فوج کی بمباری سے سولہ بچوں سمیت ۴۲ افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔اسی دن کے روزنامہ جنگ میں ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے اپنے فضائی حملوں کادائرہ کاربڑھاتے ہوئے شام میں داعش کے ٹھکانوں پرفضائی حملوں کاآغاز کردیا ہے۔حملوں میں ۱۲۰ جنگجو ہلاک ہوگئے ہیں۔ دوسری جانب عراقی سرحد سے متصل علاقوں میں کردفوج سے جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ۱۰۰سے بڑھ گئی ہے۔

داعش کے بارے میں ہم فقط اتنا کہیں گے کہ یہ مسلمانوں کے لیے ایک نئی مصیبت ہے۔
 

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 351135 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.