انقلاب اور آزادی مارچ کے ہماری معیشت پر اثرات

انقلاب یا آزادی مارچ آگے کیا ہونے جا رہا ہے ؟؟ اس پر تبصرہ کرنا ایک نہایت ہی مشکل امر ہے ۔اس مارچ کا آغاز یوم آزادی یعنی ۱۴ اگست سے ہوا ، مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنان اسلام آباد پہنچے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار درالحکومت اسلام آباد کو احتجاج کے لیئے چنا گیااور مارچ کے بعد دھرنے بھی اسلام آبادکے ریڈ زون ایریا میں دیاگیا ہے ۔ ان دھرنوں کوکم و بیش قریبا دوہفتے سے زیادہ وقت گزرچکا ہے ۔ہر روز ایک نئی ڈیڈ لائن دے دی جاتی ہے ۔ کبھی چوبیس گھنٹے ، کبھی آڑتالیس گھنٹے ۔حکومتی ارکان اور مخالف پارٹیوں کے درمیان مذاکرات اگر ہوتے بھی ہیں تو کوئی خاطر خواہ پیش رفت نظر نہیں آتی ۔ایک طرف دونوں پارٹیوں ( مولاناطاہر القاری اور عمران خان ) کے لیڈران جکھنے کو تیار نہیں جبکہحکومتی ارکان بھی اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں ۔ ان دونوں پارٹیوں کے مطالبات نہ تو حکومت ماننے کو تیار ہے اور نہ ہی یہ پارٹیاں ان مطالبات میں کوئی لچک لانے کوتیار ہیں ۔یہ دھرنا یقینا بہت اچھی نیت سے دیا گیا ہو گااور یقینا اس کے کچھ اچھے اثرات بھی مرتب ہوں گے ۔لیکن اس دھرنے نے ملک کے معاشی اور معاشرتی حالات پر کیا اثرات مرتب کیئے اور کر رہے ہیں ۔ آیئے ایک نظر ان پر بھی ڈالیں ۔
۱۔ دونوں مارچ ( انقلاب مارچ اور آزادی مارچ ) کے آغاز سے ہی اسلام آباداور دوسرے شہروں کو ملانے والی سڑکوں پر جابجا کنٹینر لگا کر انھیں بند کر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے عوام متبادل رستے کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو گئے اور جو سفر ایک گھنٹے پر مشتمل تھا ان دنوں وہ سفر تین سے چار گھنٹوں تک جا پہنچا ہے ۔اکثر وبیشتر تقریبا تمام راستے بند کر دیئے جاتے جس کی وجہ سے لوگوں کو بے حد مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، دفاتر کے اوقات غیر مقررہ ہو جانے کی وجہ سے کام میں واضع فرق دیکھنے میں آیا ہے اور حاضری میں بھی کمی آئی ہے ۔ جو لوگ دور دراز کے علاقوں سے نوکری کی وجہ سے اسلام آباد آتے ہیں انھیں سب سے زیادہ مشکل اٹھانا پڑتی ہے ۔ اگر کسی کو ایمرجنسی کہیں جانا پڑے تو یہ ایک ناممکنات میں سے ہے۔خاص طور پر مریض یا بزرگ شہریوں کو مشکلات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی پڑول پمپوں اور سی این جی سٹیشنزکے بند ہو جانے کی وجہ سے گاڑیوں کی آمدورفت مشکل ہوگئی ہے جبکہ ٹکسیوں اور پبلک ٹراسپورٹ کے کرایوں میں بھی اضافے نے مہنگائی سے ستائے غریب عوام کو مزید مشکل میں ڈال دیا ہے ۔ ٹیکسی ڈرایؤر لوگوں سیمنہ مانگا کرایہ وصول کر رہے ہیں جبکہ ٹراسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے عوام ان کو زیادہ کرایہ دینے پر مجبور ہیں ۔

۲۔اس صورت حال سے صرف عوام نہیں کنٹینر مالقان بھی نقصان اٹھا رہے ہیں ۔ایک کنٹینر کا ایک دن کا کرایہ قریبا ۱۵۰۰۰ ہے اور یہ کرایہ کسی کو ادا نہیں کیا جا رہا ۔کرایہ کے علاوہ یہ کنٹینر سامان کی ترسیل کے کام سے ہٹا کر سٹرکوں پر کھڑے کر دیئے گئے ہیں اس سے سامان چاہے وہ کسی بھی طرح کا ہو اس کی ترسیل بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔

۳۔آمد ورفت کی مشکلات کے سبب اسلام آباد کے گرد ونواح میں کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل میں کمی ہوئی ہے اور یہ اشیاء مہنگے داموں فروخت ہو رہی ہیں ۔مارکیٹ میں آٹے سمیت ہرچیزغائب ہوتی جا رہی ہے ۔اس صورت حال کا فائدہ ذخیرہ اندوز اٹھاتے ہیں اور اشیائے خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کر دی جاتی ہے۔اس صورت حال کا شکار نہ صرف عوام میں بلکہ دھرنوں میں موجود کارکنان کو بھی اسی طرح کے حالات کا سامنا ہے ۔ اشیائے خوردونوش کے ساتھ ساتھ چھتریاں اور ڈسپوزبل کلاس وغیرہ کی قیمتوں بھی آسمان کو چھونے لگی ہیں ۔۔

۴۔حالیہ دھرنوں نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کو مزید خراب کیا ہے ۔ عالمی اداروں کے چونکہ دفاتر زیادہ تر اسلام آباد میں اس لیے ان اداروں کا کام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ دونوں دھڑوں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا آپس میں ضم نہ ہونا اقوام عالم کو یہ دکھا رہا ہے کہ ہمارے مطالبات تو ایک ہیں لیکن ہم متحد نہیں ۔دونوں دھرنوں میں موجود شراکاء بھی ایک مشرقی اقدار کے پابند جبکہ دوسرے مغربی اقدار کے دلدادہ ۔ عالمی سطح پر اس وقت پاکستان ایک سیاسی محاظ آرائی کا شکار ملک نظر آتا ہے اور یہ جمہوریت کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔

ٓان دھرنوں کی وجہ سے سٹاک ایکس چینج میں واضع مندی نظر آئی اور روز بزوز اس مندی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے ۔معیشت کا پیہ جام ہوتا نظر آ رہا ہے ۔

۵۔ان دھرنوں کی وجہ سے راولپنڈی اسلام آباد میں شروع ہونے والے ترقیاتی کام بھی رک گئے ہیں ۔اور ان کاموں سے وابسطہ افراد بے روزگار ہوتے نظر آتے ہیں ۔

۶۔اگران حالات کا معاشی جائزہ لیا جائے تو اعداد وشمار مزید پریشان کن نظر آتے ہیں ۔ملکی معیشت کو ان چند دونوں میں ۱۹ ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہو ۔اور اس میں دن بدن اضافہ ہو گا ۔ جس قدر یہ دھرنے طول پکڑیں گے معاشی نقصان کی سطح بھی بلند ہوتی جائے گی ۔بیرونی سرمایہ کاری پہلے ہی دہشت گردی کی بدولت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ان حالات کے مدنظر ملکی سرمائیہ کا ر بھی بدظن ہو کر اپنا سرمائیہ دوسرے ممالک میں منتقل کرنے لگے ہیں ۔جتنا نقصان سرمایہ کاروں کو ان دنوں ہوا ہے اتنا پہلے کبھی نہیں ہوا ۔ پنڈی اسلام آباد میں دوکان دار اور دھاڑی دار مزدوروں کو روزی نہ ملنے کی وجہ سے یہ لوگ ملازمت پیشہ افراد سے کہیں زیادہ مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔ کیونکہ دھاڑی دار مزدور وں کی روزری روٹی انھی مارکٹیوں سے منسلک ہے ۔مارکیٹیں بند ہونے کی وجہ سے یہ لوگ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے سے قاصر ہیں ۔

۷۔سول نافرمانی ( جیسا کہ عمران خان نے کہا) کی تحریک اگر چلائی جاتی ہے تو ملکی معیشت مزید تباہی کی طرف جائے گی اورمہنگائی مزید بڑھے گی ۔( یہ فیصلہ بعد میں واپس لے لیا گیا )۔

یہاں یہ واضع کر دینا چاہوں گی کہ میں کسی پارٹی کو سپورٹ نہیں کرتی ۔ نہ تو میں حکومت کی حمایت کرتی ہوں نہ ہی کسی اور سیاسی پارٹی کی ۔ میرا مطمع نظر صرف یہ ہے کہ جب سیاسی محاظ آرائی میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے اور اس طرح پہلے سے کمزور معیشت مزید کمزوری کی جانب پڑھتی ہے ۔ملک میں احتجاج ہونا چاہیے ، بہتری آنی چاہیے لیکن اس انداز سے کہ معیشت کا پیہ جام نہ ہو۔ ملکی کو کسی قسم کا معاشی نقصان نہ اٹھا نا پڑے ۔
 

Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164359 views i write what i feel .. View More