یقینا پاکستان میں یہ خبر خوشی
کا باعث ہے کہ پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم نے بنگلا دیش کی خواتین کرکٹ ٹیم
کو ہراکر ایشین گیمز میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کرلیا۔ عمران خان بھی یقینا
اس خبر کو سنکر خوش ہوئے ہونگے۔ پاکستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کو اس کارنامے
پرجتنی بھی مبارکباد دی جائے کم ہے، اورٹھیک اُسی دن فاتح ورلڈ کپ 1992ء کے
کپتان عمران خان اور علامہ طاہر القادری نے بھی پاکستان کےلیے طویل دھرنوں
کاایک عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ دھرنوں کے دوران "گو نواز گو" کے نعرئے پورئے
ملک میں گذشتہ چالیس دن سے گونج رہے تھے اور یہ نعرہ سنتے سنتے ہی نواز
شریف امریکہ کے سفر پر روانہ ہوگے، لیکن اس نعرئے نے اُنکا لندن اور
نیویارک میں بھی پیچھا نہیں چھوڑا ہے اور یہاں وطن عزیز میں عمران خان اور
طاہر القادری بھی گو نواز گو کی تسبیع پڑھنے میں مشغول ہیں اور نواز شریف
کے استعفی کی مانگ پر قائم ہیں۔ ابھی تک نہ تو "گو نواز گو" کے نعرئے اورنہ
ہی دھرنوں کا کوئی نتیجہ نکلا ہے، نواز شریف اور اُنکی کابینہ ویسے ہی کام
کررہی ہے جیسے پہلے کام کررہی تھی۔ پارلیمینٹ بھی موجود ہے، بظاہر ایسا لگ
رہا ہے کہ دونوں کزن کے دھرنے ناکام ہوگے ہیں۔ دھرنوں کا تجزیہ کرنے والے
اُسکے مثبت اور منفی پہلوں کو اجاگر کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین
عمران خان نے لاہور میں روانگی سے قبل کہا تھاکہ ہم فیصلہ کن جنگ لڑنے جا ر
ہے ہیں، حکومت کا مینڈیٹ جعلی ہے، 14اگست کو جلسہ کرکے واپس نہیں آئیں گے،
ٹونٹی ,20نہیں ٹیسٹ سیریز کھیلنے جا رہے ہیں جب تک سسٹم ٹھیک نہیں ہو گا جد
و جہد ترک نہیں کریں گے۔ عمران خان نے کہا تھا کہ اسمبلی ایسے لوگوں سے
بھری ہے جو نظام بدلنا نہیں چاہتے، اب سسٹم ایسے نہیں بلکہ سڑکوں پرنکلنے
سے ٹھیک ہو گا ۔ 14ماہ ہو گئے ہمیں انصاف کی تلاش میں پھرتے ہوئے انصاف کس
طرح ملتا ہے ہمیں بتایا جائے ۔انہوں نے کہا دو نمبر لوگوں سے نجات کےلیے
سڑکوں پر آنا ہو گا۔ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری اور اُنکی جماعتوں
کو سڑکوں پر آئے ہوئے اور دھرنے دیتے ہوئے بھی چھ ہفتے گزر چکے ہیں۔
لاہور سے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی روانگی کے وقت عام طور پر یہ خیال
کیا جارہا تھا کہ اسلام آباد میں دیئے جانے والے دھرنے اگلے چار پانچ روز
میں ختم ہوجاینگے کیونکہ سب کے سامنے2013ء میں علامہ طاہر القادری کے اسلام
آباد دھرنے کی تاریخ تھی جو بغیر کسی تاخیر یاجانی یا مالی نقصان کے ختم
ہوگیا تھا، یہ بات اور ہے کہ اس دھرنے کا نہ تو پاکستانی سیاست پر کوئی اثر
پڑا اور نہ ہی پاکستانی عوام کو کچھ بدلاوُ ملا۔ لیکن 2014ء کے دھرنے مکمل
طور پر مختلف ثابت ہوئے، ان دھرنوں میں عمران خان اور طاہرالقادری نے اپنے
اپنے کردار پہلے ہی طےکرلیے تھے۔ اس پورئے پروگرام کو طے کرانے میں شیخ
رشید، چوہدری شجات اور چوہدری پرویز الہی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ لندن
ملاقات جہاں علامہ طاہرالقادری اورعمران خان ملے اُسکوایک خفیہ سیاسی
ملاقات کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا، اس بنیاد پردونوں رہنماوں کو غدا ر
کہنا یا ملک دشمنی کا الزام لگانا دراصل اُن لوگوں کی سیاسی کمزوری ہے جو
نہ صرف کرپٹ اور مفاد پرست ہیں بلکہ بہت سے جعلی مینڈیٹ سے اسمبلیوں میں
پہنچے ہوئے ہیں۔آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کو چھ ہفتے گزر چکے ہیں، اس
درمیان میں شاہ محمود قریشی نے تحریک انصاف کے ممبران قومی اسمبلی کے
استعفے اسمبلی میں جمع کرادیے، کچھ ارکان اسمبلی اس موقعہ پر پارٹی سے
بغاوت کرگے اور انہوں نے استعفی نہیں دیے۔تحریک انصاف کےسابق صدر جاوید
ہاشمی نےپارٹی پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپنے استعفی کا
اعلان کیا اور وہ نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ تحریک انصاف سے بھی فارغ
ہوگے۔حکومت نے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ کافی
مرتبہ مذاکرات کیے جو ابھی تک بے نتیجہ ثابت ہوئے۔ عمران خان کے بارئے میں
ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ وہ شخصیت پرکھنے میں اناڑی ہیں ایک مرتبہ پھر
صیح ثابت ہوئی جب جاوید ہاشمی نے اُنکو دغا دی۔
پارلیمینٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے مفادات بچانے کےلیے
نواز شریف کی حکومت کا دھرنا دینے والوں کے مطالبات کے خلاف بھرپور ساتھ
دیا جس کی وجہ سے بظاہر حکومت سنبھل گئی لیکن حکومت کی صورتحال یہ ہے کہ اب
سرکاری تقریبات میں بھی "گو نواز گو" کے نعرئے لگ رہے ہیں۔ "گو نواز گو" کے
نعرئے لگنے کے باوجود شریف برادران استعفیٰ دینے سے انکاری ہیں۔ جبکہ دھرنے
والے دھرنا ختم کرنے پر آمادہ نہیں۔ دھرنوں کا دباوُ آہستہ آہستہ کم ہونے
لگا تھا کہ تحریک انصاف نے اچانک کراچی میں جلسے کا اعلان کردیا، اتفاق سے
اُس سے ایک یا دو دن پہلے ہی ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین کا ملک میں
انتظامی یونٹ بڑھانے پر بیان آیا تھا، جس پر پیپلز پارٹی کا مخالفانہ ردعمل
تو قدرتی تھا، لیکن پاکستان تحریک انصاف کے دو مقامی لیڈر جو قومی اور
صوبائی اسمبلی کے ممبر ہیں انہوں نے الطاف حسین کے بیان کے خلاف بہت ہی سخت
بیان دیا، جس کے جواب میں ایم کیوایم نے تحریک انصاف کےجلسے سے صرف ایک دن
پہلے کلفٹن تین تلوار پر اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا۔اگرچہ تحریک انصاف
کاکراچی میں ہونے والا جلسہ لوگوں کی حاضری کے حساب سے ایک بڑا جلسہ تھا
لیکن کراچی کے جلسے میں آنے سے قبل عمران خان کو سمجھا دیا گیا تھاکہ کراچی
میں محتاط لب و لہجہ اختیار کرنا ہوگا۔ انہیں لب کشائی میں بد احتیاطی سے
گریز کا مشورہ دیا گیا تھا۔ انہیں واضح کردیا گیا ہے کہ جس پیرائے میں وہ
نواز شریف کا ذکر کرتے ہیں اس میں انہیں الطاف حسین کا نام لینے کی اجازت
نہیں دی جائے گی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جس کراچی کو وہ آزاد کرانے کا اعلان
کرچکے تھے حسب دستور یو ٹرن لیکر اپنے آپ کوبدنام زمانہ سندھ کے سابق وزیر
داخلہ ذوالفقار مرزا کے برباد کیے ہوئے علاقے لیاری تک محدود کرلیا، اور
کراچی والوں کو آزادی دلانے کے بجائے وہ پیپلزپارٹی اور سندھ کے حالات کو
کوستے رہے۔
عمران خان کی تقریر کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول
بھٹو زرداری نے اپنی ٹویٹ میں عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم
اسٹیبلشمنٹ کے ٹیسٹ ٹیوب سیاست دان برداشت نہیں کر سکتے، یہ تبصرہ یا تنقید
ایک کھلی ہوئی بدتمیزی ہے، جبکہ سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے عمران
خان سے سوال کیا کہ انہوں نے ٹارگٹ کلنگ پر صرف لیاری کی بات کی باقی کراچی
کی کیوں نہیں کی؟ کراچی کے بعد عمران خان نے لاہور میں بھی ایک بڑا جلسہ
کرڈالا، لیکن حالات میں دور دور کوئی تبدیلی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔
نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ ن اور باقی پارلیمینٹ میں موجود سیاسی
جماعتیں عمران خان اور علامہ طاہر القادری کی مانگوں کو یکسر رد نہیں
کرسکتے، اور نہ ہی عمران خان اور علامہ طاہر القادری کو یہ امید رکھنی
چاہیے کہ اُن کی تمام مانگیں منظور ہوجاینگی۔ اگرچہ ان دھرنوں اور احتجاج
سے عوام کو کوئی فاہدہ نہیں ہے کیونکہ عام طور پر یہ خیال ہے کہ دونوں طرف
سے یہ اقتدار کی جنگ ہے اور اس جنگ میں عوام کے مسائل بڑھتے جارہے ہیں،
لہذا غیریقینی سیاسی صورتحال کو جلدازجلد ختم ہونا چاہیے اور اسکی ذمیداری
تمام فریقین پر آتی ہے۔ ویسےعوام دھرنا دینے والوں سے ایک سوال ضرور کرتے
ہیں کہ طویل سیاسی دھرنے کاعالمی ریکارڈ تو بن گیا لیکن عوام کو کیا ملا۔ |