آنے والے ماہ و سال میں جو کچھ ’’ ہونے‘‘ کی توقع ہے اس
سے بے رحم احتساب کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔۔ایک منصفانہ نظام معرض ِ وجود
میں لایا جا سکتاہے۔۔ جمہوریت مستحکم کی جا سکتی ہے۔۔۔ہر ادارے کی حدودو
قیود کا تعین کرنے میں معا و نت کی جا سکتی ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ہم
اداروں کو مضبوط بنا سکتے ہیں جس سے قانون کی حکمرانی کا خواب پورا کیا
جاسکتاہے۔ بیسیوں سانحے روز ہمارے سامنے رونما ہوتے ہیں ان نے ہر پاکستانی
کا سکھ چین چھین لیا ہے کبھی اسلام کو خطرہ ہے تو کبھی جمہوریت کو خطرہ ے
نام پر عوام کا جتنا استحصال حکمران کر سکتے ہیں کیا جارہاہے اشرافیہ
۔۔۔بدمعاشیہ کا روپ دھاڑ چکی ہے سیاستدان سب کچھ کرتے ہیں اگر کچھ نہیں
کرتے تو عوام کیلئے کچھ نہیں کرتے اگر اسلام آباد میں دھرنے ڈیڑھ ماہ سے
جاری ہیں تو حکومت کوسمجھ لینا چاہیے عوام میں بے چینی عروج پر ہے ۔ ہر شخص
جانتاہے اداروں کا ٹکراؤ ،کرپشن، مہنگائی ،بیروز گاری ، لوڈ شیڈنگ ،مذہبی
منافرت ، لسانی جھگڑے ، بھتہ خوری اور اقتصادی عدم توازن نے ملکی معیشت کو
تباہ کرکے ر کھ دیا ہے اور ظلم در طلم یہ ہے کہ حکومتی سطح پر قابل ِ ذکر
اقدامات نہ ہونے کے برابر ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے اس ملک میں حکمران پکنک
منانے آتے ہیں او ر عوام کی بے بسی نے اقتدار کی قوتوں کو بے حس بنادیا ہے
شاید اسی لئے ’’ہارن آہستہ بجاؤ قوم سورہی ہے‘‘کا سلوگن ایک جیتی جاگتی
حقیقت بن کر ہمارا منہ چڑارہا ہے۔۔اور اسی بنا ء پر کوئی سیاسی پارٹی حقیقی
اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کرتی جب مراعات کی بات ہوتی ہے محمود ایاز کا
فرق مٹ جا تاہے ہر حکمران نے اقتدار کو بندر بانٹ کا ذریعہ سمجھ رکھاہے صدر
زرداری تو ایک NROکے ذریعے سیاست میں فعال ہوئے تھے پھر ان کی پارٹی اکثریت
میں نہیں تھی اسی لئے انہوں نے مقاہمتی پالیسی کے تحت اپنے اقتدار کی مدت
پوری کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ اب لوگ ایک دوسرے کو میسج بھیجتے رہتے
ہیں کہ چودہ سال کا بھوکا شیر گوشت کے ساتھ ساتھ آٹا،ٹماٹر،
ادرک،پیاز۔۔الغرض کہ ہر چیز ہڑپ کرتا چلا جارہاہے اور کوئی پوچھنے والا
نہیں۔۔اور اس حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر لا چھوڑاہے جسے منتوں
مرادوں سے اقتدار میں لائے تھے ۔ میاں نواز شریف کو کس بات کا ڈر ہے وہ بھی
ہیوی مینڈیٹ ملنے کے باوجود کئی چھوٹی پارٹیوں سے بلیک میل ہوکر ان میں بھی
وزارتیں بانٹ رہے ہیں اور مہنگائی کی ستائی، بھوک سے بلبلاتی غریب عوام کی
کمائی پر وزیروں مشیروں کی فوج ظفر موج ہماری اقتصادی صورت ِ حال پر مونگ
دل رہی ہیہم سب کو چاہیے کہ اجتماعی طاقت کو اپنا شعار بناکر اپنے حقوق
کیلئے متحد ہو جائیں پاکستان کی سلامتی،مسائل کے حل ، کرپشن ، ظلم اور
اختیارات کے تجاوزکے خلاف آواز بلند کریں پر امن جدو جہد سے انقلاب لایا جا
سکتا ہے اپنی اپنی سظح پر ہمیں غیر سیاسی ، غیر لسانی اور مذہبی منافرت سے
بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اتحاد و اتفاق کا
مظاہرہ کریں پاکستان کی بہتری کیلئے بھرپور جدوجہد کریں اگر آپ اس امتحان
سے گذر گئے تو پھر ایک روشن مستقبل آپ کا منتظر ہوگا دنیا کے بہت سے ممالک
میں عوامی مسائل کے حل کے لئے پریشر گروپ موجود ہیں اپوزیشن نے بھی شیڈو
کابینہ بنا رکھی ہے جوحکومت کو ٹف ٹائم دیتی ہے جبکہ حکومتی سطح پر بھی
قومی امور، خارجی معاملات اور پبلک مسائل کے حل کیلئے تھنگ ٹینک مسلسل کام
کرتے رہتے ہیں حکومتوں کے آنے جانے سے ان کی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی
پاکستان میں ان تمام امور کا رواج ہے نہ کوئی حکومت اتنی سر درد لینا گوارا
کرتی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں بھی صرف اپنے لئے آسودگیوں کی تلاش میں رہتی
ہیں یہاں کسی بھی شعبے میں نام کی بھی منصوبہ بندی نہیں ایک محکمہ سڑک
تعمیر کرتاہے تو اس کے چند دن بعد ہی دوسرا محکمہ یوٹیلٹی سروسز کیلئے اسے
ادھیڑ کررکھ دیتاہے ہر سال کھربوں روپے کے ضیاع پر بھی کسی کے سر پر جوں تک
نہیں رینگتی شاید مال ِ مفت ۔۔۔ دل ِبے رحم اسی کو کہتے ہیں ۔۔۔ سرکاری
محکموں کی ایک دوسرے سے کوارڈی نیشن بہتر بنانے سے بھی معاملات بہتر ہو
سکتے ہیں ترقیاتی کاموں کیلئے ان تمام اداروں ،محکموں اور کارپوریشنوں میں
باہمی تبادلہ ٔ خیال ناگزیر ہے حکومتی وسائل کے ضیاع کو روکنے کیلئے اس کی
بہت زیادہ اہمیت ، ضرورت اور وقت کا تقاضا ہے اس کے ساتھ ساتھ معاشی چکی
میں پسے عوام موجودہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے متحمل نہیں ہیں حکمران عوام کی
مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ایسی پالیسیاں تیار کریں جس سے عوام کو ریلیف مل
سکے۔۔ بہرحال آنے والے ماہ وسال میں جو کچھ’’ ہونے‘‘ کی توقع ہے اس سے
احتساب کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔۔ایک منصفانہ نظام معرض ِ وجود میں لایا
جا سکتاہے۔۔ جمہوریت مستحکم کی جا سکتی ہے۔۔۔ہر ادارے کی حدودو قیود کا
تعین کرنے میں معا و نت کی جا سکتی ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ہم اداروں کو
مضبوط بنا سکتے ہیں جس سے قانون کی حکمرانی کا خواب پورا کیا جاسکتاہے ہم
سب غور کریں۔تو۔ محسوس ہوگا ہمارے ملک کے سارے قومی ر ہنما ایک جیسے ہیں یہ
ہر بحران ۔۔ہر مصیبت ۔۔ ہر مشکل میں سارے کے سارے بیان بازی کرکے جان چھڑا
رہے ہیں شاید ان کو نمبر بنانے ، سستی شہرت حاصل کرنے اورایک دوسرے پر غصہ
نکالنے کا موقعہ مل جاتا ہے ۔۔ کوئی ان مسائل کا حل نہیں سوچتا؟ آج غریب پس
رہے ہیں کوئی غربت سے تنگ آکر اپنے گردے بیچ رہا ہے تو کوئی اپنے لخت ِ جگر
فروخت کرنے پر مجبور ہے ۔ غربت نے عوام سے خوشیاں چھین لی ہیں لگتا ہے کسی
کو پاکستان کا مستقبل عزیز نہیں۔ چند فی صد نے تمام تر وسائل پر قابض ہوکر
غربت کو ہماری بد نصیبی بنا دیا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ عام آدمی اجتماعی
قوت سے اس’’ قبضہ گروپ ‘‘کے خلاف اپنے آپ کو متحد اور منظم کرے تاکہ
جمہوریت کے ثمرات سب تک پہنچیں اس کے بغیر کسی قسم کی ترقی ممکن نہیں سیاسی
جماعتوں کو مسلک کا درجہ دینے کی روش بھی تبدیل کرنا ہوگی عوام اس پارٹی کا
ساتھ دیں جس کا منشور انقلابی، پروگرام بہتر اور ملک و قوم کا ہمدرد ہو۔
پاکستان کی ترقی ،عوام کی خوشحالی اور انصاف کا بول بالا کرنے کیلئے متبادل
قیادت انتہائی ضروری ہے جب تک عوام کے سامنے سیکنڈ آپشن نہیں ہو گا سیاسی
جماعتیں بہتری کی طرف نہیں جا سکتیں آج پاکستانی قوم کوخود غرضی، لالچ اور
ذاتی مفادات کے خول سے باہر آکرخود ا حتسابی کرنے کی ضرورت ہے مذہبی،
لسانی، گروہی، سیاسی اور دیگر نوعیت کے اختلافات سے در گذر کیا جائے ۔ آج
لوگ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لوڈشیڈنگ اوردہشت گردی سے پریشان ہیں،صنعتیں
بندہورہی ہیں ان حالات میں ۔حکومت کو بھی چاہیے کہفوری اقدامات کرے۔آنے
والے ماہ وسال میں جو کچھ’’ ہونے‘‘ کی توقع ہے اس سے احتساب کی بنیاد رکھی
جا سکتی ہے۔۔ایک منصفانہ نظام معرض ِ وجود میں لایا جا سکتاہے۔۔ جمہوریت
مستحکم کی جا سکتی ہے۔۔۔ہر ادارے کی حدودو قیود کا تعین کرنے میں معا و نت
کی جا سکتی ہے۔۔ اور سب سے بڑھ کر ہم اداروں کو مضبوط بنا سکتے ہیں جس سے
قانون کی حکمرانی کا خواب پورا کیا جاسکتاہے ورنہ ہارن آہستہ بجاؤ قوم
سورہی ہے‘‘کا سلوگن ایک جیتی جاگتی حقیقت بن کر ہمارا منہ چڑارہا ہے
حالانکہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری اس قوم کو جگانے کیلئے بڑے جتن
کررہے ہیں مسلسل پاپڑ بیل رہے ہیں بات سمجھ میں نہیں آتی یہ قوم اپنے حقوق
کیلئے متحد نہیں ہوتی شاید اسی لئے 100پیاز اور100جوتے پڑرہے ہیں پھر بھی
ہوش کا یارا نہیں۔ |