پاکستان اور بھارت کے وزرائے
اعظم دورہ امریکہ کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلا س سے خطاب
کر چکے ہیں۔وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے خطاب میں مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے
کھل کر باتیں کیں اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو ان کا
حق خودارادیت دینے کا مطالبہ کیا جبکہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے
اپنے خطاب میں پاکستان کو مذاکرات کی پیش کش کرتے ہوئے کہاہے کہ اگر
پاکستان دہشت گردی سے پاک ماحول پیدا کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ مذاکرات کی
ٹیبل پر بیٹھنے کیلئے تیار ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہاکہ اقوام
متحدہ میں باہمی تنازعات اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گااور نہ ہی اس سے
مسائل حل ہوں گے۔بھارتی میڈیامیں نریندر مودی کے دورہ کو بہت زیادہ اہمیت
دی جاری ہے کیونکہ وہ صرف جنرل اسمبلی میں اجلاس سے خطاب کیلئے نہیں گئے
بلکہ اس دورہ کے دوران بھارت اور امریکہ کے مابین اربوں ڈالر کے دفاعی
معاہدوں پر بھی بات چیت ہو گی جن میں چنیوک ہیلی کاپٹر، اسٹنگر اور ہلفائر
میزائل، اپاچی و شی ہاک ہیلی کاپٹرز، ٹینک شکن جیولن میزائل اور ڈرون و
جنگی طیاروں کے معاہدے شامل ہیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کے جنرل اسمبلی میں خطاب پر بھارت میں بی جے پی
اورکانگریس سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے واویلا کیا گیا اور متعصب
بھارتی میڈیا نے بھی زہر اگلتے ہوئے کہا کہ یہ تقریر پاکستانی خفیہ ایجنسی
آئی ایس آئی کی طرف سے لکھی گئی تھی۔ ابھی تک بھارتی جماعتوں اور میڈیا نے
اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی جانب کر رکھا ہے۔ حالانکہ وزیر اعظم نواز شریف
نے اپنے خطاب میں کوئی نئی بات نہیں کی جہاں تک کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی
قراردادوں کے مطابق ان کو حق خودارادیت ملنے کی بات ہے تو بھارت کو یہ بات
یاد ہو نی چاہیے کہ وہ خود اس مسئلہ کو اقوام متحدہ میں لیکر گیااورکشمیر
میں استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی درجنوں قراردادیں اس
حوالہ سے موجود ہیں جن پر آج تک بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمل
نہیں کیا۔ اس لئے بجائے اس کے کہ وہ اپنے رویہ اور کردار پر شرمندہ ہو اسی
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر کہا جارہا ہے کہ مسئلہ کشمیرکو
اس فورم پر اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس حوالہ سے پاکستان کو چاہیے
کہ وہ سفارتی سطح پر بھرپور انداز میں لابنگ کرے اور انڈیا کے ہٹ دھرمی
والے رویہ اور تاریخی حقائق کو دنیا کے سامنے پیش کرے تاکہ عالمی سطح پر
انڈیاپر دباؤ بڑھایا جاسکے۔بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کو مشروط مذاکرات
کی پیش کش کی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی تو پورے خطہ میں
اس نے خودبھڑکا رکھی ہے اور الزامات پاکستان پر لگائے جارہے ہیں۔یہ باتیں
اب کسی سے مخفی نہیں ہیں کہ آٹھ لاکھ فوج کے ذریعہ کس نے مقبوضہ کشمیر پر
غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے؟ افغانستان میں دہشت گردوں کو تربیت دیکر کون
پاکستان داخل کر رہا ہے؟سندھ، بلوچستان میں کون ہے جو علیحدگی کی تحریکیں
پروان چڑھارہا ہے ؟ اور پھر کس طرح سے بھارت کی طرف سے پاکستانی دریاؤں پر
متنازعہ ڈیم بناکر ہر سال وطن عزیز پاکستان کو سیلاب کی صورتحال سے دوچار
کیاجارہاہے؟۔اسی طرح نریندر مودی اور ان کی جماعت جب سے برسراقتدار آئے ہیں
بھارت میں فسادات کا سلسلہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ آئے دن مساجدومدارس پر
حملے ہو رہے ہیں اور مسلم کش فسادات کے ذریعہ مسلمانوں کی املاک کو نشانہ
بنایا جارہا ہے۔ ان دنوں بھی جب مودی امریکہ کے دورہ پر ہیں‘ ان کی اپنی
ریاست گجرات بدترین فسادات کی آگ میں جل رہی ہے۔ ہندو انتہا پسند تنظیمیں
فیس بک، واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذرائع کو استعمال میں لاتے ہوئے
مقدس مقامات کی توہین کر رہے ہیں جس پر مقامی مسلمانوں میں سخت اشتعال پایا
جاتا ہے اور وہ شدید خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ اوپر سے ستم یہ ہے
کہ پولیس بھی ہندو انتہا پسندوں کی پشتیبان بنی ہوئی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا
کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ روکتی مگر وہ الٹا مسلم نوجوانوں کو
گرفتار کر کے پولیس تھانوں میں بند کرنے میں مصروف ہے جس پر ہندو انتہا
پسندوں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور فسادات کی بھڑکنے والی اس آگ کے اور
زیادہ شدت اختیار کرنے کا اندیشہ ہے۔ بہرحال ہم سمجھتے ہیں کہ انڈیا
پاکستان سے مذاکرات کی بات کر کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش
کر رہا ہے۔حکومت پاکستان کو انڈیا کے الزامات پر کسی قسم کے دباؤ کا شکار
نہیں ہونا چاہیے۔ساری دنیا اس تاریخی حقیقت سے واقف ہے کہ1948ء میں جب
مجاہدین سری نگر تک پہنچ چکے تھے تو نہرو خود اس مسئلہ کو سلامتی کونسل میں
لیکر گئے اور کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا تھا؟ وہ خود بار بار
اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے اس لئے اس مسئلہ
پر محض مذاکرات کی بات کرنے پر ہی کسی کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ بھارت
کے مذاکرات کا سلسلہ ختم ہونے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے پر سرتاج
عزیزکا یہ کہنا کہ کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کی ٹائمنگ درست نہیں تھی‘ اچھی
بات نہیں ہے۔پاکستان میں برسراقتدار آنے والی تمام حکومتوں کے ذمہ داران
کشمیری رہنماؤں سے ملاقاتیں اور مشاورت کرتے رہے ہیں۔ کشمیری اس مسئلہ کے
اصل فریق ہیں انہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ بھارت
پاکستان سے کسی طور مذاکرات کیلئے مخلص نہیں ہے۔ ماضی میں بھی اس نے
مذاکرات کے ہتھیار کو استعمال کرتے ہوئے ہمیشہ مقبوضہ کشمیر پر اپنا فوجی
قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے اور اس وقت بھی نواز شریف کے جنرل اسمبلی
میں مسئلہ کشمیر اٹھانے پر دنیا کو دکھانے کیلئے مذاکرات کی بات کی گئی ہے۔
اگر وہ واقعی مخلص ہوتا تو صرف کشمیری رہنماؤں سے ملاقات کرنے پر سیکرٹری
خارجہ مذاکرات ملتوی نہ کئے جاتے۔ بھارت اگر مذاکرات پر تیار بھی ہوتا ہے
تو وہ شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کے فریم ورک کے تحت مذاکرات کی بات کرے
گا جس کا وہ کئی مرتبہ پہلے بھی اظہار کر چکا ہے۔ نواز حکومت کی جانب سے
بھی اعلان لاہور کے تحت مذاکرات کی باتیں کی جاتی ہیں۔موجودہ حکومت کی جانب
سے ماضی میں کئی بار کہاجاتا رہا ہے کہ ہم پاک بھارت تعلقات کو1999ء کی سطح
پر لے جائیں گے ۔ ہو سکتا ہے کہ مودی کی پیشکش پر ایک بار پھر وہی باتیں
دوبارہ سے شروع کر دی جائیں مگر یہ طریقہ درست نہیں ہو گا۔ مظلوم کشمیری
مسلمان آپ سے بہت زیادہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں آٹھ
لاکھ بھارتی فوج کے مظالم کا شکار ہیں تو بھارتی یونیورسٹیوں میں ان کے
بیٹوں کو پاکستان کے خلاف نعرے نہ لگانے پر بے دخل کر دیا جاتا ہے۔وہ تو
اپنی جان، مال، عزت و آبرو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک پاکستان
کیلئے ہر لمحہ نچھاور کرنے کیلئے تیار نظرآتے ہیں۔ پاکستان کی محبت ان کے
خون میں دوڑتی ہے۔ کشمیری مسلمان اگر آٹھ لاکھ بھارتی فوج کی موجودگی میں
یہ نعرہ بلند کرتے ہیں کہ اسلام کے رشتہ سے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا
ہے‘ تو کیاہمیں ان کے اس نعرہ اور جذبات کی لاج رکھنی چاہیے۔دوسری بات یہ
ہے کہ آپ یقینا معاملات کو سلجھانا چاہتے ہوں گے مگر بھارت سرکار کا ماضی
اور مودی کے دہشت گردانہ کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیاں ترتیب
دینی چاہئیں۔ |