عید قرباں: کھالوں کی چھینا چھپٹی.... ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد ہو سکے گا؟

پاکستان میں عید قرباں کی آمد آمد ہے۔ ہر جانب عید کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ خریدوفروخت کی وجہ سے بازاروں کی رونق دوبالا ہورہی ہے۔ جگہ جگہ جانوروں کے چارے کی عارضی دکانیں سج گئی ہیں۔ گلی محلے میں شام ڈھلے گائیں اور بکروں کو ٹہلانے کے لیے نوجوان اور بچوں کے جمگھٹے لگنے لگے ہیں۔ بڑے چھوٹے اپارٹمنٹس کے احاطوں میں، مکانات کے آگے، میدانوں اور خالی پلاٹس پر، وقتی چھپروں میں، گائیں، بکرے اور کہیں کہیں اونٹ اور دنبے بھی جگالی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ عید قرباں پر قربانی کا جانور انتہائی زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اس سے قربانی کا جذبہ اور خوشی ملتی ہے۔ عید قرباں مسلمانوں کے لیے خوشیوں کا دوسرا نام ہے، لیکن ملک بھر میں اور خصوصاً کراچی کے باسیوں کے لیے یہ عید ہر برس خوشیوں کے ساتھ ساتھ یہ پریشانی بھی لاتی ہے کہ قربانی کے جانور کی کھال کو حق دار تک کس طرح پہنچایا جائے؟ پاکستان میں عید الاضحیٰ پر قربان کیے جانے والے جانوروں کی کھالیں جمع کرنا سیاسی اور دینی جماعتوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دینی جماعتوں اور زیر انتظام چلنے والے مدارس اور سیاسی جماعتوں کے قائم کردہ رفاہی ادارے اپنی سالانہ آمدنی کا بڑا حصہ انہی کھالوں کو فروخت کرکے حاصل کرتے ہیں۔ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اور فلاحی اداروں کو بھی ان کھالوں سے آمدنی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر عید الاضحیٰ پر ان تمام اداروں کے درمیان زیادہ سے زیادہ کھالوں کے حصول کے لیے ”رسہ کشی“ ہوتی ہے۔ ہر جماعت اور تنظیم کے پیش نظر یہ نکتہ رہتا ہے کہ جتنی زیادہ کھالیں اتنی زیادہ آمدنی۔ کراچی میں حق دار تک کھالیں پہنچانا انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔ کراچی میں عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی کی کھالیں جمع کرنے کا مقابلہ رہتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رفاعی شعبے، مذہبی جماعتیں اور مدارس کھالیں جمع کرنے کی اس دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔ کھالوں کی یہ سیاست ہر سال پرتشدد بن جاتی ہے، جس میں چھیناجھپٹی اور فائرنگ کے واقعات تک رونما ہوتے ہیں۔ کراچی میں ماضی میں عید قربان پر جانوروں کی کھالیں جمع کرنے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں تصادم ہوتے رہے ہیں۔ عید کی آمد سے قبل ہی مختلف جماعتوں کی جانب سے شہر کے چوراہوں اور دیواروں پر بینرز اور پوسٹر لگ جاتے ہیں، جن میں ان کھالوں کا حقدار انہیں قرار دیا جاتا ہے۔ اس محاذ آرائی میں بسا اوقات شہریوں کے لیے خود اپنی کھال بچانا مشکل ہوجا تا ہے۔ ماضی میں کراچی میں ہر برس ہی ”گن پوائنٹ“ پر کھالوں کی زبردستی وصولی اور امدادی تنظیموں کی کھالیں لے جانے والی گاڑیوں کے چھینے جانے کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ جبکہ بعض مذہبی جماعتیں گزشتہ کئی سالوں سے عید الاضحی کے موقع پر ”مہم چرم قربانی“ کے سلسلے میں امن وامان کے قیام اور قربانی کی کھالوں کی چھینٹا جھپٹی کی وارداتوں کی روک تھام کے لیے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر زور دیتے آرہے ہیں۔ ہر برس حکومت کی جانب سے عیدالاضحی کی آمد سے قبل شہر میں دفعہ 144 نافذ کی جاتی ہے جس کے تحت کھالیں جمع کرنے پر پابندی ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ہر سال رفاہی تنظیموں اور امدادی اداروں کی جانب سے کھالیں چھینے جانے یا مخصوص علاقوں میں داخلے کی اجازت نہ ملنے کی شکایات سننے میں آتی ہیں۔

گزشتہ دنوں محکمہ داخلہ سندھ اور کمشنر کراچی کی جانب سے ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیا گیا ہے، جس کے حوالے سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اب قربانی کی کھالوں کا جبری حصول مشکل ہوگا۔ کھالوں کا حصول اکثر اوقات جماعتوں اور تنظیموں یا ادارے کے درمیان کشیدگی کا باعث بن جاتا ہے۔ ایک دوسرے سے کھالیں چھیننا، قبل از قربانی ہی کھالوں کے لیے پرچیوں یا رسیدوں کے ذریعے بکنگ پر تکرار، دو لوگوں کے درمیان ”پہلے میں آیا، اس لیے کھال میں لوں گا“ اور ”کھال پر پہلا حق میرا ہے“ جیسے گرما گرم بحث مباحثے میں پہلے بات ”تو تو میں میں“ تک پہنچتی ہے۔ پھر ہاتھا پائی پر اور اس کے بعد ہتھیار تک نکل آتے ہیں۔ کھالوں پرتشدد اور قتل جیسے سنگین واقعات بھی ہوتے رہے ہیں۔ ان سب مسائل سے نمٹنے کے لیے رواں سال محکمہ داخلہ سندھ اور کراچی انتظامیہ نے سخت ترین ضابطہ اخلاق ترتیب دیا ہے۔ یہ ضابطہ سیکرٹری داخلہ محکمہ سندھ نیاز عباسی کی زیرنگرانی ہونے والے اجلاس میں ترتیب دیا گیا۔ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی بھی اس حوالے سے اہم ترین اجلاس منعقد کرچکے ہیں۔ کمشنرشعیب احمد صدیقی کے مطابق اس ضابطہ اخلاق کی تفصیلات یہ ہیں: کوئی بھی ادارہ، جماعت یا تنظیم گھر گھر جاکر کھالیں جمع کرنے کی مجاز نہیں۔ زبردستی کھالیں جمع کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ کھالیں جمع کرنے کے لیے کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کی اجازت لینا لازمی ہوگا۔ کھالیں جمع کرنے کے لیے شاہراہوں پر کیمپ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس مقصد کے لیے لاﺅڈ اسپیکر بھی استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ کھالوں کی منتقلی کے لیے پولیس کو آگاہ کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ عید کے تینوں دن دفعہ 144نافذ ہوگی۔ عید پر ہر قسم کا اسلحہ لے کر چلنے پر بھی پابندی ہوگی۔ یہ ضابطہ ¿ اخلاق گزشتہ سالوں کے دوران پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے۔ کراچی میں مختلف جماعتوں کی جانب سے کھالوں کے حصول کے لیے عوام پر دباﺅ ڈالنے یا جبری کھال لینے کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی کا کہنا ہے کہ کھالوں کے حصول کے لیے کسی بھی قسم کا دباﺅ، زور یا زبردستی قانوناً جرم ہوں گے۔ ان کے مطابق شہر کے متعدد ایریاز ایسے ہیں جہاں گزشتہ سالوں کے دوران جبری طور پر کھالیں لینے، کھالیں چھیننے یا اسلحہ کے استعمال کی شکایات موصول ہوتی رہی ہیں۔ ان ایریاز کو ”ہائی رسک“ زون میں رکھا گیا ہے اور عید کے تینوں دن یہاں قانون نافذ کرنے والوں کی بھاری نفری تعینات ہوگی، تاکہ کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹا جاسکے اور ماضی جیسے واقعات روکے جاسکیں۔ کمشنر کے مطابق ”شہر کے مضافاتی علاقے، سرجانی ٹاﺅن، خدا کی بستی، لیاری اور لیمارکیٹ ”ہائی رسک ایریاز“ ہیں۔ کمشنر کراچی کے مطابق ”ضابطہ ¿ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں تعزیرات پاکستان کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی، جس کے تحت ایسا کرنے والے کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ لاﺅڈ اسپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی پر دوسال قید کی سزا ہوسکتی ہے، جبکہ جو قوانین تعزیرات پاکستان کے تحت نہیں آتے، مثلاً کھالوں کے لیے پرچیاں دینا، وہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 506کے تحت قابل سزا ہوں گے۔ اسی طرح ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر کی زیر صدارت عید الاضحیٰ پر سیکورٹی کے معاملات سمیت کھالوں کے ضابطہ اخلاق پر بھی غور کیا گیا۔ ڈی جی رینجرز نے عید کے موقع پر کراچی میں فول پروف سیکورٹی یقینی بنانے کی ہدایت کی، جبکہ عید کے تینوں دن اسنیپ چیکنگ سخت کرنے اور پٹرول کو بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ڈی جی رینجرز کا کہنا تھا کہ کسی کو گھر گھر جاکر قربانی کی کھالیں جمع کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، جبکہ عید کے دوران اسلحہ لے کر چلنے پر بھی پابندی ہوگی اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

مبصرین کے مطابق حکومت کی جانب سے ماضی میں بھی اسی نوعیت کے ضابطہ اخلاق کا اعلان کیا جاتا رہا ہے، لیکن اس کے باوجود عیدِ قرباں کے موقع پر شہر کی مختلف جماعتوں کے نام پر ان کے زیرِ اثر علاقوں میں گھر گھر جا کر کھالیں اکٹھی کی جاتی رہی ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ عید سے کئی روز قبل ہی بعض سیاسی جماعتوں کے کارکن گھر گھر آکر قربانی کی کھال ان ہی کے حوالے کرنے کا کہہ کر چلے جاتے ہیں اور انہیں خوف ہوتا ہے کہ کھال نہ دینے کی صورت میں انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے۔ عیدِ قرباں کی آمد سے قبل شہر کے کئی علاقوں کی گلیوں کو رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کر دیا جاتا ہے اور عام تاثر یہ ہے کہ اس کا مقصد مخالفین کو اپنے زیرِاثر علاقے میں آکر کھال جمع کرنے اور علاقے کے کسی رہائشی کو باہر کھال لے جانے سے روکنا ہوتا ہے۔ مبصرین کے مطابق کراچی میں ضابط اخلاق کبھی بھی کارگر ثابت نہیں ہوا اور کبھی اس پر سختی سے عملدر آمد کرایا ہی نہیں گیا۔ ہر سال حکومت کی جانب سے نافذ ہونے والے ضابطہ اخلاق پر شاید مدارس ہی عمل کرتے ہیں، ان کے علاوہ شاذو نادر ہی کوئی عمل کرتا ہے۔ دوسری جانب داخلہ پنجاب نے صوبے میں 22 کالعدم اور 2 انڈر آبزرویشن تنظیموں پر کھالیں اور چندہ جمع کرنے پر پابندی عاید کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ پابندی گزشتہ برس سے لگائی گئی تھی، تاہم اس سال عیدالاضحیٰ کے موقع پر محکمہ داخلہ نے دوبارہ پنجاب پولیس کو مراسلہ جاری کیا ہے، جس میں پولیس کو ہدایت کی گئی ہے کہ کالعدم جماعتوں کو قربانی کی کھالیں اور چندہ جمع نہ کرنے دیا جائے اور اس حوالے سے قانون پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 701575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.