سپریم کورٹ نے گذشتہ 23 ستمبر کو
مفاد عامہ کی ایک عرضی پرفرضی انکاؤنٹر زکا انکاؤنٹر کرتے ہوئے کچھ رہنماء
اصول جاری کیا ہے۔جس کا اطلاق پولس انکاؤنٹر کے معاملات پر ہوگا۔سپریم کو
رٹ کی دور کنی بینچ نے یہ ہدایت اس اپیل پر جاری کی ہے جو 1997 میں ممبئی
ہائی کورٹ میں دائر تین پی آئی ایل کے فیصلے کے خلاف 1999 سے عدالت عالیہ
میں زیر غور تھی ۔
ہندوستان میں پولس انکاؤنٹر کا سلسلہ تقریبا آج سے بیس سال پہلے 1995میں
شروع ہوا تھا ۔1990 کی دہائی میں ہندوستانی کی اقتصادی راجدھانی ممبئی پر
بدمعاشوں اور غنڈہ مافیا کا قبضہ تھا ۔ان بدمعاشوں کے خلاف کاروائی کرنے سے
پولس خوف زدہ رہتی تھی ۔اگرکوئی کوئی پولس افسر اس طرح کی جرات کرتا بھی
تھا اس کی زندگی خطرے میں پڑ جاتی تھی ۔ کیوں کہ گرفتار کرنے کے بعد اس کے
خلاف قانونی کاروائی کا عمل بہت مشکل ہوتا تھا ۔ اس کے خلاف کوئی گواہی
دینے کو تیا نہیں ہوتا تھا جس کی وجہ سے یہ لوگ جیل سے بہت جلد باہر آجاتے
تھے اور پھر پہلے زیادہ خطرناک کاروائیوں میں مصروف ہوجاتھے ۔ نظام قًانون
کی اس کمزوری کا فائدہ بدمعاشوں کو پہچتا تھا اور پولس بے بسی کا شکار رہتی
تھی۔ان حالات میں پولس نے ایک نیا حربہ ’’ انکاؤنٹر‘‘ ایجاد کیا ۔1995 تا
1997 کے دوسال کی مدت میں زیر زمین بدمعاشوں او رمافیا گروپوں کے لئے
انکاؤنٹر ایک خوفناک اصطلاح بن گئی ۔ان دوسالوں میں پولس انکاؤنٹر کے 99
واقعات میں 135 جرائم پیشہ افراد سے ممبئی کو نجات ملی اور کئی انکاؤنٹر
ماہرین پید اہوگئے۔
پولس کے اس حربہ پر ہنگامہ اس وقت کھڑا ہوا جب 21 اگست 1997 کو کرائم برانچ
نے کے ایک پولس انسکپٹر ونود دھوبلے نے گلشن کمار قتل کیس مطلوب ایک ملزم
جاوید شیخ عرف فدا سمجھ کر ایک غریب مونگ پھلی فروش ابو صیامہ کا انکاؤنٹر
کردیا۔ِیعنی اس کو مار کرہلاک کردیا گیا اور حسب معمول یہ دعوی کیا گیا
بدمعاش جاوید شیخ پولس کے ساتھ ہوئے تصادم میں ڈھیر کردیا گیا ہے۔یہ بھی
کہا گیا کہ پہل مقتول نے کی تھی اور پولس اپنی حفاظت کے لئے گولی چلائی۔اس
معاملہ کو لیکر کافی ہنگامہ ہوا ،عوامی نے اپنے احتجاج میں کہا کہ یہ کیسی
مڈبھیر ہوتی ہے کہ پولس کو خراش تک نہیں آتی ہے اور وہی مجرم جس سے کل تک
پولس خائف رہتی تھی پلک جھپکتے ہی ما گرایا جاتاہے ۔انسانی حقوق کی تنظموں
نے عدالتوں کے سامنے سزائے موت کے اس طریقے پر سوال اٹھایا اور کہاکہ آخر
بدمعاشوں کو بھی تو اس دنیا میں رہنے کا حق ہے ۔یہ معاملہ ممبئی ہائی کورٹ
سے ہوتا ہوا1999 میں سپریم کورٹ پہچا جہاں چیف جسٹس آر ایس لوڑھا اور جسٹس
آر ایف ناریمان پر مشتمل بینچ نے انکاؤنٹر کے حوالے چند اصول مقررکئے ہیں۔
سپریم کورٹ نے اپنے اس تاریخی فیصلہ میں کہاہے انکاؤنٹر کے معاملات میں
آزادانہ انکوائری ریاستی پولس کی سی بی سی آئی ڈی سے کرانے اور مڈبھیڑ کی
سچائی ثابت ہونے تک متعلقہ سیکورٹی فورسیز اور پولس کو بہادری کا ایوارڈ
نہیں دیا جانا چاہئے ۔سپریم کورٹ نے کہاہے کہ س طرح کے معاملوں کی آزادانہ
جانچ کرائی جائے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے انسانی حقوق کمیشن کو بھی متنبہ
کیا کہ وہ ہر معاملہ میں اس وقت تک مداخلت نہ کرے جب تک فرضی مڈبھیڑ ہونے
کا ثبوت نہ ہو۔ عدالت نے کہا کہ انکاؤنٹر کے بعد سی آرپی سی کی دفعہ176کے
تحت مجسٹریٹ سطح کی تحقیقات فوراً شروع ہو۔ دوسرے انکاؤنٹر کے بعد پولس
اہلکار اپنے ہتھیار فوراً جمع کرادیں۔ عدالت نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ
انکاؤنٹر کے بعد سی آئی ڈی یا کوئی الگ پولس اسٹیشن اس کی آزادانہ تفتیش
کریں۔ دوسری اہم ہدایات یہ ہیں کہ اب پولس کو یہ بتانا ہوگا کہ انکاؤنٹر کس
بنیاد پر کیاگیا اور انکاؤنٹر مشکوک ہونے پر سیشن عدالت میں اس کی شکایت
درج کرائی جاسکے گی۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ انکاؤنٹر کے فوراً بعد پولس
اہلکاروں یا افسران کو ایوارڈ یا ترقی نہ دی جائے۔ پولس انکاؤنٹر کے
معاملوں میں زیادہ تر انکاؤنٹر ایوارڈ اور ترقی کے لئے ہی کئے جاتے ہیں۔
بعض اوقات تو یہ بھی ہوتا ہے کہ پولس کسی مجرم سے چھٹکارہ پانے کی غرض سے
اسے ٹھکانے لگادیتی ہے جبکہ کسی بھی طرح کے جرم کے لئے عدالتیں سزا دینے کے
لئے موجود ہیں۔ زندگی بہت اہم ہوتی ہے اور کسی کی بلا جواز زندگی لینا ایک
سنگین جرم ہے۔ لیکن پولس نے انکاؤنٹر کو ایک روایت بنالیا ہے۔ گجرات میں جو
کچھ ہوا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہے کہ کچھ لوگوں کو خوش کرنے کی غرض سے
ہی بے گناہ لوگوں کو اڑا دیاگیا۔ بٹلہ ہاؤس انکائٹر کو چھ سال کا عرصہ گذر
گیا لیکن اب تک مظلومین کو انصاف نہیں مل سکا ۔
سپریم کو رٹ کے اس فیصلہ سے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت ہوگیا ہے ۔ہندوستان کی
عدلیہ قابل اعتماد ہے ۔وہ انصاف کے اصولوں پر عمل پیراہے ۔وہ تاریکی میں
امید کی کرن ہے ۔لیکن ان سب کے باجود اہم سوال یہ ہے کہ کیا پولس عدالت
عظمی کی ان ہدایات پر عمل کرے گی ؟ کرائم برانچ سپریم کے فیصلے سے کوئی سبق
لے گی ؟اور کیا اب فرضی انکاؤنٹر نہیں ہوں گے؟ ان دونوں سوالوں کا سردست
کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا۔
|