مثل مشہور ہے ’’سو چوہے کھا کر
بلی حج کو چلی‘‘۔ وزیراعظم نریندر مودی اپنے سو دن مکمل کرنے کے بعد ہنی
مون منانے کی خاطر سو گھنٹے کیلئے امریکہ نکل گئے لیکن جس طرح سودیش کے
اندر سو دنوں کے اختتام پر ضمنی انتخاب کے نتائج نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا
تھااسی طرح امریکہ میں ہونے والے احتجاج نے ۲۰۰۲ کے فسادات کی بدنامی تازہ
کردی ۔ نحوست کایہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اس دورے سے جب ’’لوٹ کے
بدھو گھر پر آئیں گے‘‘ توممکن ہے شیوسینا کے اننت گیتے کا استعفیٰ ان کا
استقبال کرے گا ۔ جو رہنما اپنے ہندوتوا وادی حلیف کوساتھ نہ رکھ سکا وہ
کتنی دور اوبامہ کو ساتھ چلاسکے گا اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ۔ جس
وقت مودی جی عالمی امن کا مژدہ سنا رہے تھے ان کے اپنے حلقۂ انتخاب بڑودہ
میں خاک و خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی اوروہ نوراتری کے اپواس کا پاکھنڈ
فرمارہے تھے ۔ انسان ۹ دن صرف پانی پی کر زندہ تورہ سکتا ہے لیکن اس دوران
چار دن میں ۵۰ میٹنگ نہیں کرسکتا ہے اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کا پیٹ
پیٹھ کو لگ جانا چاہئے لیکن ایسا کچھ نظر تونہیں آیا۔
زر خرید ذرائع ابلاغ کی ہنگامہ آرائی سے قطع نظربات صرف اتنی سی تھی اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہر سال نیویارک میں منعقد ہوتا ہے جس میں
دنیا بھر کے رہنما خطاب کرتے ہیں ۔ اس بار بھی مختلف ممالک کے سربراہ وہاں
آئے اور نہایت پروقار انداز میں اپنے ملک کا موقف عالمی برادری کے سامنے
رکھ کر واپس ہو گئے لیکن ہمارے نو ٹنکی وزیر اعظم نے اس سفر کو ایک تماشہ
بنا دیا۔ اگر نریندر مودی اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت فرما کر چپ چاپ
لوٹ آتے تو انہیں احتجاج کا سامنا کرنےکی ہزیمت نہ اٹھانی پڑتی لیکن موقع
کا بیجا فائدہ اٹھانے کی پرانی عادت ان کے گلے کی ہڈی بن گئی ۔ ماڈیسن
اسکوائر پارک میں ۱۹۶۸ سے آج تک صرف رقص سرود کی محفلیں سجتی ہیں ۔ کوئی
پروقار رہنما وہاں ناچ گانے والوں کے درمیان اپنے کرتب نہیں دکھا نے کی
حماقت نہیں کرتا لیکن شہرت کی حرص نے وزیر اعظم سے وہ بھی کروادیا۔
امریکہ میں ۳۰ لاکھ کے آس پاس ہندوستانی قیام پذیر ہیں ان میں سے ۲۰ ہزار
کو جمع کرنے کیلئےمودی بھکتوں نے ۹ کروڈ روپئے پھونک دئیے اور پھرٹکٹ خرید
کر آنے والے بھی صرف امیر کبیر لوگ تھے ۔ اس طرح مودی جی نےجتا دیا کہ
انتخاب سے قبل غریبوں کے ساتھ یکجہتی جتانا اور کامیابی کے بعد ان سے منہ
موڑ لینا کسے کہتےہیں؟ لیکن وزیر اعظم کو یاد رکھنا چاہئے کہ جب یہ غریب ان
سے منہ موڑ کر دوسری جانب نکل جائیں گے تو ٹکٹ خریدکر شو میں آنے والے بھی
ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو انہوں نے اپنےعام رائے دہندگان کے ساتھ کیا
ہے ۔اس میوزیکل شو کی بابت منتظمین نے کہا کہ لاٹری کے ذریعہ اس کے ٹکٹ
فروخت کئے گئے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ سنگھ پریوار کے علاوہ کسی کا نام
قرعہ اندازی میں ڈالا ہی نہیں گیا ہوگا تاکہ مودی اس مجمع میں لوگوں سے مل
سکیں ۔ شرکائے محفل نے اپنےسنگھی سنسکار کا مظاہرہ راجدیپ سردیسائی کے ساتھ
بدسلوکی کرکے کیا۔ راجدیپ احمدآباد کا پلا بڑھا صحافی ہے ۔ وہ وہاں احتجاج
کرنے نہیں گیا تھا اور نہ لو جہاد کیلئے آیا تھا ۔ اس کے باوجود راجدیپ کی
ان کے بیٹے کے سامنے مارپیٹ ، گالی کلوچ نے ساری دنیا پر ظاہر کردیا کہ
نریندر مودی جس عظیم جمہوریت پر فخر جتا رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے؟
مودی کے بھکت ا یک طرف اپنے ہم وطن دیسائی کوا ٓنکھ دکھارہے تھے اور دوسری
جانب وائٹ ہاؤس کے سامنے گربا ناچ رہے تھے۔ راجدیپ اور ان کی اہلیہ
سگاریکا کو پاکستان جانے کیلئے کہہ رہے تھے امریکیوں سرمایہ داروں کو ہاتھ
جوڑ کر ہندوستان آنے کی دعوت دے رہے تھے اسے کہتے ہیں سنگھ پریوار کی دیش
بھکتی ۔ اس کے باوجود نمک خوارڈیڑھ سورپورٹروں کی فوج دن ہر ہرمودی کا جاپ
کررہی تھی یہانتک کہ نکھل واگلے کو کہنا پڑگیااب توان صحافیوں اور چیر
لیڈرس(دل بہلانے والی نمائشی لڑکیاں) کے درمیان فرق کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
کرکٹ کے دوران ان لڑکیوں کا کام ہر چوکے یا چھکے پر نیم عریاں بھڑکیلے لباس
پہن کر ناچنا ہوتا ہے لیکن مودی کے بولڈ یا کیچ آؤٹ ہو جانے پر بھی ان
رپورٹرس کا مٹکنا اورتھرکنا جاری و ساری رہتا تھا۔
آئی بی این۔ سی این این کے ایک صحافی کو اس دوران ایک عجیب شرارت سوجھی ۔
وہ وزیر اعظم کی تصویر دکھلا کرسڑک پر چلنے والے امریکیوں سے پو چھنے لگا
کہ کیا آپ انہیں جانتے ہیں ؟ ان میں سے بیشتر نے مودی کو پہچاننے سے انکار
کردیا ۔ ایک نے اندھیرے میں تیر چلایا یہ شخص ہندوستانی وزیر اعظم سے مشابہ
دکھائی دیتا ہے۔ اس صحافی نے سچن تندولکر کی تصویر جسے بھی دکھائی وہ پہچان
گیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے امریکی میڈیا نے مودی کو کس قدر اہمیت
دی ۔ ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی کی میڈیا ٹیم نے جو لگ بھگ دوہزار ہمہ
وقتی صحافیوں پر مشتمل ہے کوشش نہیں کی ۔ سی این این کےفرید زکریا کو بلا
کر انٹرویو کروایا گیا اور وال اسٹریٹ جنرل میں مودی کے نام سے نہ جانے کس
کا مضمون بھی چھپوایا گیا یہانتک کہ مودی جی ۹۱۱ کی یادگار زیرو لینڈ پر
پھول بھی چڑھا آئے لیکن افسوس کہ اس کے باوجود وہ امریکی عوام کی توجہ
اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
شہرت کے مارےمودی جی کو مشہور لوگوں کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا بڑا شوق ہے
اس کیلئے وہ کبھی سلمان خان کو اپنے پاس بلواتے ہیں تو کبھی رجنی کانت کے
پاس خود پہنچ جاتے ہیں ۔ امریکہ کے مختلف صنعتکاروں سے ملاقات کا مقصد یہی
تھا ورنہ جہاں تک انہیں سرمایہ کاری کیلئے راضی کرنے کا تعلق ہے وہ کام
وزیراعظم کا نہیں بلکہ سودیشی سرمایہ داروں یا سرکاری افسران کا ہےزیادہ سے
زیادہ وزیر صنعت و تجارت کو یہ ذمہ داری اداکرنی چاہئے لیکن مودی اپنے
علاوہ کسی کو کسی قابل سمجھیں تو نہ اسے کام کرنےدیں ۔ وہ تو سارا کریڈٹ
خود ہی لینا چاہتے ہیں لیکن اس دورے کے دوران انہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ
امریکی سرمایہ کاروں کو بے وقوف بنانا ہندوستانی رائے دہندگان کو رجھانے کی
طرح آسان کام نہیں ہے اس لئے کہ امریکی تجارتی انجمن نےاپنے صدر کو ایک خط
لکھااور کہا کہ مودی حکومت کی کتھنی اور کرنی میں تضاد ہے۔ اس نے ڈبلیو ٹی
او کی اصلاحات کی حال میں مخالفت کی ہے ۔ اپنی شکایات و توقعات کا خط اپنے
اوبامہ کو لکھ کراس کی نقل ذرائع ابلاغ کے حوالے کی گئی تاکہ مودی جی خود
آئینہ دیکھ لیں ۔
اس دورے میں وزیراعظم کی سب سے بڑی ناکامی امریکی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس
میں خطاب سے محرومی ہے ۔ اس سے قبل پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی تو
کجانرسمہاراؤ اور اٹل جی تک کو یہ اعزاز حاصل ہو چکا ہے۔کمزورترین کے لقب
سے یاد کئے جانے والے منموہن نے بھی ۲۰۰۵ میں خطاب کیا تھا لیکن لاکھ کوشش
کے باوجود مودی کے حامی یہ موقع اس بارنہ حاصل کرسکے۔ سچ تو یہ ہے کہ سرے
سے یہ سرکاری دورہ ہی نہیں تھا ۔ اوبامہ نے ایک رسمی دعوتنامہ بھیجا اور
وائٹ ہاؤس میں انہیں ذاتی دعوت پر مدعو کیا۔جب مودی اوبامہ کے گھر پہنچے
تو ان کے گھروالی مشعل اوبامہ غائب تھیں ۔مغربی معاشرے میں کسی مہمان کی اس
سے بڑی توہین کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ میزبان کی نصف بہتر دعوت میں موجود
نہ ہو ۔ ویسے اس سلوک کی ذمہ داری خودنریندر مودی پر ہے ۔ اگر وہ اپنی نصف
بہتر جشودھا بین کو ساتھ لے کر جاتے تو یقینا ً اس ہزیمت سے بچ جاتے ۔
انہوں نے تاجروں اور صنعتکاروں کے اجلاس میں کہا ہند امریکی تعلقات میاں
بیوی کے رشتے کی مانند ہیں جو ہمیشہ خوشگوار نہیں رہتے لیکن بیچاری جشودھا
بین کی ازدواجی زندگی تو دائمی خزاں رسیدہ ہے اور آئندہ بھی اس میں بہار
کے آثار نہیں ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے بین الاقوامی سطح پر انگریزی کے بجائے ہندی کی طرح
ڈالی۔ اقوام متحدہ کے اجلاس سے بھی انہوں نے ہندی زبان میں خطاب کیا لیکن
جب صدر اوبامہ سے ملنے کیلئے قصر ابیض پہنچے تو اوبامہ نک ’’کیم
چھو‘‘کےساتھ استقبال پر مودی اس قدر خوش ہوئے کہ وہ ہندی کو بھول کر
انگریزی پر اتر آئے ۔ چواین لائی انگریزی جاننے کے باوجود چینی زبان میں
گفتگو کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی غیر ملکی سربراہ نے ان کو انگریزی میں لطیفہ
سنایاتو وہ اسے سمجھنے کے باوجود وہ بے حس بیٹھے رہے مگر جب اس کا ترجمہ
ہوا تو قہقہہ لگا کر جواب دیا لیکن بیچارے مودی کا حکمتِ چین سے کیا واسطہ؟
ممکن ہے اوبامہ کو پتہ ہی نہ ہو کہ ہندوستان کی قومی زبان گجراتی نہیں بلکہ
ہندی ہے ۔ ہوسکتا ہے انہیں ہندی اور گجراتی کا فرق ہی نہ معلوم ہو یا یہ
بھی ہو سکتا ہے انہوں نے ابھی تک نریندر مودی کو عالمی تو درکنار قومی
رہنما تک تسلیم نہ کیا ہو بلکہ صرف ایک علاقائی لیڈرسمجھتے ہوں ۔
امریکہ کی سرزمین پر نریندر مودی کا خیر مقدم ان کے خلاف عدالتی سمن سے ہوا
۔ اس طرح نریندر مودی وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جنہیں امریکی ویزا محض عہدے کے
سبب ملا اور اس سے پہلے ۹ سال تک امریکہ نے انہیں اپنی سرزمین پر قدم رکھنے
کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اب مودی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو گیا ہے کہ وہ پہلے
ہندی وزیراعظم ہیں جن کے خلاف کسی بیرونی ملک کی عدالت نے سمن جاری کیا ۔
امریکہ میں عدالتوں کو مکمل طور پر آزاد سمجھنا غلط ہے ۔یقینا ً جج نے یہ
فیصلہ سنانے سے قبل انتظامیہ کا عندیہ معلوم کیا ہوگا اور حکومت کی جانب سے
سبزسگنل ملنے پر ہی یہ اقدام کیا گیا ہوگا۔
جوسلوک ہندی وزیراعظم کے ساتھ کیا گیا اگر روس یا چین کے سربراہ کے ساتھ
کیا جاتا تو امریکہ کو دال آٹے کا بھاو معلوم ہو گیا ہوتا لیکن امریکی
جانتے ہیں کہ ہندوستانی اس طرح کی ذلت برداشت کرلیتے ۔جارج فرنانڈیس سے لے
کر عبدالکلام تک سارے لوگ بے چوں چرااس طرح کی اہانت سے گزر چکے ہیں اب اس
فہرست میں نریندر مودی کا نام بھی شامل ہوگیا۔ مودی کے بھکت معروف صحافی
سوپن داس گپتا نے اس واقعہ کے بعد ٹویٹ کیا کہ مودی کو احتجاجاً اقوام
متحدہ کے اجلاس میں تقریر کرنے کے بعد لوٹ آنا چاہئے لیکن سوپن داس خوابوں
کی دنیا میں رہتے ہیں انہیں نہیں پتہ کہ ہمارے شیر امریکہ کی دھرتی پر قدم
رکھتے ہی بھیگی بلی بن جاتے ہیں ۔ اور جو بلی ّگلے میں کشکول باندھے آنکھ
بند کرکے دودھ پینے کی قائل ہو وہ بھلا کیونکر واپس آسکتی ہے۔
اٹل جی جب ۲۰۰۰میں امریکہ گئے تھے تو رام مندر تحریک کے سوسے زیادہ
سادھوان کے جلسہ عام میں موجود تھے۔ ان کے جلسہ میں دو اسٹیج لگے تھے ایک
پر سادھو سنت اور دوسرے پر سیاست داں حضرات براجمان تھے ۔ وہاں پر جوش میں
آکر اٹل جی نے اپنے چہرے کے اوپر سے مکھوٹا اتار پھینکا تھا اور اعلان
کردیا تھا کہ میں پہلے سویم سیوک ہوں اور یہ حق مجھ سے کوئی چھین نہیں
سکتا۔ دوتہائی اکثریت مل جانے پرخوابوں کا بھارت تعمیر کرنے کا وعدہ کیا
اشارہ رام مندر کی طرف تھا جو ان کی حیات میں تو شرمندۂ تعبیر ہونے سے رہا
لیکن مودی جی نے یہ کیا کہ امریکہ جانے کے بعد اپنے چہرےپرراک اسٹار کا
مکھوٹا سجا لیا ۔ ان کے اسٹیج میں ایک طرف وہ تو دوسری جانب ناچنے گانے
والے لوگ تھے ۔ امریکی اداکار اور ملکۂ حسن نینا دیولوری کے علاوہ پاپ
سنگر انجلی رندیوے بھی موجودتھیں لیکن بھلا ہو مظاہرین کا کہ انہوں نے اس
مکھوٹے کو نوچ پھینکا۔ اٹل جی کی طرح مودی جی نے بہت سارے وعدے کئے ہیں اب
وقت ہی بتائے گا کہ ان میں سے کتنے پورے ہوتےہیں اور کتنے وعدۂ فردا بن
جاتے ہیں ؟
مودی کی جن تقریروں کے بڑے چرچے ہیں ان میں پائی جانے والی حماقتیں بھی کم
دلچسپ نہیں ہیں ماڈیسن اسکوائر پر مودی نے راشٹر پتا مہاتما گاندھی نام غلط
لیا اور انہیں موہن داس کے بجائے موہن لال کہہ دیا ۔ مودی نے اپنی تقریر
میں ہندوستانی صنعتکاروں کو واپس ہندوستان آنے کی دعوت دی اور امریکیوں کو
بھی بلانے کیلئے ہوائی اڈے پر ویزہ کی سہولت کا لالچ دیا لیکن اسی کے ساتھ
اپنے ملک سے اساتذہ اور نرس کو برآمد کرنے کی بات بھی کہہ دی ۔ ہندوستان
میں فی الحال کئی لاکھ اساتذہ کی اسامیاں خالی ہیں اور صحت عامہ کی صورتحال
تشویشناک ہے ایسے میں اساتذہ اور نرس کی برآمد کا ذکر مضحکہ خیز تھا؟مودی
کے اکثر ڈائیلاگ پرانے تھے مثلاً سانپ اور ماؤس سے کھیلنےکی بات وہ ایوان
میں کہہ چکے تھے ۔ ۳ ڈی والی بات جو دہلی کے میک انڈیا مہم میں کہی تھی اسے
بھی دوہرایا گیا۔ اس کے علاوہ انتخابی مہم کے گھسے پٹے جملہ مثلاً چائے
والے کی چائے گرم ۔
اقوام متحدہ کی تقریر یوں تو ہندی میں تھی لیکن اس میں تلفظ کی کئی غلطیاں
سامنے آئیں جوعام طور پر گجراتی داں حضرات سے سرزد ہوتی ہیں۔ انہوں نے صدر
مجلس سام کٹیسا کو کریسا کہہ دیا۔انہترویں اجلاس کے بجائے سکسٹی نائن تھویں
بول گئے جو نہ انگریزی تھا اور نہ ہندی۔ مودی نے ہندوستان کے انگریزی
اساتذہ کا ذکر تو کیا ایک عشاریہ دو پانچ کے بجائےلڑکھڑاتے ہوئےایک عشاریہ
پچیس کہہ دیا ۔یہ ایسی غلطی ہےکہ پانچویں کا طالبعلم بھی نہیں کرتا ۔اپنی
عادت کے مطابق وہ۱۵ کے بجائے ۳۵ منٹ تک بولتے رہے جسے بین الاقوامی فورم
میں نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے باوجود عالمی سطح پر ہندوستان کو ایک
ابھرتی ہوئی سپر پاور کے طور پر پیش نہیں کرسکے ۔ افغانستان میں حالات کے
معمول پر آنے کی تعریف تو کی لیکن ہندوستان کا رول واضح نہیں ہوا۔ داعش کے
حوالے سے بھی مودی تذبذب کا شکار رہے اور کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا ۔
اس اجلاس میں دیگر ممالک سے آنے والے رہنماوں نے جس جرأتمندی کا مظاہرہ
کیا اس سے مودی کو سبق لینا چاہئے مثلاً فلسطین اتھارٹی کے صدر محمود عباس
نے امریکہ کو ناراض کرتے ہوئے اسرائیل پر جنگی جرائم کے مقدمہ چلانے کا
پرزور مطالبہ کیا ۔ ترکی کے رجب طیب اردوان نے مصر میں السیسی کی جانب کئے
جانے مظالم کی مذمت کی اور اقوام متحدہ ایسے حکمرانوں کی موجودگی پر اعتراض
کیا۔ برازیل کی صدر ڈلما رووسف نے امریکی جاسوسی کی جم کر مذمت کی اور
احتجاجاً اوبامہ سے اپنی ملاقات منسوخ کر کے چلی گئیں ۔ اس کے باوجود
امریکی اخبارات میں مودی کی نہیں بلکہ رووسف کی تقریر شاہ سرخی بنی ۔ اس کے
برعکس مودی نہ خود اپنی جماعت بی جے پی کی جاسوسی پر زبان نہ کھول سکے اور
نہ کھوبرا گڑے کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کرسکے ۔اوبامہ کے ساتھ
چوٹی کانفرنس میں بھی انسانی حقوق کا ذکر نہ آسکا۔ رووسف نے داعش کے خلاف
واضح موقف اختیار کرتے ہوئے وہاں فوجی مداخلت کی مخالفت کی اور فلسطین کی
کھل کے حمایت کی ۔ ایکویڈور نے بھی امریکی جاسوسی پر تنقید کی اور سنوڈن کو
پناہ دینے کے اقدام کوحق بجانب قراردیا ۔میکسیکو نے ویٹو پاور کو محدود
کرنے پر زور دیا ۔ وینزویلا نے غزہ، عراق اور شام پر ڈرون حملوں کی مخالفت
کی ۔
ارجنٹینا کی صدر کرشنر نے امریکہ کے معاشی استحصال کی دھجیاں اڑاتے ہوئے
کہا یہ گدھ دراصل معاشی دہشت گرد ہیں جو غربت، فاقہ اوررنج و غم کو جنم
دیتے ہیں ۔ انہوں امریکہ کے عدالتی نظام کی بھی مذمت کی جو سرمایہ داروں کا
حامی ہے۔کرشنر نے داعش کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کے بجائے گفت و شنیدپر
زور دیا ۔ انہوں نے برطانیہ کے دوغلے پن کی بھی مذمت کی جو ایکطرف جوہری
اسلحہ کے پھیلاو کی مخالفت کرتا ہے اور دوسری جانب اس کی تجارت کرتا ہے۔
انہوں نے اسرائیل کے غزہ حملے کی کھل کے مذمت کی اور کہا کہ ارجنٹینا کے
یہودی مرکز پر بمباری کا الزام ایران پر ڈالنے کیلئے امریکہ اور اسرائیل کی
جانب بیجا دباؤ ڈالا گیا تھا جس کو مسترد کرنےکے اب اصل مجرمین کی تلاش
کیلئے ایران کےساتھ مشترکہ تحقیقات کی جارہی ہیں ۔ مودی جی امریکی خوشنودی
کے پیش نظرگول مول باتیں کرتےر ہےاورجرأتمندانہ اظہار خیال اختیار نہ
کرسکے لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عزت و وقار مصلحت کوشی اور منافقت کی
نہیں حق گوئی و بے باکی کی میرا ثِ خاص ہے ۔ |