افغان ثور انقلاب سے جدید افغانستان تک

%7 افغانستان اپنی تاریخ کے نئے دور میں داخل ہورہا ہے ، جہاں اقتدار تمام تر خدشات کے باوجود پر امن طریقے سے منتقل کرنے کی راہ ہموار ہوئی اور افغانستان کے دونوں فریقین نے باہمی رضا مندی سے شراکت اقتدار کا معائدہ کرکے فی الوقت افغانستان میں خانہ جنگی کی قیاس آرائیوں کو ختم کرکے افغانستان میں جمہوریت کے نئے سفر کا آغاز کیا ہے افغانستان کی سرزمین ہمیشہ سے سامراجی قوتوں کی سازشوں کا گڑھ بنی رہی ہے اور اس کے براہ راست نتائج ساری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں ، افغانستان میں سامراجیت اور بنیاد پرستی کی وحشت کا ننگا ناچ جب بھی کھیلا جاتا ہے تو افغان ثور انقلاب کی اہمیت کئی دوچند ہو جاتی ہے۔ افغان ثور انقلاب کو اگر وضاحت کے ساتھ حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ افغانستان میں پرولتاریہ نہ ہونے کے برابر تھی ۔ملک کی کوئی صنعتی بنیاد نہیں تھی مختلف بادشاہت نے برسوں مملکت پر حکومت کی ،شرح خواندگی 10%سے بھی کم تھی ، کل قابل کاشت رقبے کا 50%صرف 05 %افراد کے ہاتھوں میں تھی ، ایسے میں سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کسی طرح کی ترقی کا امکان نہیں تھا، اسی سماجی بے چینی و انتشار میں خلق پارٹی کی تشکیل ہوئی اور جنوری1965ء میں نور محمد ترہ کئی نے پیپلز ڈیموکرٹیک پارٹی آف افغانستان کی بنیاد رکھی، ۔ جنرل سیکرٹری خود ترہ کئی تھا۔67ممبروں میں ببیرک کارمل ،سلطان علی کشمند ہزارہ ،دستیگر پنچ شیری ، ڈاکٹر صالح محمد زیری ،شہر اﷲ شاہ پور اورظاہر شاہ بدخشانی شامل تھے ،بعد میں نور محمد نور ، اکبر خیبر ، ڈاکٹر حفیظ اﷲ امین ، اورڈاکٹر نجیب اﷲ جیسی بڑی شخصیات بھی PDPAمیں شامل ہوگئیں ۔ستمبر65ء میں ببرک کارمل نے السواُلی (عوامی) جرگے کے نہایت اہم اور مضبوط رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے PDPA کے حقوق مقاصد اور اہمیت واضح الفاظ میں بیان کئے ۔25اکتوبر 1965 ء میں طلبا نے پارلیمنٹ کے احاطے میں اور PDPA کے ممبروں نے جمہوری ، ترقیاتی اور تعلیمی ترقی کے مطالبات پیش کئے۔ ظاہر شاہ نے فوج کو بلا جواز فائرنگ کا حکم دیا ، جس کے نتیجے میں چھ طلبا ہلاک اور 150زخمی ہوئے ، غیر مسلح احتجاجی مظاہرے پر فائرنگ کے بعد وزیر اعظم یوسف خان نے احتجاجا استعفی دے دیا۔ظاہر شاہ کے اقدامات کے نتیجے میں افغانستان میں غذائی اجناس کی شدید کمی ، اور مہنگائی میں شدید اضافہ ہوا۔ظاہر شاہ اپنی بیماری کے علاج کیلئے بیروں ملک 17جوالائی1973ء کو گیا تواس دوران داؤد خان نے مسلح افواج کی مدد سے تخت پر قبضہ کرلیا۔داؤد جو ظلم ، سخت گیری ، تشدد اور غلط اقدامات کے باعث افغانستان میں "داؤد دیوانہ"کے نام سے مشہور تھا ،ستمبر1973ء میں کئی با اثر اور نامور شخصیات اعلی فوجی افسران کو گرفتار اور بیشتر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا بے شمار کو جیلوں میں اذیتیں دیں، سابقہ وزیر اعظم ہاشم میوند وال جیل میں اذیت کے باعث مرنے وا کئی لوگوں میں شامل تھا۔اپنے اقدامات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے مطابق آئین بنا ڈالا۔ ایسا اس سے پہلے موجودہ افغانستان 1708ء سے کسی مطلق العنان بادشاہ نے بھی نہیں کیا تھا۔ کامریڈ حفیظ اﷲ امین افغان فوج کے بہت سے افسرز کو انقلابی نظریات کیجانب مائل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے ، جس کی بنیادی وجہ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کی اثر پزیری تھی۔ 17اپریل1978ء کو افغانستان کے صدر محمد داؤد خان کی حکومت میںPDPAکے رہنما محمد اکبر قتل ہوئے اور حکومت پر الزام لگا ،19اپریل کو پارٹی نے کابل میں محمد اکبر خیبر کے جنازے کے موقع پر 30ہزار افراد کی ایک ریلی نکالی اور امریکی سفارت خانے کے سامنے امریکہ مخالف نعرے لگائے، اس مظاہرے کے بعد صدر داؤد نے خلق پارٹی کے سات رہنماؤں بشمول نور محمد ترہ کئی کو گرفتار کرلیا ، حفیظ اﷲ امین نظر بند رہے لیکن 26اپریل کو اسے جیل بھیج دیا گیا۔لیکن فوج کے اندر موجود خلقی آفسیرز کو صدر داؤد کے خلاف امین اﷲ امین نے فوجی بغاوت کرنے کے احکامات دے دئیے تھے۔ 27اپریل 1978ء کو ائیر فورس کے کرنل عبدالقادر نے صدارتی محل پر بمباری کردی جس میں صدر داؤد خاندان سمیت جاں بحق ہوگیا ، زمینی محاذ پر محمد اسلم و طنجار ، جو ایک ٹینک بریگیڈ کا کمانڈر تھا ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ کابل شہر میں داخل ہوکر داؤد کی حکومت کا خاتمہ کرکے شام سات بجے ریڈیو پر "مسلح افواج کی انقلابی کونسل"کا قیام اور داؤد کی حکومت کے خاتمے کا اعلان کردیاگیا۔فوری طور پر 35رکنی انقلابی کونسل بنائی گئی ، اس انقلاب کاسہرا انقلابی فوج کے افسروں کی حمایت اور اس حمایت کو آمادہ کرنے والے حفیظ اﷲ امین کو جاتا ہے اس کوثور انقلاب کہا جاتا ہے۔کیونکہ یہ انقلابی بغاوت افغانی کیلنڈر کے دوسرے مہینے "ثور" میں ہوا تھا ، بعد میں حفیظ اﷲ امین نے ثور انقلاب کو بالشویک انقلاب 1917ء کا تسلسل قرار دیا۔انقلابی کونسل نے نور محمد ترہ کئی کو صدر ، حفیظ اﷲ امین کو وزیر خارجہ بنادیا ، بعد میں وزیر اعظم کا عہدہ بھی حفیظ امین اﷲ کے پاس چلا گیا۔ دس مئی کو نور محمد ترہ کئی نے PDPAکی حکومت کے پروگرام سے ریڈیو پر اعلان کیا۔ افغانستان کی تاریخ کی سب سے بڑی زرعی اصلاحات ، مفت تعلیم اور علاج ، جنسی برابری ، لڑکیوں کی خرید وفروخت پر پابندی اور پر اس چیز کو قومیانے کا اعلان کیا جو قومیانے کے قابل تھی، پہلی دفعہ افغانستان کو صدیوں کی پسماندگی ، جہالیت ، قبائیلیت اور غربت اور لاچارگی سے نکالنے اور اسے جدید سماج اور بیسویں صدی کے ہم آہنگ کرنے کی جدوجہد کا آغاز کردیا۔یہ تبدیلی عالمی استعماری قوتوں کو پسند نہیں آئی، دیگر افغانستان میں خود بھی بے چینی پائی جاتی تھی کیونکہ افغانستان کی سرزمین کے زمینی حقائق سویت یونین سے مختلف تھے اور سویت یونین کو لنین اور ٹراٹسکی نے تعمیر کیا تھا جبکہ افغانستان میں حالات یکسر تبدیل تھے۔سویت یونین نے افغانستان کے نولود انقلابی حکومت کو اپنے دست نگر بنانے کی کوشش کی لیکن حفیظ اﷲ امین افغانستان کی آزادی حیثیت کا حامی تھا ۔وہ ثور انقلاب کے خلاف رد انقلاب کی سرکشی کو کچلنے کا حامی تھا ، لیکن سویت یونین ان پر ملاؤں اور رد انقلابی قوتوں کے ساتھ سمجھوتے کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا ، سویت بیورو کریسی کی سازشوں کی بنا پر نور محمد ترہ کئی اور حفیظ اﷲ امین کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور یہی وہ موقع تھا جب سویت یونین کو افغانستان میں براہ راست فوجی مداخلت کا موقع ملا اور جلا وطن پرچمی لیڈر ببرک کرمل کو روسی ٹینکوں پر بیٹھا کر افغانستان لاکر ایک سازش کے تحت حفیظ اﷲ امین کو قتل کرکے افغانستان کا صدر ببرک کارمل کو بنا دیا گیا۔ 24نومبر1986تک ببرک کارمل بر سر اقتدار رہا ۔ کارمل کے اقتدار سنبھالتے ہی پچاسی ہزار روسی افواج افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ ببرک کارمل کے بعد 1992ء تک ڈاکٹر نجیب اﷲ برسر اقتدار رہے ۔ یہ وہ دور تھا جب سویت یونین میں گوربا چوف نے بیورو کریسی کے اقتدار کو بچانے کیلئے پریسٹرائیکا کے نام سے سیاسی اصلاحات کی راہ اپنائی، ڈاکٹر نجیب اﷲ نے بھی رد انقلابیوں کو کچلنے بجائے اصلاحات اور امن کی راہ اختیار کی ۔ ڈاکٹرنجیب اﷲ نے قومی مصالحتی کمیشن بنائی جس نے لگ بھگ40000ہزار رد انقلابیوں سے رابطے کئے ، جولائی 1987ء میں رد انقلابیوں اور مجاہدین کو سٹیٹ کونسل کی بیس نشستیں اور حکومت میں بارہ وزارتوں کی پیش کش کی، رد انقلابیوں نے ان مواقعوں کا بھرپور فائدہ اٹھا یا ۔ روسی فوجوں کے افغانستان میں داخلے کے سبب امریکہ کو مداخلت کا موقع میسر آگیا اور امریکی سامراج نے رد انقلابی قوتوں کو افغانستان میں داخل کردیا۔1989ء میں سویت افواج کا انخلا مکمل ہوا تو 1992ء میں نجیب اﷲ کی حکومت بھی گر گئی۔پاکستان میں امن افغانستان میں امن سے مشروط ہے۔ جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوتا پاکستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہوسکتا۔اٹھارہ سال قبل جس بھیانک و وحشت ناک طریقے سے ڈاکٹر نجیب اﷲ کو ہلاک کیا گیا وہ تاریخ کا ایک الم ناک اور افسوس ناک باب ہے۔افغانستان کی نئی حکومت کو چاہیے کہ امن کے خاطر وہ پاکستان مخالف اقدامات و کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی و در اندازی سے گریز اور افغانستان میں قیام امن کیلئے مکمل توجہ مرکوز رکھے۔ شراکت اقتدار کے تحت دونوں افغان رہنماؤں کا ایک صفحے پر آنا افغانستان میں قیام امن کیلئے ناگزیر تھا۔اب جبکہ افغانستان میں جمہوریت کا ایک نیا باب شروع ہوچکا ہے لیکن ماضی کے مقابلے میں پاکستان پر الزام تراشیوں ، در اندازیوں کا سلسلہ دراز ہوجاتا جارہا ہے ، جو پاک ، افغان تعلقات میں مسلسل کشیدگی پیدا کر رہے ہیں ، افغان حکومت اس سلسلے میں اپنا رویہ ترک کرنا ہوا ہوگا۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744764 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.