ہماری سیاہ تاریخ کا ایک روشن
کردار
انیس سو ستر کے الیکشن کے نتائج کے نتیجے میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان
میں169 نشستوں میں سے 167نشستیں حاصل کیں جو تمام کی تمام مشرقی پاکستان کی
تھیں، شیخ مجیب الرحمن کا مغربی پاکستان میں کوئی ووٹ نہیں تھا، جبکہ دوسری
طرف مغربی پاکستان کی 144 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی 86نشستیں حاصل کر کے
مغربی پاکستان کی ایک بڑی پارٹی بن گئی تھی، جس طرح عوامی لیگ کا مغربی
پاکستان میں کوئی ووٹ نہیں تھا، بالکل اسی طرح پیپلز پارٹی کا مشرقی
پاکستان میں کوئی ووٹ کوئی سیٹ نہیں تھی، قومی اسمبلی کے 313نشستوں کے
ایوان میں عوامی لیگ 167 نشستوں کے ساتھ اکثریتی پارٹی بن کر سامنے آئی تھی،
یہ منظر خطرے کی نشاندہی کررہا تھا، اکثریتی پارٹی ہونے کی وجہ سے اصولی
طور پر اقتدار شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کو منتقل کیا جانا چاہیے تھا،
لیکن یحییٰ خاں اقتدار مجیب الرحمن کو منتقل کرنا نہیں چاہتے تھے، وہ جان
بوجھ کر اقتدار کی منتقلی میں تاخیر کر کے رہے تھے، جس کی وجہ سے مشرقی
پاکستان کے حالات جو پہلے ہی حکمرانوں کی متعصبانہ پالیسیوں کی وجہ سے اچھے
نہیں تھے مزید خراب ہورہے تھے اور ہر آنے والے دن کے ساتھ مشرقی اور مغربی
پاکستان کے درمیان سیاسی اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی تھی۔
یہ صورتحال ملک کی سالمیت، وحدت اور قومی یکجہتی کیلئے خطرناک تھی، ایسا
محسوس ہورہا تھا کہ اقتدار پرست حکمران اپنے غیر ملکی آقاؤں کے اشارے پر
اقتدار کی منتقلی میں تاخیری حربے استعمال کر کے مشرقی پاکستان کی علیحدگی
اور ملک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا جواز پیدا کررہے تھے، جبکہ حضرت علامہ شاہ
احمد نورانی صدیقی ایم، ایم، احمد کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے مشرقی
پاکستان کی علیحدگی کے خطرے کی نشاندہی پہلے ہی کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ ”
ایم، ایم احمد کی تعصبانہ اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ملک ٹوٹ جائے گا،
لہٰذا ایم، ایم احمد کو فوری طور پر حکومت سے علیحدہ کیا جائے “ آپ نے یہ
انکشاف بھی کیا تھا کہ نئی دہلی اور تل ابیب میں پاکستان توڑنے کیلئے ایک
خوفناک سازش تیار کی گئی ہے اور ایم، ایم احمد سامراجیوں کی طرف سے پوری
سرگرمی سے اس میں ملوث ہیں، ایم،ایم، احمد( جو کہ مرزا غلام احمد قادیانی
کا پوتا تھا ) نے اس سازش میں مرکزی کردار ادا کیا، اس نے حکومت پاکستان کے
فنانس سیکرٹری، مالی مشیر، اور منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت
سے مشرقی پاکستان کو مصیبت زدگان کی سرکاری امداد سے بھی محروم رکھا، اس نے
بنگالیوں کو معاشی بدحالی اور مہنگائی کے ہاتھوں اتنا بے بس کردیا کہ انہیں
پاکستان سے علیحدگی میں اپنے مسائل کا حل نظر آنے لگا، دراصل قادیانی مشرقی
پاکستان کو پاکستان سے علیحدہ کروانا چاہتے تھے، کیونکہ جب تک مشرقی
پاکستان پاکستان سے علیحدہ نہیں ہوتا، قادیانیوں کیلئے پاکستان میں اقتدار
کا سوال خارج از امکان تھا۔
جب کہ دوسری طرف مشرقی پاکستان کی عوام کی اکثریت اور شیخ مجیب الرحمن ان
کے مذموم عزائم اور حرکات کو بھانپ چکے تھے، دسمبر 1970ء کے جنوری 1971ء کے
دوران صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد محب وطن سرکردہ مذہبی و
سیاسی رہنماؤں نے پاکستانی سیاست میں قادیانی اور صہیونی دخل اندازی کی
بھرپور مذمت کی، جمعیت علمائے پاکستان کے پارلیمانی لیڈر علامہ مولانا شاہ
احمد نورانی اس میں پیش پیش تھے، آپ نے پاکستان کے خلاف قادیانی سازشوں کی
مذمت کرتے ہوئے یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ(قادیانی) صدر پاکستان کے مشیر
اقتصادیات ایم،ایم احمد کے زریعے اسرائیل سے رقومات حاصل کرتے رہے
ہیں،5فروری1971ء کو روز نامہ جسارت کراچی آپ کے بیان کو نقل کرتے ہوئے
لکھتا ہے کہ ” مولانا نورانی نے کہا کہ اشتراکی، یہودی، فری میسن اور
قادیانی پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے خلاف سازشیں کررہے ہیں، پاکستان
کے اصل دشمنوں کو بے نقاب کرنے پر وہ اتھاہ گہرائیوں سے شکریئے کے مستحق
ہیں، یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ایک خفیہ یہودی
تنظیم تحریک فری میسنری کے تعاون سے قادیانی گھناؤنا کردار ادا کر رہے ہیں،
فری میسنوں نے ایک بین الاقوامی نظام ترتیب دیا ہے، تاکہ دولت اکھٹی کی
جاسکے، انہوں نے بڑے بڑے کاروباری اشخاص، بڑی کاروباری کمپنیوں کے
ڈائریکٹروں، مختلف پیشہ ورانہ گروہوں کے سرکردہ لوگوں اور اعلیٰ سطح کے
افسران کو مختلف لالچ دے کر اپنے زیر اثر کرلیا ہے، انہوں نے قادیانیوں کے
ساتھ ان کے اسرائیلی مشن کے زریعے مضبوط تعلقات قائم کرلیے ہیں، دراصل فری
میسنوں نے اپنے خفیہ ہتھکنڈوں سے پاکستان میں ایک متوازی حکومت قائم کرلی
ہے ،(1970ء کے) عمومی انتخابات کے دوران قادیانیوں کے اشتراک کے ساتھ
انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کا مکروہ کھیل کھیلا گیا ہے۔
بیس مارچ 1971ء کو آرام باغ کراچی کے جلسہ عام میں علامہ شاہ احمد نورانی
نے اعلان کیا کہ”اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازش تیار ہوچکی ہے، مشرقی
پاکستان کو علیحدہ کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں، اور ایم،ایم احمد قادیانی
باقاعدہ یہ کہتا ہے کہ مشرقی پاکستان ہمارے لیے بوجھ ہے، اس کا علیحدہ ہونا
ہی ہماری ترقی کا ذریعہ ہوگا ورنہ ہم اسی طرح تباہ ہوجائیں گے“(ماہنامہ
تنظیم اہلسنّت ،اگست 1972ءبحوالہ قادیانیت کا سیاسی تجزیہ ص 985)روزنامہ
مشرق لاہور نے 25مارچ 1971 کی اشاعت میں لکھا کہ ”مولانا شاہ احمد نورانی
نے فرمایا عوام ملک کے اتحاد اور سالمیت کی خاطر مزید قربانیاں دینے کیلئے
تیار رہیں اور ملک کو تقسیم کرنے کی تمام سازشوں کو ناکام بنادیں، انہوں نے
بتایا کہ مشرقی پاکستان کے اخبارات صدر کے اقتصادی مشیر ایم ایم احمد کی
ڈھاکہ میں موجودگی پر نقطہ چینی کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ مسٹر احمد
اقتصادی ماہر ہیں سیاسی امور کے ماہر نہیں، اس کے باوجود مذاکرات میں صدر
کے مشیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں“ (بحوالہ تحریک ختم نبوت 1974ءجلد اول
ص 686
علامہ شاہ احمد نورانی کو حالات کی سنگینی کا شدید احساس تھا اور آپ جمہوری
فیصلے کی روشنی میں اقتدار فوری طور پر مجیب الرحمن اور عوامی لیگ کے حوالے
کرنے کا مطالبہ کررہے تھے، اپوزیشن کی دیگر جماعتیں جن میں ممتاز دولتانہ
کی کونسل مسلم لیگ، قیوم لیگ اور نیپ بھی آپ کے اس مطالبے کی تائید کر رہی
تھیں، اس مشکل صورتحال میں علامہ شاہ احمد نورانی نے جمعیت علمائے پاکستان
کے پارلیمانی لیڈر ہونے کی حیثیت سے ملک کو اقتدار پرستوں کی بھینٹ چڑھنے
سے بچانے کیلئے سیاستدانوں سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیا، آپ30 جنوری
1971ء کو اپنے رفقاء پروفیسر شاہ فرید الحق اور ظہور الحسن بھوپالی کے ساتھ
شیخ مجیب الرحمن سے تبادلہ خیالات کیلئے ڈھاکہ تشریف لے گئے، اس وقت تک
مجیب الرحمن کے پاس علیحدگی کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ اسمبلی کا اجلاس
بلانے اور اقتدار کو اکثریتی پارٹی کو منتقل کرنے کا خواہاں تھا، ظہور
الحسن بھوپالی شہید کے مطابق”مولانا شاہ احمد نورانی اور پروفیسر شاہ فرید
الحق کے ساتھ مجھے شیخ مجیب الرحمن سے ڈھاکہ میں ملاقات کا موقع ملا‘‘اس
ملاقات میں جو سیاسی اور دستوری معاملات زیر بحث آئے انہیں کسی اور وقت کے
تذکرے کیلئے چھوڑ کر صرف اُس گفتگو کا حوالہ دے رہا ہوں جو خالصتاً
مرزائیوں کے بارے میں ہوئی،”اس موقع پر مولانا شاہ احمد نورانی نے شیخ مجیب
سے فرمایا کہ ہماری جانب سے ایک اہم مطالبہ یہ بھی ہوگا کہ قادیانیوں کو
غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور انہیں کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے، اس پر
آپ کا کیا طرز عمل ہے، مجیب نے جواب دیا،”دیکھئے قادیانیوں کا فتنہ آپ کے
علاقے ہی کا پروردہ ہے، ہمارے یہاں ڈھاکہ میں انہوں نے ایک مشن قائم کیا
تھا جسے مسلمانوں کے دباؤ اور مظاہرہ کے باعث وہ خود ہی ختم کرنے پر مجبور
ہوگئے، ہم نے اس فتنہ کو کہیں بھی سر اٹھانے نہیں دیا، آپ دیکھئے ایم، ایم
احمد ڈھاکہ میں مارا مارا پھر رہا ہے، یہاں اس کا کوئی کام نہیں، کوئی مقصد
نہیں، میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان میں یہ (قادیانی)
جانور نہیں ملتا،“(تحریک ختم نبوت اور مولانا شاہ احمد نورانی ،ظہور الحسن
بھوپالی ص 10-11
مجیب الرحمن اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کے بعد علامہ شاہ احمد
نورانی نے اپنے رفقا علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، علامہ محمد حسن حقانی اور
ظہور الحسن بھوپالی کے ہمراہ 28، فروری 1971ء کو ایوان صدر کراچی میں جنرل
یحییٰ خاں سے ملاقات کی، یہ آپ کی یحییٰ خاں سے پہلی ملاقات تھی،” آپ نے
انگریزی میں یحییٰ خاں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، جناب صدر کیا آپ کو
معلوم ہے کہ قادیانی مسلمانوں سے علیحدہ حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا مشن
اسرائیل میں کام کررہا ہے، جب کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی
تعلقات نہیں ہیں، قادیانی جب چاہیں جینوا کے راستے اسرائیل چلے جاتے ہیں
اور پاکستان میں یہودی سرمائے کے زریعے ملکی سالمیت کے خلاف کام کررہے ہیں۔
مولانا نے یہ سوال بھی کیا جناب صدر کیا آپ کو علم ہے کہ ربوہ دراصل
پاکستان کے اندر ایک آزاد ریاست کی طرح ہے، اس کی اپنی عدالتیں اور نیم
فوجی تنظیم الفرقان فورس ہے،؟ یحییٰ خاں نے مولانا کے دونوں سوالات پر
لاعلمی کا اظہار کیا، علامہ شاہ احمد نورانی نے یحییٰ خاں سے یہ بھی کہا کہ
میں نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ مشرقی پاکستان کے لوگ ایم،ایم احمد سے
نفرت کرتے ہیں، اگر انہیں ایم،ایم احمد مل جائے تو اسے جلا کر اس کی خاک
خلیج بنگال میں ڈال دیں، لیکن پھر بھی آپ ایم،ایم احمد کو اپنے ساتھ مشرقی
پاکستان لے جارہے ہیں، اس کے اچھے اثرات مرتب نہیں ہوں گے، اس کے جواب میں
یحییٰ خاں نے کہا کہ مجیب بھی یہی کہتا ہے، مولانا نے جب دیکھا کہ یحییٰ
خاں مسئلہ کی سنگینی کو سمجھ ہی نہیں پا رہا تو وہ یہ کہہ کر خاموش ہوگئے،
کہ صدر صاحب یہ ملک بڑی قربانیوں سے حاصل کیا گیا ہے، اسے اس آسانی سے ضائع
نہ کیجیے،“(تحریک ختم نبوت اور مولانا شاہ احمد نورانی ،ظہور الحسن بھوپالی
ص12-13
آپ نے یحییٰ خاں کو حالات کی سنگینی کا احساس دلاتے ہوئے فوری اسمبلی کا
اجلاس بلانے اور اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا، جبکہ
یحییٰ خاں کسی طور بھی اس پر آمادہ نہیں تھا، اس ملاقات میں آپ کی مدلل
گفتگو اور دلائل کا یحییٰ خاں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، وہ کسی طرح بھی
حالات کی سنگینی تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھا اور اس نے یکم مارچ کو اپنی
نشری تقریر میں 3 مارچ کو ڈھاکہ میں بلایا گیا قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی
کردیا، علامہ شاہ احمد نورانی نے مشرقی پاکستان کے بد ترین حالات اور
قادیانیوں کی پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی سازشوں سے قوم کو آگاہ کرنے
کیلئے 19مارچ 1971ء کو آرام باغ کراچی میں جلسہ عام سے خطاب کیا ،”جلسہ عام
سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا، انگریزی استعمار کی پیداوار مرزا غلام
احمد قادیانی کے پیروکاروں نے پاکستان کے وجود کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا تہیہ
کرلیا ہے، اور میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہوں کہ قادیانیوں
نے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا جو پروگرام ترتیب دیا ہے، اس کا پہلا
مرحلہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہے، برسراقتدار ٹولہ اور مغربی پاکستان کی
اکثریتی جماعت ان کی آلہ کار بن گئی ہے، اور اب مشرقی پاکستان کی علیحدگی
کی سازش کا آخری راؤنڈ شروع ہونے والا ہے، مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی
کی جائے گی اور بھارت مداخلت کرے گا، اس سلسلے میں ایم،ایم احمد اور سورن
سنگھ کے درمیان حال ہی میں نیویارک میں ملاقات ہوئی ہے،ایم ،ایم احمد نے
گزشتہ ہفتہ کراچی میں باتھ آئی لینڈ کے ایک بنگلے میں ملک کی بعض اہم
شخصیات سے ملاقات کر کے انہیں اس بات پر قائل کیا ہے، کہ مشرقی پاکستان
مغربی پاکستان پر ایک بوجھ ہے اور اس کا آمدنی میں حصہ محض 9 فیصد ہے،
قادیانیوں کا اس ضمن میں بھارت اور اسرائیل سے رابطہ ہے،“(تحریک ختم نبوت
اور مولانا شاہ احمد نورانی ،ظہور الحسن بھوپالی ص 14-15
علامہ شاہ احمد نورانی قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوتے ہی ڈھاکہ روانہ
ہوگئےاور آپ نے 23مارچ 1971ءڈھاکہ میں قیام کیا، اس دوران آپ نے شیخ مجیب
الرحمن سے کئی ملاقاتیں کیں اور اس بحران کا مثبت حل نکالنے کی کوششیں جاری
رکھیں، ان ہی ایام میں سردار شوکت حیات، ممتاز دولتانہ، اور ولی خان بھی
ڈھاکہ پہنچ چکے تھے، ڈھاکہ میں قیام کے دوران علامہ شاہ احمد نورانی کو
یحییٰ خاں نے ڈھاکہ کے ایوان صدرمیں ملاقات کیلئے بلایا، اس وقت وہ مے نوشی
میں مصروف تھا، آپ نے اسے مے نوشی پر ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ملک شدید قسم کے
سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اور آپ مے نوشی فرما رہے ہیں، آپ نے جام و مینا
کی موجودگی میں صدر سے بات کرنے سے انکار کردیا، اس ملاقات میں آپ نے یحییٰ
خاں کو مجیب الرحمن سے مذاکرات کرنے اور اسے فوری اقتدار منتقل کرنے کا
مطالبہ کیا اور اسے متنبہ کیا کہ اس میں تاخیر اور تساہل کی صورت میں ملک
ٹوٹ جائے گا، لیکن یحییٰ خاں کسی بھی قسم کی مفاہمت پر آمادہ نہیں تھے اور
ایوان صدر میں کھیلے جانے والے کھیل سے واضح ہورہا تھا کہ پر امن اقتدار
انتقال ممکن نہیں رہا ہے، حکمرانوں نے پرامن مذاکرات کا راستہ اپنانے کے
بجائے بندوق کا سہارا لینے کا فیصلہ کرلیا تھا، جس کے جواب میں اہل بنگال
کی جوابی نفرت اور ردعمل کا اظہار فطری تھا، چنانچہ 23مارچ کو علامہ شاہ
احمد نورانی جو ملک کے استحکام اور سالمیت کی جدوجہد میں مصروف تھے ڈھاکہ
سے واپس آگئے، 25مارچ 1971ء بعد ملک میں موجود سیاسی گھٹن کے باوجود علامہ
شاہ احمد نورانی ارباب حل و عقد تک قادیانیوں کے بارے میں قوم کا مؤقف پیش
کرتے رہے،
سات اپریل 1971ء کو آپ نے یحییٰ خاں کے نام کھلا خط لکھا، جس میں مشرقی
پاکستان میں کی جانے والی ناعاقبت اندیشی کا زکر کرتے ہوئے قادیانیوں اور
خصوصاً ایم ،ایم احمد کی وطن دشمن سرگرمیوں کا بھی زکر کیا گیا تھا،”اکتوبر
1971ء میں علامہ شاہ احمد نورانی نے ایک پریس کانفرنس کے زریعے ملک کے
مسائل حل کرنے کیلئے ایک پانچ نکاتی فارمولا پیش کیا، جس کو ملک گیر
پزیرائی حاصل ہوئی، آپ کے ان پانچ نکات میں قادیانی مسئلہ سرفہرست تھا،
علامہ شاہ احمد نورانی نے کبھی بھی اس مسئلے کو پاکستان کی سالمیت سے الگ
تصور نہیں کیا، بلکہ اس مسئلے کا حل پاکستان کی استحکام وسالمیت و اساس
کیلئے لازمی سمجھا، آپ کے پیش کردہ وہ پانچ نکات مندرجہ زیل ہیں۔
٭ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے حوالے کیا جائے۔
٭مشرقی پاکستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے۔
٭قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔
٭قادیانیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔
٭1954ء کے دستوری مسودہ کو دستور کی بنیاد کے طور پر اختیار کیا جائے‘‘ ۔
(تحریک ختم نبوت اور مولانا شاہ احمد نورانی ،ظہور الحسن بھوپالی ص15)
جمعیت علمائے پاکستان کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی پاکستان کے وہ واحد
مذہبی اور سیاسی رہنما تھے، جنہوں نے قادیانیوں اور مرزائیوں کی نقاب کشائی
اور محاسبے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا، آپ نے ہمیشہ اُن کی وطن
دشمن سرگرمیوں پر قدغن لگانے کا مطالبہ کیا، لیکن افسوس کہ علامہ شاہ احمد
نورانی کے بار بار انتباہ کے باوجود ارباب اقتدار کے کانوں پر جوں تک نہ
رینگی اور وہ قادیانیوں کی ایماء پر دیدہ و دانستہ ملک دشمن سرگرمیوں میں
مصروف رہے، حتیٰ کہ علامہ شاہ احمد نورانی کے اندیشے درست نکلے اور دنیا نے
دیکھ لیا کہ 25مارچ 1971ء کو ہونے والی فوجی کاروائی بالآخر مشرقی پاکستان
کی علیحدگی پر مختتم ہوئی، 16دسمبر 1971ء کا سورج مشرقی پاکستان کی علیحدگی
کا اعلان لے کر طلوع ہوا اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوکر بنگلہ دیش بن
گیا، پاکستان کی کم و بیش 93,000 ترانوے ہزار فوج کو یحییٰ خاں کے غلط
اقدام کے نتیجے میں المناک حالات میں ہتھیار ڈالنے پڑے اور مشرقی پاکستان
میں مسلمانوں نے جس طرح ایک دوسرے کا خون بہایا وہ ایک دردناک داستان ہے۔
مولانا شاہ احمد نورانی فوجی حکمرانوں کو ہمیشہ ان خطرات اور المیے سے آگاہ
کرتے رہے جن کا پوری قوم کو سامنا کرنا پڑا، ان کا یہ واضح اور دو ٹوک مؤقف
تھا کہ اقتدار بلا تاخیر اکثریتی پارٹی کو منتقل کردیا جائے اور باقی تمام
معاملات قومی اسمبلی کے اندر طے ہونے چاہیں، یہ مولانا شاہ احمد نورانی ہی
تھے جنہوں نے دیگر قومی رہنماؤں کے سامنے جنرل یحییٰ خاں کو کھری کھری
سنائیں تھیں، لیکن جنرل یحییٰ اقتدار اور شراب کے نشے میں اس قدر مست تھا
کہ اس نے آپ کے حقائق پر مبنی تجزیے اور صحیح مشورے پر کوئی توجہ نہیں دی
اور طاقت کا غلط استعمال کر کے نہ اپنے اقتدار کو بچا سکا اور نہ ہی
پاکستان کی جغرافیائی حدود کی حفاظت کر سکا۔
علامہ شاہ احمد نورانی کیلئے مشرقی پاکستان کا سانحہ سب سے زیادہ تکلیف و
دکھ کا باعث تھا، آپ قادیانیوں کو سانحہ مشرقی پاکستان کا سو فیصدی ذمہ دار
قرار دیتے تھے، آپ کے بقول”پاکستان کے بجٹ کی تیاری اور اقتصادی حوالے سے
جو بھی پلاننگ ہوتی اسکا چیئرمین ہمیشہ ایم،ایم احمد ہوتا، جو جان بوجھ کر
مشرقی پاکستان کو نظر انداز کرتا، تاکہ وہاں کے لوگوں میں مغربی پاکستان کے
حوالے سے شکایات پیدا ہوں اور ان کے درمیان دوریاں بڑھیں، اس سلسلے میں ایم
،ایم قادیانی کا کردار بہت ہی گھناؤنا ہے
’’مجھے ڈھاکہ جانے کے بعد مزید اندازہ ہوا مشرقی پاکستان میں قادیانی واقعی
بڑا گھناؤنا کردار ادا کررہے ہیں اور ڈھاکہ کا ہر سمجھدار شخص ایم،ایم احمد
کی شکایت کرتا نظر آتا ہے، مشرقی پاکستان میں جب 1970ء میں سیلاب آیا تو
دنیا بھر کے ممالک سے ان کی مدد کیلئے امداد آئی، لیکن بد قستمی سے اس
امداد کی تقسیم کا کا م ایم،ایم احمد قادیانی کے سپرد کیا گیا، جس سے وہاں
کے لوگ شدید نفرت کرتے تھے، انہیں اس بات پر سخت افسوس تھا کہ اس شخص کو
امداد کی تقسیم کا کام سونپا گیا ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ ناانصافی کرتا
ہے،جہاں تک اقتصادیات کا تعلق ہے ایم ،ایم احمد نے پوری منصوبہ بندی سے
مرزائیت کو مضبوط کیا، بالکل اسی طرح جس طرح امریکہ میں یہودیوں نے اپنے آپ
کو مضبوط کیا ہے، اور یہودی امریکہ میں اس قدر اثر انداز ہیں کہ تمام
بینکوں، انشورنش کمپنیوں اور بڑے بڑے کارخانوں، غرضیکہ ہر بڑے سرمایہ کاری
کے اڈے پر ان کا قبضہ ہے، یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی سینٹ اور صدر ان کی
حمایت کے بغیر منتخب نہیں ہوسکتے، یہی طریقہ مرزا ایم،ایم احمد نے اختیار
کیا اور وہی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کی، انہوں نے اور چوہدری ظفر اللہ
قادیانی نے یہاں آکر باقاعدہ مرزائیوں کو لائسنسوں سے نوازا، قادیانیوں کو
کارخانوں اور تمام اہم انڈسڑیز کے پرمٹ دیئے گئے، تاکہ مرزائی اقتصادی طور
پر مضبوط ہوجائیں، ظفر اللہ قادیانی کی حمایت سے قادیانیوں کا بڑا گروہ
حکومت میں داخل ہوگیا اور اقلیت میں ہونے کے باوجود ان کی وہی پوزیشن ہوگئی
جو امریکہ میں یہودیوں کی ہے،“(انٹرویوعلامہ شاہ احمد نورانی ترجمان
اہلسنّت کراچی مارچ 1973ئ
سانحہ مشرقی پاکستان کے عوامل اور وجوہات اور مستقبل کے لائحہ عمل پر روشنی
ڈالتے ہوئے آپ نے فرمایا”دسمبر 1971ءکی جنگ کو ہرگز فیصلہ کن نہیں قرار دیا
جاسکتا، برصغیر کی اسلامی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے جب کہ
وقتی طور پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اس وقت غیور اور باضمیر مسلمان
حکمرانوں نے بالآخر اپنی شکست کو مستقل فتح میں بدل ڈالا، محمد غوری کی
جدوجہد اس سلسلے کی ایک روشن مثال کی حیثیت رکھتی ہے، موجودہ صورتحال اپنوں
کی غداری اور بے وقوفی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، ہماری چودہ سو سالہ روایات
کا تقاضہ ہے کہ ہم اسے ایک عارضی سانحہ سمجھیں اور تلافی مافات کیلئے بھر
پور جدوجہد کا آغاز کردیں، مجھے تعجب ہوتا ہے اس جنگ کو فیصلہ کن قرار دے
کر گھٹنے ٹیک دینے والے لوگ وہ ہیں جو ہزار سال تک لڑنے کا اعلان کرتے تھے،
میں کہتا ہوں ہزار سال نہیں پانچ سو سال نہیں ایک سو سال اپنی جدوجہد جاری
رکھو، بزدلی اور بے غیرتی کا راستہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔“(انٹرویو
مولانا شاہ احمد نورانی ،اردو ڈائجسٹ جولائی 1972
ممتاز مسلم لیگی رہنما چودہری ظہور الہٰی کہتے ہیں کہ ”سابق صدر یحییٰ خاں
نے مولانا شاہ احمد نورانی سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ جب مشرقی
پاکستان کے لیڈروں سے مذاکرات کے دوران مغربی پاکستان کے تمام لیڈر خاموش
رہتے تھے تو شاہ احمد نورانی واحد آدمی تھا جو میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر مجھ سے بات کرتا تھا اور جس نے کہا تھا کہ تم کسی کو غدار قرار دینے
والے کون ہوتے ہو، عوام کے نمائندوں کو اقتدار منتقل کردو، اس کے بعد سیاسی
معاملات کو حل کرنا ہمارا کام ہوگا“(روزنامہ مشرق لاہور 26 جولائی
1977ءنورانی میاں کی تبلیغی مصروفیات ص 38 |