پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی
کے ڈانڈے بھارتی خفیہ ایجنسی ”راما “ سے ملتے ہیں
بھارت.... امریکہ، افغانستان اور اسرائیل کے ساتھ ملکر پاکستان کو غیر
مستحکم کررہا ہے
اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہونے والی تمام دہشت گردی کے ڈانڈے
بھارتی اِس خفیہ ایجنسی ”راما “ سے ملتے ہیں جو بھارت نے پاکستان میں بڑھتے
ہوئے انتہاپسند عناصر اور اِن کی دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لئے
افغانستان اور اسرائیل کے ساتھ مل کر قائم کی ہے۔ جس کا مقصد پاکستان میں
طالبان کی آڑ میں خود دہشت گردی کرنا اور پاکستان کو سیاسی، معاشی، اقتصادی
اور اخلاقی طور پر پوری طرح سے غیر مستحکم کر کے ایک ناکام ریاست ثابت
کرانا ہے اور یہاں اِس کے ساتھ ہی پوری پاکستانی قوم سمیت ساری دنیا کو یہ
بھی جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ ”راما “ نامی خفیہ ایجنسی کو اِس نام سے قائم
کرنے کی بھارت کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت اپنی انتہا پسندی کو رواج
دینے کے لئے راما نامی اپنی خفیہ ایجنسی سے مسلم انتہا پسندوں کو ختم کرنا
چاہتا ہے اور ہندو مذہب میں رام نندی یا راما سے مراد یہ ہے کہ” ہندوں
فقیروں کا وہ گروہ جو رام کے سوا کسی دوسرے کو نہیں مانتا“اپنے اِس ہی
مذہبی عقیدے کے باعث بھارت نے یہ تہیہ کرلیا ہے کہ مسلم انتہا پسندوں کو
بھارت اپنی راما نامی خفیہ ایجنسی سے ہی ختم یا کنٹرول کرسکتا ہے اور
بالخصوص پاکستان سمیت دنیا بھر میں اِس کی یہ راما نامی خفیہ ایجنسی جو اِس
نے افغانستان اور اسرائیل کے ساتھ مل کر بنائی ہے اِس کی یہ خفیہ ایجنسی
کہیں بھی اور کسی بھی مقام پر تباہی پھیلا کر وہاں کے امن و سکون کو تباہ
وبرباد کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اور کسی بھی گھناؤنے عزائم کی تکمیل
کے خاطر اِس کی یہ ایجنسی دہشت گردی میں مہارت رکھتی ہے۔ اور اِس کے ساتھ
یہ بھی کہ پاکستان میں اَب تک جہاں کہیں اور جتنی بھی دہشت گردی ہوئی ہے
اِس کے پیچھے بھی بھارت، اسرائیل اور افغانستان پر مشتمل یہ ہی خفیہ ایجنسی
کارفرمارہی ہے۔ اور اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دنوں راولپنڈی کی
مسجد میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعہ کے پیچھے بھی بھارت کی اِس ہی
خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے۔
اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاک فوج گزشتہ کئی ماہ سے ملک
میں ”راہِ نجات “ کے نام سے جاری آپریشن کے ذریعے وطنِ عزیز سے دہشت گردوں
کا قلع قمع کرنے میں اپنی پوری قوت کے ساتھ مصروفِ عمل ہے اور یہاں یہ امر
بھی حوصلہ افزا ضرور قرار دیا جاسکتا ہے کہ اِس آپریشن کے دوران اَب تک کی
جانے والی تمام کارروائیوں میں پاک فوج کو بہتر نتائج بھی حاصل ہوئے ہیں تو
اُدھر ہی دوسری طرف ملک بھر میں دہشت گردی کی وارداتیں تسلسل کے ساتھ اپنی
پوری شدت سے جاری ہیں اور اِس پر بھی ایک طرف حکومتی حلقے اور فورسز کے
ذرائع یہ دعوے کرتے نہیں تھک رہے ہیں کہ ہم نے اپنے اِس آپریشن سے دہشت
گردوں اور اِن کے نیٹ ورک کا پوری طرح سے خاتمہ کر کے اِس آپریشن سے اپنے
اہداف میں بڑی کامیابیاں حاصل کرلی ہیں تو اِس کے ساتھ ہی اُدھر ملک دشمن
دہشت گرد عناصر بھی اپنے اِس عزمِ ناپاک ہر ڈٹے ہوئے ہیں کہ ہم بھی اپنی
بقا اور اپنے عزائم کی تکمیل ہونے تک اپنے خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے اور
یوں اپنی ناکامی پر اِس عزم بیکار پر قائم رہ کر اِن دہشت گردوں نے ملک بھر
میں معصوم اور نہتے انسانوں پر پبلک مقامات سمیت محراب و منبر کی تمیز کئے
بغیر اپنی سفاکانہ کاروائیوں کا سلسلہ تیز تر کر دیا ہے۔ اور وہ اپنے خفیہ
اہداف میں زیادہ سے زیادہ تباہی پھیلا کر جہاں عالمی سطح پر پاکستان کو ایک
غیر مستحکم ریاست تسلیم کرانے میں مصروف ہیں تو وہیں یہ دہشت گرد اپنی اِن
سفاکانہ کارروائیوں سے عوام کو بھی خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کے علاوہ
اِسے صدمے سے بھی دوچار کرنے والی اپنی ناپاک حکمتِ عملی پر قائم رہ کر
پوری طرح سے کام کرتے نظر آرہے ہیں۔
اِس حوالے سے 4دسمبر2009 کو جمعہ کے روز راولپنڈی کینٹ چھاؤنی کے حساس
علاقے میں واقع پریڈلین کی مسجد میں دہشت گردی کی ایک سفاکانہ واردات نے
ایک بار پھر ملک کے سترہ کروڑ عوام کے دل ہلا دیئے ہیں اور ہر محب وطن
پاکستانی دہشت گردوں کی اِس انتہائی سفاکی اور درندگی کے واقع پر خون کے
آنسو رو رہا ہے جس میں اسلام کے لبادے میں پانچ شدت پسندوں نے نماز جمعہ کے
خطبے کے دوران ہینڈ گرنیڈوں اور خودکار جدید اسلحے کا بیدریغ استعمال کر کے
مسجد پر اپنی سفاکی اور درندگی کا مظاہر کرتے ہوئے حملہ کردیا اور یوں جس
کے نتیجے میں 17معصوم بچوں اور 7 کے قریب پاک فوج کے افسروں سمیت 40نمازیوں
کی شہادت کے علاوہ80 سے زائد شدید اور جزوی زخمی ہوئے۔ اِس المناک واقعہ
میں پاک فوج کے جو سات فوجی افسر شہید ہوئے اُن میں پاک فوج کے ایک میجر
جنرل، چھ آرمی افسر اور تین سپاہی شامل ہیں اور ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اِس
واقع میں جو 80 یا اِس سے زائد افراد شدید یا جزوی طور پر زخمی ہوئے تھے
اُن میں سے بھی متعدد کی حالت انتہائی تشویشناک ہے اور وہ موت اور زندگی کی
کشمکش میں مبتلا ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِس سانحہ راولپنڈی سے قبل بھی ملک کی مساجد
اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں پر جتنے بھی حملے ہوئے ہیں کیا اِن حملوں
میں ملوث عناصر مسلمان تھے؟ میرے خیال سے ہرگز نہیں کہ اِن میں کوئی مسلمان
ہو؟ اور اللہ کے گھر اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں پر یوں حملہ کرنے
والے(جس طرح پریڈ لین کی مسجد پر دہشت گردوں نے حملہ کیا) وہ مسلمان نہیں
ہوسکتے ہیں....؟ یہاں یہ بات بھی سمجھنی بہت ضروری ہے اِس لئے کہ کوئی بھی
مسلمان جس کا تعلق خواہ کسی بھی فرقہ سے ہی کیوں نہ ہو وہ اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں یہ ہرگز تسلیم نہیں کرسکتا ہے کہ کوئی بھی شخص جو اپنے آپ کو
مسلمان کہلاتا ہو اور اِس میں ایک رتی برابر بھی خوف خدا اور ایمان ہو وہ
اللہ کے گھر میں نمازیوں پر تو کیا بھلا وہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ پر
مسلح ہو کر حملہ کرنا تو دور کی بات ہے؟ وہ نہتا ہو کر بھی بلا کسی شرعی
عذر کے کسی بھی غیر مذہب کے پیروکار کے چہرے پر ایک تھپڑ(تمانچہ)بھی مارنے
کو اسلامی تعلیمات اور ایک مسلمان کے اخلاق کے خلاف سمجھتا ہے۔
مگر یہاں افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ آج ملک میں اسلام کا لبادہ اوڑھے
بھارتی خفیہ ایجنسی راما اور بلیک واٹر کے دہشت گردوں نے اپنی گھناؤنی
کارروائیوں سے ملک کے ہر فرد پر موت کی وحشت طاری کردی ہے اور آج ہر فرد
ذہنی اور جسمانی اذیتوں میں مبتلا ہوکر نفسیاتی بن کررہ گیا اور دنیا بھر
میں باقاعدہ ایک سازش کے تحت اسلامی تعلیمات اور پاکستانیوں کے وقار کو بھی
مسخ کر کے پیش کیا جارہا ہے اور پاکستانیوں کو دہشت گرد کے روپ میں دنیا کے
سامنے لایا جارہا ہے جس سے پاکستانیوں کا وقار دنیا بھر میں مجروح ہوکر رہ
گیا ہے اور اِسی سازش کے تحت پاکستانی قوم کے لئے ترقی کے راستے بھی بند
کئے جارہے ہیں۔
یہاں مجھے خلیل جبران کا ایک قول یاد آرہا ہے کہ ”قابلِ رحم ہے وہ قوم جس
کی آواز ماتمی جلوس کے سوا کبھی سنائی نہ دے، جو اپنے کھنڈروں پر فخر کرتی
ہو اور صرف اِس وقت سنبھلنے اور اُبھرنے کی کوشش کرے جب اُس کا سر تن سے
جدا کرنے کے لئے تلوار اور لکڑی کے درمیان کھاجا چکا ہو“اور آج مجھے یہ
کہنے میں ذرا بھی ہچککچاہٹ محسوس نہیں ہورہی ہے کہ ایسی ہی کچھ صورت حال
اَب ہماری قوم کی بھی ہوگئی ہے کہ ہماری قوم کی آواز خلیل جبران کے اِس قول
والی قابلِ رحم قوم سے کچھ مختلف نہیں کہ اِس کی آواز اَب ماتمی جلوس کے
سوا کچھ نہیں رہ گئی ہے اور ہم آج بھی فخر کی اِس بیماری میں مبتلا ہیں کہ
ہمارا ملک پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور ہم اِس قلعے کے باسی ہیں حالانکہ
کہ آج ہم میں مسلمانوں والی کوئی ایسی چیز باقی ہی نہیں رہ گئی ہے جو ہم
میں ہونی چاہئے تھی آج ہم صرف نام کے پاکستانی اور مسلمان ہوکر رہ گئے ہیں
جس کا فائدہ ہمارے دشمن اٹھا رہے ہیں۔
اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قوم کو جگانے کے لئے ضروری ہے کہ
ہر فرد میں خودی کا جذبہ ابھارا جائے اور جب قوم میں یہ جذبہ بیدار ہوجائے
تو پھر یہ یقین بھی کرلیا جائے کہ دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی اِس
قوم کو پست نہیں کرسکتی اور قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جن اقوام کے ہر فرد
میں خودی کا جذبہ پیدا ہوگیا تو وہی قومیں دنیا میں امر ہوئیں ہیں تو آج
ہماری اِس قوم میں بھی امریکہ، بھارت، اسرائیل اور افغانستان سے مقابلہ
کرنے کے لئے خودی کا جذبہ بیدار کیا جائے۔
جبکہ گزشتہ ہفتے کے روز راولپنڈی مسجد پر دہشت گردوں کے حملے کے نتیجے میں
جان بحق ہونے والے پاک فوج کے شہیدوں کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد چیف آف
آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ)
میں زخمی ہونے والے پاک فوج کے افسران اور جوانوں کی عیادت کے بعد جاری کئے
جانے والے اپنے ایک بیان میں ہر قیمت پر پاکستان کی بقا، دفاع اور تحفظ کے
لئے پاک فوج کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قوم کا فوج کے ساتھ اظہار
یکجہتی خزانہ ہے پاکستان ہمارا مادر وطن اور اسلام کا قلعہ ہے ہم اسلام اور
پاکستان کی عظمت کے لئے جیئیں اور مریں گے۔
اور آج ملک بیرونی قوتوں کی سازشوں کے ہاتھوں جن نازک لمحات سے دور چار ہے
اِس گھڑی میں وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پوری پاکستانی قوم باہم متحد اور
منظم ہوکر اپنی بقا و سالمیت کے لئے پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوکر یہ
عزم کرے کہ
” دل دیاہے جاں بھی دیں گے اے وطن تیرے لئے“ |