عید الاضحی میں جانوروں کی قربانی ، سنت ابراہمی ہے اور
دیگر شعائر اسلام کی طرح امت مسلمہ یہ سنت بھی نہایت جوش وخروش سے مناتی ہے
، لیکن کراچی والوں کیلئے ایک مسئلہ قربانی کی کھالوں کا ہے۔کھالیں دیں تو
کس کو دیں ، کسی کو منع کریں تو وہ یہ کہہ کر جاتا ہے کہ ہمیں تو کھال
چاہیے ، جانور کی دو ، یااپنی!! ، کچھ اس عمل سے اتنے تنگ آچکے ہیں کہ کھال
کی مساوی رقم انھیں دے دیتے ہیں کہ بھائی ، ہمارے اسلامی فریضے کو اپنے
سیاسی کاروبار کی بھینٹ مت چھڑاؤ۔ کھالوں کی بکنگ پہلے سے شروع کردی جاتی
ہے اور گھروں میں پرچیاں بھیج کر بتا دیا جاتا ہے کہ کارکن آئیں گے اور
کھال لے جائیں گے ، اجتماعی قربانی کے حوالے سے عذر پر یہی کہاجاتا کہ ہم
نے پرچی دے دی ہے ، اب ہمیں تو کھال چاہیے ، چاہے وہ کسی کی بھی ہو۔پچھلے
سال تو قربانی کے جانوروں کو گولیاں اسی لئے ماریں گئیں کہ چرم قربانی دینے
سے انکار کردیا گیاتھا ، کچھ حساس علاقوں سے نقل مکانیاں بھی کیں گئیں کہ
یہاں قربانی مویشی سے پہلے ہماری ہوجائے گی۔اس لئے دوسرے علاقے میں رشتے
داروں کے گھر جا کر قربانی کی ۔ لیکن اس وقت موضوع چرم قربانیکے حوالے سے
ہی نہیں ہے کہ کون ، کیسے کھالیں دے گا کہ نہیں ، بعض اوقات کچھ احباب مجھ
سے نالاں بھی ہوجاتے ہیں کہ یار ، تم ہر بات کی کھال کیوں اتارتے ہو ، تو
میں اکثر حیران رہ بھی جاتا ہوں کہ میں دھرنے والا قصائی نہیں ہوں ، لیکن
عید قربان کے حوالے سے کچھ کئی مہینوں سے پیش گوئی جاری تھیں کہ عید سے
پہلے قربانی ہوگی ، اب ان شیخ صاحب پر سب اعتراض کر رہے ہیں کہ آپ نے
الیکشن کی تاریخ میں ایک سال کی توسیع کردی لیکن آپ کے دعوے کے برعکس
قربانی نہیں ہوسکی ، تو میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے ، دراصل کوئی
گائے کی قربانی کرتا ہے تو کوئی کسی اور بڑے جانور کی ۔ قربانی والے آئے
تھے ، قربانی لینے ، استعفے دے کر خود قربانی کا بکرا بن گئے ہیں اب ان کے
استعفی ان کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنس چکے ہیں کہ نہ نگل سکتے ہیں اور نہ
ہی اگل سکتے ہیں۔اسی طرح شہر کراچی میں قربانیاں دینے کا سلسلہ زور و شور
سے جاری ہے، صرف ماہ ستمبر 2014میں دہشت گردی اور پر تشدد واقعات میں معروف
علمی و مذہبی شخصیت مفتی نعیم کے داماد اور جامعہ کراچی میں جز وقتی استاد
مولانا مسعود بیگ ، جامعہ کراچی شعبہ اسلامک اسیٹیڈیز کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر
شکیل اوج ، علامہ عباس کمیلی کے بیٹے ، علی اکبر کمیلی سمیت دس پولیس
افسران و اہلکار ، پاک فوج کے جوان ، ڈاکٹرز اور تاجروں کے ساتھ156افردا
جاں بحق ہوئے اور متعدد افراد نے زخمی ہوکر قربانی دی۔دو بم دہماکوں میں
ایس ایس پی فاروق اعوان سمیت دو درجن سے زائد افراد زخمی اور کریکر بم حملے
میں پولیس اہلکار وں نے جاں بحق ہوکر اور متعدد افراد نے زخمی ہوکر دہشت
گردوں کی کاروائیوں میں شجاعت کی قربانی دی۔ ستمبر کی بنک ڈکیتیوں میں دو
کروڑ 81لاکھ روپے کی بنکوں کو، ڈاکوؤں کو قربانی دینا پڑیں۔ستمبر ماہ میں
شہر کے مختلف علاقوں سے عوام نے 1870موٹر سائیکلوں ،975 کاروں اور چھ ہزار
سے موبائل فونز کے چوری اور چھین جانے پر اپنے قیمتی مال کی قربانی دی۔
اسی طرح پولیس و رینجرز نے ماہ ستمبر2014ء میں کالعدم جماعتوں ، لیاری گینگ
وار ، اغوا کار اور مختلف جرائم میں ملوث 74ملزمان کی جانوں کو قانون
کیچھری سے قربان کردیا ، مجموعی چور پر 4013ملزمان گرفتار کئے ۔ جہاں ایک
طرف جرائم پیشہ عناصر معصوم بے گناہ عوام کو خوف و ہراس کے نام پر قربان کر
رہے ہیں تو دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے بھی اپنی چھریاں تیز کر کے
بیٹھے ہیں۔دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات لگائے جاتے ہیں ، لیکن ابھی
تک عدالت کی جانب سے ان گرفتاریوں پر سوائے ضمانتوں کی منظوری کے دوسرے
فیصلے منظر عام پر نہیں آئے ۔اس لئے اس پر تبصرہ اس وقت نہیں کیا جاسکتا کہ
سینٹ کی کمیٹی کے سامنے رینجرز کے سربراہ نے جو تفصیلات مختلف جماعتوں کی
گرفتاریوں کے حوالے سے لائیں ، ان پر تمام سیاسی جماعتوں کو شدید تحفظات
ہیں ، کیونکہ ابھی تک مانیٹرنگ کمیٹی نہیں بنی اس لئے اس کی شفافیت پر
تبصرہ نہیں کیا جاسکتا ، لیکن یہ بات طے ہے کہ عید قربان سے قبل مخصوص
گرفتاریوں کی کاروائیوں میں شدید تیزی آجاتی ہے۔
پاکستان کی سرحدوں پر ایک جانب افغان انتظامیہ تو دوسری جانب بھارت ،
اشتعال انگیزیوں اور در اندازیاں کرکے ماحول کو پرگندا کر رہی ہیں لیکن اس
کا جواب بھی انھیں برابر دیا جا رہا ہے ، آئی ڈی پیز نے مملکت کی سلامتی
کیلئے اپنے گھر بار کی قربانی دیں یہاں تک کہ ان کے کیمپوں پر بھی دہماکے
کئے گئے ۔ مختلف جماعتوں کی جانب سے استعفوں اور جمہوریت کیلئیہر قسم کی
قربانی دینے کا اعلان کیا گیا اور 48روز سے زیادہ دھرنے دیکر میڈیا کی
کوریج سے پاکستانی کروڑوں عوام کے جذبات اور صبر کی قربانی لی ۔ غرض یہ ہے
کہ پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی عوام جتنی قربانیاں دیں رہی ہیں ، اس
کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اب ان قربانیوں کے بعد کھالوں کا مسئلہ درپیش
ہوتا ہے کیونکہ قربانی دینے والوں کو کھالیں بھی دینی پڑتی ہیں ، پرانے
زمانے میں بادشاہ اپنے مخالفیں کی کھالیں کھینچوا لیا کرتے تھے ، ان میں
بھوسا بھروا کر قلعے کے دروازے پر لٹکا دیا کرتے تھے ، لیکن اب صورتحال
مختلف ہوچکی ہے ،شک پر قانون نافذ کرنے والے مشکوک افراد کو اٹھا کر لے
جاتے ہیں اور پھر ان کی کھالیں سیاہ پڑ جاتی ہیں ، کچھ بے گناہ ہوتے ہیں تو
کچھ گناہ گار ، لیکن عدالتوں میں جا کر وکیلوں کی ہاتھوں اپنی کھال اتارنے
سے بہتر ہے کہ خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے بجائے وہ اپنی کھال ہی کھنچوا
لے ۔ایکنرز پرسن اور بعض میڈیا گروپس اپنی ذاتی مخالفت میں سیاست دانوں کی
عزت کی دھیجاں اور کھالیں اتارنے میں مصروف ہیں اور بے تکان عمل پیرا کررہے
ہیں ۔ اسی طرح مہنگائی ، لوڈ شیڈنگ ، اوور بلنگ ، عدم تحفظ اور شدید بد
امنی کیساتھ بے روزگاری نے محنت کشوں اور غریب عوام نے اپنیکھالوں سے ایسے
جوتے بنا دئے ہیں کیونکہ اپنا حق پانے کیلئے جوتے مہنگے اور کھال سستی پڑتی
ہے۔ بچے پوچھتے ہیں کہ ہم کس کی قربانی کریں گے تو بے بسی سے جواب دینا
پڑتا ہے کہ پورے سال حکومت کے معاشی سخت اقدامات کی وجہ سے قربانیاں ہی تو
دے رہے ہیں اور باقی کھال کی بات تو مغرور اور فرعون نما ہٹلر عزت کی چمڑی
ادھیڑ دیتا ہے ۔ کوئی دعوی کرتا تھا کہ شیر کی کھال پہنے گیڈر کو ووٹ کی
طاقت سے گیارہ مئی کو واپس بھگا دیں گے تو دوسری جانب دھرنوں ، مظاہروں اور
احتجاجی جلسے جلوسوں نے عوام کی کھال اتار دی۔ جیسے کسی پولیس والے کے ہاتھ
کوئی ملزم چڑھ جاتا ہے تو اس کی کھال اس وقت تک اتاری جاتی رہتی ہے جب تک
وہ بے نظیر بھٹو کے قتل یا نائن الیون کے گرانے کی ذمے داری قبول نہیں
کرلیتا، سابقہ وزیر جیل خان جات سندھ نے انکشاف کیا جیلوں میں روزانہ کی
آمدنی دس لاکھ روپے سے زیاد ہ ہے یعنی جیلوں میں قید مقید اسیر بھی کھالیں
اتارے جانے سے محفوظ نہیں ہیں۔میرے پاس کسی بھی مذہبی و سیاسی جماعت کا
کوئی کارکن قربانی کھالوں کیلئے پرچی نہیں لاتا ، بلکہ فون پر جاننے والوں
کے لئے اپیل نما چیز کرواتا ہے کہ اس بار قربانی کی کھالیں ، فلاں کو دیں
تو کبھی کبھار وہ موصوف چراغ پا ہو جاتا ہے کہ بھائی ، مہنگائی ، بھتہ خوری
، بد ترین معاشی حالات اور موجودہ ملکی حالات کے سبب ممکن نہیں کہ سنت
ابراہیمی ادا کرسکوں ، بس رہ دہ کر میری کھال رہ گئی ہے، اب آکر بچی یہ
میری کھال اتار لو ۔ |