وزیراعظم پنڈت نہرو اور نغمہ
نگارشیلندراشتراکیت کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پنڈت جی کی
خارجہ پالیسی کوشیلندر نےنہایت خوبصورت انداز میں اس طرح بیان کیا کہ’’
میرا جوتا ہے جاپانی ، اور پتلون انگلستانی، سر پر لال ٹوپی روسی لیکن پھر
بھی دل ہے ہندوستانی ‘‘۔ آزادی کے بعدعرصۂ دراز تک ہندوستان کی خارجہ
پالیسی مد رجہ بالا خطوط پر کاربند رہی لیکن جب اشتراکی لال ٹوپی خود سوویت
یونین کے سر سے ہو ا ہو گئی تو اس وقت کےشری ۴۲۰ وزیر اعظم نرسمھا راؤ نے
اپنا قبلہ و کعبہ تبدیل کردیا ۔ اس کے بعد مختلف نظریات کی حامل جماعتیں
اقتدار میں آتی جاتی رہیںلیکن عالمی برادری کے ساتھ ہمارے تعلقات اسی ڈگر
پر آگے بڑھتے رہےجوابن الوقتی کی بنیاد پر استوار کی گئی تھی ۔ وزیراعظم
نریندر مودی کے اقتدار میں آتے آتے حالت یہ ہو گئی کہ ’’ بولٹ ٹرین ہے
جاپانی، اس کے سگنل ہیں امریکی ، نیچے پٹری تو ہے چینی ،پھر بھی چھاتی ہے
گجراتی‘‘
بیرونی ممالک کے دوروں کی خبر خوب بنتی ہے ۔اس سے ذرائع ابلاغ میں چھائے
رہنے کا بہترین موقع ہاتھ آتا ہے ۔ اسی کے ساتھ ملک کے اندر موجود پیچیدہ
اور متنازعہ مسائل سے جان چھوٹ جاتی ہے اس لئےوزیر اعظم نریندر مودی فی
الحال امورِخارجہکا مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں ۔عالمی رہنماؤں کے ساتھ دعوتیں
اڑانا اوربڑی بڑی باتیں کرنا نہایت آسان و سہل کام ہے۔اس افیون سے وزیر
اعظم تو راہِ فرار اختیار کرسکتے ہیں لیکن سنگین مسائل سے دوچارغریب عوام
کواس طرح کے نشہ میں مدہوش کرناممکن نہیں ہے ۔ ضمنی انتخابات میں لوگوں
تیور سے لگتا ہے وہ اس موقع کےمنتظرہیں کہ جب وہ ان لوگوں کو ہوش میں لایا
جائے جنہوں نے حسین خواب دکھلا کر انہیں جھانسے میں لےلیا تھا ۔
ننھے منے ہمسایہ ممالک سے فارغ ہونے کے بعدوزیراعظم نے جاپان کا دورہ کیا۔
جاپان ایک ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوتا
ہے ۔اس دورے کو سیاسی نہیں بلکہ معاشینقطۂ نظر سے اہم سمجھا جارہا
تھا۔وزیراعظم کے ساتھ ایک اعلیٰ سطحی تجارتی وفدتھا جس میں ان کے منظور ِ
نظر گوتم اڈانی تو شامل تھے لیکن ہندوستان کے امیر ترین صنعتکار مکیش
امبانی غائب تھا ۔ مودی جی کی تقریب ِ حلف برداری میںگجراتی امبانی پریوار
کےمکیش اور انل کے ساتھان کی والدہ کوکیلا بین و دیگر اہل خانہ موجود تھے ۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ مکیش امبانی کے تجارتی مفادات جاپان کے ساتھ وابستہ
نہیں ہیں بلکہ ہندوستان میں پہلی مرتبہ جب تیل اور گیس کی کھوج کا کام نجی
شعبہ کے حوالے کیا گیا تو کرشنا گوداوری کے ڈیلٹا میں امبانی کی ریلاینس
نےجاپانی کمپنی کے ساتھ مل کر ٹھیکہ لیا۔ اس کے باوجود عین موقع پر امبانی
کا بلا کسی ٹھوس وجہ کے پیچھے ہٹ جانا دال میں کالا بتلاتا ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ مکیش امبانی اور نریندر مودی کے درمیان تعلقات فی الحال
کشیدہ ہیں جس کی وجہ حکومت کی جانب سےگیس کی قیمتِ خریدکے تعین میں
تاخیرہے۔فی الحال بھارت سرکار امبانی سے ۲ء۴ ڈالر فی ایم بی ٹی یوکے نرخ پر
گیس خریدتی ہے ۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے معاشی مشیر سی رنگا راجن
نےیکم اپریل سے دوگنی قیمت یعنی ۴ء۸ ڈالر تجویز کردی تھی جسے یو پی اے
حکومت نے تسلیم بھی کرلیا لیکن انتخابی کمیشن نے اس پر عمدار آمد میں روک
لگا دی ۔ امبانی نے اس امید میں اپنے وسائل انتخابی مہم میں جھونک دئیے کہ
اقتدار سنبھالنے کےفوراً بعد مودی جی اس فیصلے کو نافذ العمل کریں لیکن
مودی جی اس کی جرأت نہیں کر پارہے ہیں اس لئے کہ ایسا کرنے پر یا تو
مہنگائی میں بے شمار اضافہ ہوجائیگا یا خزانے کا خسارہ بے انتہا بڑھ
جائیگا۔ مودی جی نےچار سرکاری افسران پر مشتمل ایک گروہ تشکیل دیا ہے
جسےآئندہ چند ہفتوں میں گیس کی نیا نرخ طے کرنا ہے ۔ سرکار پر دباؤ بنانے
کیلئے مکیش امبانی نے جاپان کے دورے سے قبل ایک زور کا جھٹکا دھیرے سےلگا
دیا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے جاپان دورے کا اہم مقصد جوہری بجلی گھر کی تکنیک
میں تعاون حاصل کرنا تھا لیکن جاپان نے اس معاملے میں ساتھ دینے کے بجائے
ہاتھ دےدیا ۔ مودی جی بولٹ ٹرین کا کھلونا اورخوشنماوارانسی کا سپنا دکھلا
کر لوٹا دیا ۔وزیر اعظم کی ٹیم نےنہ جانے کیا سوچ کرچینی صدر کے دورے کو اس
کے حریفِ اول جاپان اور امریکہ کے درمیان میں رکھا ۔ یہ لوگ اس بات کو بھی
بھول گئے کہ جاپان اور چین کےسمندریحدودکا تنارع کشمیر سےبھی زیادہ سنگین
نوعیت کا ہےاس لئےجاپان سےواپس ہوتے ہوئے مودی جی نےایک ایسا احمقانہ بیان
دے آئے کہ جس سے چینی صدر کے دورے کی ریڑ پٹ گئی۔
جاپان کی سرزمین پر صنعتکاروں اور تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے مودی جی کے
اندر چھپا ہوا پرچارک اچانک بیدار ہو گیا اور انہوں بلا سوچے سمجھے اپنا
پروچن شروع کردیا ۔ پرتھم (سویم ) سیوک مودی جی جوش میں یہ کہنے سے بھی
نہیں چوکے کہ ’’ فی الحال دنیا میں دو طرح کےدھارے (نقطہائےنظر)پائےجاتے
ہیں ۔ ایک توسیع پسندی کا اور دوسرا ترقی پذیری کا۔ آج ہم اپنےچہار جانب
۱۸ویں صدی کے انداز میں پایا جانے والا توسیع پسندانہ رحجان دیکھتے ہیںیہی
ذہنیت ہے جس کے تحت کسی ملک میں دراندازی کرکے اس کے علاقوں کو غصب کرلیا
جاتا ہے یا دوسروں کی سمندری حدود میں داخل ہوکر ان پر قبضہ کیا جاتا ہے۔
اس طرح کی توسیع پسندی کسی صورت عوامی فلاح و بہبود کو یقینی نہیں بنا سکتی
۔ مودی جی نے دانستہ یا نادانستہ طور چینپر زبردست چوٹ کردی اور اپنی عادت
کے مطابق اسے بھول گئے لیکن چینی صدر ژی جن پنگ اسے نہیں بھولے ۔
جاپان کے اندر ہندوستانی وزیراعظم کا یادگار کارنامہ ڈھول بجانے سے آگے نہ
بڑھ سکا۔اس ڈھول کے شور نے کمبھ کرن کی مانند خوبِ خرگوش میں مبتلا راہل
گاندھی کو گہری نیند سے بیدار کردیا ۔ انتخاب میں ناکامی کے بعد راہل کا
واحد بیان جو اخبارات کی زینت بنا وہ ان کے اپنے حلقۂ انتخاب امیٹھی میں
دیا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا ملک کے اندر بجلی ندادرد ہے ، نوجوان
بیروزگار ی سےپریشان ہے اور وزیراعظم بیرونِ ملک ڈھول بجا رہا ہے ۔ جاپان
سے واپسی کے بعد مودی سرکار کی دوسری حماقت صدر مملکت پرنب مکرجی کا ویتنام
کا دورہ تھا جہاں پرنب دا نے ویتنام کوسمندر کی تہہ میں موجود تیل کی کھوج
میں تعاون کا یقین دلایا ۔ شاید پرنب دا کو نہیں معلوم کہ وہ جن تیل کے
ذخائر کی بات کررہے ہیں ان پر چین کا دعویٰ ہے ۔ مودی سرکار کو اگر عقل
ہوتی تو صدرِ مملکت کا دورہ ایک ماہ بعد رکھا جاتا اور چینی صدر کے دورے سے
قبل ان کے زخموں پر نمک پاشی سے گریز کیا جاتا ۔فکری عدم استحکام کے سبب
مودی جی بیک وقت دو دشمنوں کوخوش کرنےکے چکر میں دونوں کو ناراض کر تے
ہوئےکہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں کی ان کی قابلِ رحم حالت پر
یہ شعر صادق آتا ہے ؎
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ راہبر یہ کہے
چلے کہاں سے تھے لیکن کہاں نکل آئے
جن پنگ کو دہلی کے بجائے احمد آباد بلا یا گیا۔سفارتی آداب کے مطابق یہ
ہونا چاہئے تھا کہ مودی جی دوسرے دن دہلی میں چنگ کا استقبال کرتے لیکن وہ
بذات خود احمدآباد پہنچ گئےاور اس قدر مکھن لگایا کہ امول فیکٹری خالی
ہوگئی ۔ ارونا چل پردیش کے لوگوں کو گھروں میں نظر بندکردیا گیا۔ حکومتِ
گجرات کی جانب سے تقسیم کئے جانے والے نقشے میں نہ صرف اروناچل پردیش بلکہ
اکسائی چین اورآزاد کشمیر کو بھی متنازعہ علاقہ دکھلادیا گیا ۔ اس کے
باوجود دورے کے درمیان ہی۱۰۰۰چینی فوجیوں نے سرحد پر اچانک ہلہّ بول دیا ۔
چینی حکومت کے اس طرز عمل سے عام لوگ تو حیران رہ گئے لیکن جنہیں پتہ تھا
کہ مودی جی جاپان کے اندر کیا گل کھلا کر آئے ہیں اور پرنب دا کے ویتنامی
دورے کا ردعمل کیا ہو سکتاہے وہ اسکارروائی کے محرکات جان گئے۔ مودی جی کی
مانند چینی صدربول بچن کےقائل نہیں ہیں بلکہ جس موقف کو درست سمجھتے ہیں اس
کااعلان بندوق کی نال سے کرتے ہیں۔مودی جی کاجاپانی غیر دانشمندانہ بیان
توداستانِ پارینہ بن گیا لیکن چینی اقدام نے ہند چینی تعلقات پر انمٹ نشان
ثبت کردئیے۔
ہندوستان کا ذرائع ابلاغ جو اس دورے کے حوالے سےشیخ چلی کی مانند خواب بن
رہا تھا چیین فوج کی پیشقدمی کودیکھ کر ششدر رہ گیا ۔ پیٹ پجاری صحافیوں کو
لگا کہ گجراتی پکوان کی سوندھی سوندھی خوشبو سرحد عبور کرگئی ہے ۔کھانے کی
بو نے فوجیوں کو اس قدربے قابو کردیاہےکہ وہ اپنے صدر کے ساتھ ڈیڑھ سواقسام
کےکھانوں سے لطف اندوز ہونے کی خاطرہندی سرحدمیں داخل ہو گئے ہیں ۔اس سے
پہلے کہ کوئی احمق چینل اس دراندازی کا کریڈٹ مودی اوران کے خاص باورچیبدری
کو دیتا موت کی خاموشی چھا گئی۔ سابرمتی ندی کے ساحل پرواقع گاندھی آشرم
کے اردگرد منڈلانے والی مہاتما کی سادگی پسندروح اس فضول خرچی پر خون کے
آنسو بہا رہی تھی۔
غاصب چینی فوجیوں کا غالباً پتہ نہیں تھا کہ چومار سے احمدآباد کے درمیان
کس قدر طویل فاصلہ ہےاوران کے صدر بھی شاید نہیں جانتے تھے کہ ہندچینی سرحد
پر کیا ہنگامہ برپا ہے ۔ یا ممکن ہے ان دونوں کا اس کا علم ہو کہ وہ کیا
کررہے ہیں اور کیوں کررہے ہیں؟ لیکن ہمارے وزیر اعظم یقیناً اس دراندازی کی
وجوہات سے واقف نہیں تھے ورنہ مانسرور کیلئے نیا راستہ کھولنے پر شکریہ ادا
کرنے کے بجائے وہ پرانے راستے کےبند ہونے پرغم و غصے کا اظہار کرتے۔ ویسے
کوئی بعید نہیں کہ چین کی جانب سے متوقع سرمایہ کاری نے ان کے لبوں پر قفل
ڈال دیا ہو۔ اس سے قبل منموہن سنگھ کے زمانے میں چینیوں نے دلائی لامہ کے
دورے کو لے کر دباؤ بنانے کیلئے اور اپنے سابقہ صدر کے ہندوستانی دورے سے
قبل اسی طرح کی مذموم حرکت کی تھی جس کے جواب میں حکومتِ ہند نے دورہ منسوخ
کرنے دھمکی دےکر چینی فوج کو واپس جانے پر مجبور کیا۔ اس بار جن چنگ کا جن
ان کے احمدآباد میں قدم رنجا فرمانے کے بعد بوتل سے اس طرح باہر آیا کہ
مودی جی ہاتھ ملتے رہ گئے ۔
وزیراعظم مودی کے ساتھ جو سلوک جن ژی چنگ نے کیا اس طرح کوئی مہمان اپنے
معزز میزبان کے ساتھ پیش نہیں آتا لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا ۔ اس مختصر
سے دور اقتدار میں یہ تیسرا واقعہ ہے ۔اس سے قبل برازیل جاتے ہوئے راستے
میں رک کر انہوں نے جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل سے ملاقات کا ارادہ کیا
۔جب وہ جرمنی پہنچے تو انجیلا بنا بتائے برازیل فٹبال میچ دیکھنے چلی گئیں
۔ اگر مودی معمول کے مطابق فرینکفرٹ سے ہوتے ہوئے جاتے تو اس ہزیمت سے بچ
جاتے۔امریکہ میں بھی یہی ہوا کہ جس اوبامہ نے منموہن سنگھ کے استقبال کیلئے
سکریٹری آف اسٹیٹ کونڈا لیزا رائس کو بھیجا تھا اسی نے اس بار سکریٹری
کےنائب کو روانہ کردیا۔ منموہن کے اعزاز میں دی جانے والی دعوت میں ۳۰۰ لوگ
شریک ہوئے تھے مودی کو ۲۰ لوگوں کے ساتھ ٹرخا دیا گیا اور جس جگہ یہ دعوت
ہوئی وہ کوئی تقریب گاہ نہیں بلکہ انتظار گاہ تھی ۔ وزیراعظم پر غیر ملکی
دوروں کے بخار کو دیکھ کر یہ اشعار یا دآتے ہیں؎
ہر محفل سخن ميں ميں جاتا ضرور ہوں
ليکن ميرا مقام ابھي زير غور ہے
کہنےلگے عنايتِ عجلت پسندسے
بھيا تمہارا کام ابھي زير غور ہے
دراصل مودی جی کے مزاج میں پائی جانے والی عجلت پسندی ان کی دشمن بنی ہوئی
ہے ۔ ان کو عالمی سطح کے رہنما اس لئے اہمیت نہیں دیتے کہ انہوں نے اپنی
شخصیت کا لوہا ابھی منوایا نہیں ہے ۔صرف انتخاب جیت جانا کوئی بڑا کارنامہ
نہیں ہوتا بلکہ اقتدار میں آنے کے بعدکچھ کرکے دکھانا ہوتا ہے اور وہ
مرحلہ ابھی نہیں آیا ۔ اگر وہ دو چار سال یکسوئی کے ساتھ جم کرکام کریں
اپنی ساکھ بنائیں تو لوگ اپنے آپ ان کا احترام کریں گے ورنہ الفاظ کی
بازیگری سے بھولے بھالے عوام کوکچھ دیر تک بہلایا پھسلایا تو جاسکتا ہے
لیکن عالمی رہنماوں کے درمیان کوئی مقام حاصل نہیں ہوتا۔ زر خرید ذرائع
ابلاغ کا معاملہ تو اس بھجن منڈلی کی طرح ہے کہ اسے جس قدر دکشنا دو وہ اسی
قدر نمو نمو کا ورد کرتی رہے گی ۔
وزیر اعظم مودی ہندوستان کی سرزمین پرجس چینی فوج کو ان کےصدرسے بات چیت کر
کے واپس نہ کرسکے ،امریکہ کے اندر وزیر خارجہ سشما سوراج نے اپنے چینی ہم
منصب سے گفت و شنیدکر کے وہ کام کردیا۔ غالباً محترمہ سشما سوراج نے صاف
صاف پوچھ لیا ہوگا کہ بھائی آپ کو کیا پریشانی ہے ؟ آپ جو پیغام دینا
چاہتے تھے وہ تو ساری دنیا کو پہنچ گیا ۔ سب کو پتہ چل گیا کہ آپ ڈنکے کی
چوٹ پر توسیع پسندی کے قائل ہیں اور ایسا کرنے سے آپ کو کوئی نہیں روک
سکتا ۔ اب تو کم از کم اپنے فوجیوں کو واپس بلا لو ۔ اس کے جواب میں چینی
وزیر خارجہ نے سرحد کے قریب ہندوستان کی حدود میں بننے والی سڑک کو روکنے
کا مطالبہ کیاجسے تسلیم کرلیاگیا ۔ اس کے بعد اعلان ہوا کہ آئندہ جمعہ سے
انخلاء کی کارروائی شروع ہو گی اور ایک ہفتہ میں مکمل ہوجائیگی ۔ گویاجو
علاقہ چینی فوج نے ایک دن کے اندر اپنے قبضے میں لے لیا تھا اس کو خالی
کرنے میں دوہفتوں کا وقت لگےگا۔ سشما نے دوہفتوں کے اندر انخلاء کرواکرمودی
کی’’گو گیٹر پی ایم‘‘(یعنی کر گزرنے والا وزیر اعظم) کی شبیہ کو معمولی سی
سوئی سے پنچر کردیا۔
صدر جن پنگ کی آمد سے قبل یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ اس دورے کے
نتیجہ میں ۱۰۰ بلین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی لیکن جب جن پنگ نے در اندازی
کرنے بعد گجرات کے شیر کا خود اپنے کچھار کے اندر دم خم دیکھ لیا تو سوچا
مودی جیسے وزیر اعظم کی سربراہی میں ہندوستان کے اندرسرمایہ کاری محفوظ
نہیں ہے۔ اس کا بہتر استعمال کسی اور ملک میں ہونا چاہئے اس لئے کل سرمایہ
کاری کی مقدار ۳۰ بلین سے آگے نہ بڑھ سکی ۔ جن پنگ کے بعد آسٹریلیا کے
وزیراعظم ٹونی ایبٹ ہندوستان آئے ۔ انہوں نے منہ مانگے داموں پر یورینیم
فراہم کرنے کا وعدہ تو کردیا لیکن اڈانی کے ذریعہ اپنے ملک کے اندر کوئلہ
کان کی صنعت میں ۱۰۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی بھی اپنے ساتھ
لے گئے ۔یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف تو ہمارے وزیر اعظم امریکی سرمایہ
کاروں کو خوش کرنے کیلئے جان لیوا بیماریوں کی دواؤں کو مہنگا کررہے ہیں
تو دوسری طرف وزیراعظم کے چہیتے سرمایہ دارگوتم اڈانی بدیس میں جاکر سرمایہ
کاری کررہے ہیں ۔
چینی فوج جس وقت ہندوستان کی سرحد کے اندر اپنے خیمہ گاڑ رہی تھی مہاراشٹر
میں شیوسینا بی جے پی کے خیمہ اکھاڑ رہی تھی ۔ جس طرح سرحد پر ہمارے جوان
خاموش تماشائی بنے دہلی سے احکامات کا انتظار کررہے تھے اسی طرحممبئی میں
بیٹھے مہاراشٹر بی جے پی کے رہنما پارٹی کے صدرامیتشاہ کے مون برت کے ٹوٹنے
کی راہ دیکھ رہے تھے ۔ شاہ کا حال یہ تھا کہ ممبئی میں آکر کسی واضح موقف
کا اظہار کرنے کے بجائے اپنا طے شدہ دورہ منسوخ کئے جارہے تھے۔ بیچاری بی
جے پی سرکار نہ چینی صدر کو خوش کرنے میں کامیاب ہوئی اور نہ ادھو کو
مناپائی اور جو رشتے ماضی میں بڑی محنت سے استوار کئے گئے تھے وہ بالآخر
ٹوٹ کربکھر گئے۔
امریکہ سے واپسی کے بعد مودی جی نے خود تو گاندھی جی کی یاد میں جھاڑو تھام
لیا اور صاف ستھرا کچرا ڈلوا کر اسے صاف کرنے کا ناٹک کرنے لگے مگر دوردرشن
کا مائیک گاندھی جی کے قاتلوں کی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت
کوتھما دیا تاکہعوام کے ذہنوں کو پراگندہ کیاجائے ۔ سنگھ پریوار کا دہشت
گردی کے مختلف واقعات میں ملوث ہونا جگ ظاہر ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور مکہ
مسجد کے دھماکوں میں اسیمانند اور سادھوی پرگیہ جیل میں چکی پیس رہے ہیں ۔
گجرات کا کلنک ابھی مٹا نہیں ہے کہ ایک نیا داغ انہوں نے اپنے ماتھے پر سجا
لیا۔ بھاگوت کی تقریر دوردرشن پر نشر کروانے کے بعد مودی جی کس منہ سے دہشت
گردی کے خاتمہ کا دعویٰ کریں گے اور کون اس پر اعتبار کرے گا؟ اقتدار کے
زعم میں مودی جی بار بارمتضاد رخ اختیار کرتے ہیں اور بار بار ٹھوکر کھاتے
ہیں بقول حافظ؎
غرورِ جادہ شناسی بجا سہی لیکن
سراغِ منزل بھی مقصود بھی کوئی پائے |