صفائی مہم کا شور اور گاندھی جی

مسلمان اور صفائی؛ گاندھی اورم ودی؛ جنگ کا جنون؛کرپشن کی پذیرائی؛دواور مظلوم بری

وزیراعظم نریندر مودی نے گاندھی جی کے یوم پیدائش 2؍ اکتوبر کو خود ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کر اور اپنے ماتحت وزیروں وافسروں کو جھاڑوپکڑوا کر صفائی کی جس مہم کا شور اٹھایا ہے، اس کی سیاسی اغراض کچھ بھی کیوں نہ ہوں، اس کے کچھ مفید پہلو ضرور ہیں۔ یہ سچ ہے کہ یورپی ممالک کے برعکس ہندستان کا عام مزاج صفائی ستھرائی سے آشنا نہیں۔ عام مقامات پر کوڑا کرکٹ پھیلانا، کھلے میں ضروریات سے فارغ ہولینا اور گھر سے باہرصفائی کو کمتر درجہ کا کام سمجھنا، قدیم ہندستانی کلچرکا حصہ ہے۔ مذہبی عقائدایسے قدیم مراسم پر ابھارتے ہیں جن سے سمندروں ، تالابوں اوردریاؤں میں آلودگی بڑھتی ہے۔صفائی کرنے والوں کو ملیچھ، غلیظ اور اچھوت سمجھاجاتا ہے۔ صدیوں کے اس مزاج کو ایک دد ون کی جھاڑو بہاری سے بدلا نہیں جا سکتا۔ اس کے لئے ریاضت درکار ہوگی۔عقائد و مراسم کی اصلاح کا معاملہ تو اور بھی حساس ہے۔ ہندتووا کے نام لیوا تواس کوچے میں قدم بھی رکھنا گوارہ نہیں کریں گے۔ صورتحال کی اس سنگینی کا احساس خود وزیراعظم کو بھی ہوگا۔ اس لئے ان کے حوصلے کی داد دینی ہوگی۔دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ قدیم برہمنی ذہنیت پر پار کس طرح پاتے ہیں جس پر آرایس ایس بھی فخرکرنے کا اصرار کرتی ہے۔

صفائی اور مسلمان
اس معاملے میں ہمیں خود اپنا اوراپنے گردوپیش کابھی جائزہ لینا چاہئے۔ دنیا کی صفائی پسند اقوام جہاں صرف ظاہری صفائی پرتوجہ دیتی ہیں، اسلام صفائی سے بڑھ کر پاکیزگی اور طہارت پر زور دیتا ہے ۔ چنانچہ طہارت کو نصف ایمان قراردیا گیا ہے۔ طہارت میں صرف جسم اورلباس کی نہیں بلکہ فکرونظر اورعمل کی پاکیزگی بھی شامل ہے۔ مگر یہ کیسا افسوس کا مقام ہے کہ ہمیں اسلام میں داخل ہوئے صدیاں گزرگئیں، اس کے باوجود اکثر مزاجوں میں صفائی ستھرائی کی وہ اہمیت نہیں جو ہمارے ایمان کا تقاضا ہے۔ اکثر مسلم بسیتوں میں صفائی کی شدید کمی نظر آتی ہے ،حالانکہ اپنے جسم، اپنے لباس، اپنے گھر اور اپنے گردوپیش کوصاف ستھرا اور پاکیزہ رکھنا ہمارے لئے عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ ہماری آبادیوں کو صفائی میں مثالی ہونا چاہئے مگرمعاملہ برعکس ہے۔ عوام توعوام، ہمارے خواص بھی اس کی تبلیغ و تلقین اورعمل میں کوتاہ نظرآتے ہیں۔ اب اگر حکومت کی طرف سے وہ آواز آئی ہے جو ہمارے دین کا بھی تقاضا ہے تو ہمیں ازخود آگے بڑھ کر زیادہ بہتر مثال پیش کرنی چاہئے۔جناب سید حامد، سابق وی سی ،اے ایم یو نے چند سال قبل یوپی رابطہ کمیٹی کے تحت اسی مقصد سے’ صحت کارواں‘ نکالے تھے اور یہ نکتہ ذہن نشین کرانے کی مہم چلائی تھی کہ صفائی ستھرائی حفظان صحت کا بھی اہم حصہ ہے۔ گندگی ہوتی ہے تو امراض پھیلتے ہیں۔ صحت بخش غذاپر متوجہ کرانا بھی اس مہم کا حصہ قرار پایا ۔ غذا کا ذایقہ اپنی جگہ مگر اس کا صحت بخش ہونابھی ضروری ہے۔ہمارے یہاں مصالحہ داراور ثقیل غذاؤں کا استعمال عام ہے ،حالانکہ ایسی غذائیں صحت کے لئے سخت مضر ہیں۔ تلی ہوئی، بھنی ہوئی غذائیں، جنک فوڈ اور بازار کی بنی ہوئی اشیاء کے مقابلے سادہ کھانا بہتر ہوتاہے۔ اچھا ہوتا کہ مسٹرمودی کی اس صفائی مہم میں کھانے پینے کی اچھی عادتوں پر بھی توجہ دلائی جاتی تاکہ صفائی کے ساتھ حفظان صحت کا یہ اہم پہلوبھی روشن ہوتا ۔ مگر یہ اسی وقت ہوتا جب پالیسی سوچ سمجھ کر بنائی جاتی اور مقصد واقعی عوام کی ہمہ جہت بہبود پر مرکوز ہوتا ۔

مودی اورگاندھی
مودی صاحب نے، جو خود آرایس ایس کی پرچارک ہیں، اس مہم کا آغاز گاندھی جی کے یوم پیدائش سے کرکے بڑی صفائی کے ساتھ اس داغ کو دھونے کی کوشش کی ہے جو آرایس ایس پر گاندھی جی کے قتل کے معاملے میں لگتا ہے۔ اس میں کچھ گجراتی عصبیت بھی کارفرما نظرآتی ہے ۔ ہندستان کی جدوجہد آزادی میں گاندھی جی اور سردار پٹیل دو اہم گجراتی لیڈروں کے نام آتے ہیں۔ پٹیل کو تو بھاجپا نے پہلے ہی اچک لیا تھا، اب گاندھی جی کو اچکنے کی تدبیر کی جارہی ہے۔ بیشک گاندھی جی کے سیاسی فلسفہ سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہ انتہائی مخلص ہندولیڈرتھے۔فرق یہ ہے کہ وہ قدامت پرست نہیں اصلاح پسند ہندوتھے۔وہ برطانیہ میں پڑھے تھے اور جنوبی افریقہ سے سیاست کا سبق سیکھ کر آئے تھے ،اس لئے وہ دور کی سوچتے تھے اور اپنے کاز کے لئے ہولے ہولے قدم بڑھانا پسند کرتے۔ وہ فکری اورعملی شدت پسندی کے سخت خلاف تھے ۔ ان کی یہی روش تاریک ذہن ہندووادیوں کے طرزعمل سے ٹکرائی جو ان کے قتل کا سبب بنی۔گوڈسے کے چاہنے والے آج بھی کم نہیں۔ چنانچہ جب تک سنگھ پریوار شدت پسندی اورہنسا کی روش سے دامن نہیں چھڑالیتا،مودی لاکھ چاہیں، گاندھی جی ان کے نہیں ہوسکتے۔

مودی کی اس مہم کا فوری فائدہ یہ ہواہے کہ مہاراشٹرا اور ہریانہ میں جہاں اسمبلی چناؤ ہورہے ہیں ’اچھے دنوں‘ کے منتظر عوام کی توجہ کچھ وقفہ کے لئے وعدوں کی عدم تکمیل سے ہٹ گئی ہے۔

جنگ کا جنون
مرکز میں بھاجپا کی سرکار آنے کے بعد سے ہند پاک سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے ۔گزشتہ چند روز کی فائرنگ میں پانچ ہندستانی شہری ہلاک اور 34زخمی ہوچکے ہیں۔چند فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔سرحدی علاقوں میں عام زندگی مفلوج ہوگئی ہے۔ کھیت اور بازار سنسان پڑے ہیں۔ لوگ محفوط مقامات کی طرف جارہے ہیں۔ مالی نقصان بھی ہورہا ہے۔ جوابی فائرنگ سے پاکستان میں بھی چارشہریوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے، جس کی شکایت اس نے اقوام متحدہ سے کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مودی سرکار کی پالیسی کے نتیجہ میں ہند پاکستان تعلقات کے دوطرفہ معاملہ میں ایک مرتبہ پھر بین اقوامی مداخلت کا در کھل گیا ہے۔ یو این او میں نواز شریف کے جواب میں مودی کا یہ کہنا کہ یہاں شکایت سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں، عالمی طاقتوں کی دلچسپی مداخت میں بڑھ سکتی ہے۔

ہرچند کہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری باجپئی نے مینار پاکستان جاکر یہ پیغام دیا تھا کہ ان پارٹی بھی پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرتی ہے، لیکن یہ سچائی کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگانے والے سنگھ پریوار کا نظریہ بدلا نہیں ہے۔ نومبر 2003 سے ہند پاک سرحد اور کشمیر میں کنٹرول لائن پر جو امن امان قائم تھا، نئی حکومت کی ’آنکھیں دکھانے‘ اور ’سخت رویہ‘ اختیار کرنے کی پالیسی کی بدولت اس کو نقصان پہنچا ہے۔ وزارت خارجہ میں سفارتی امور کے ماہرین کو نظرانداز کرکے جس طرح سشماسوراج اور نریندر مودی نے اگست میں خارجہ سیکریٹریوں کی ملاقات کو منسوخ کیا تھا، موجودہ کشیدگی اسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس کے بعد سارک وزرائے داخلہ کی کٹھمنڈوکانفرنس کے دوران راجناتھ سنگھ کی نیپال میں سرحدی علاقوں کے دینی مدارس کے خلاف زہرافشانی اور پاکستانی مندوب سے عدم ملاقات کے فیصلے، حالیہ نیویارک سفر کے دوران پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات نہ کرنے اور اسرائیل وزیراعظم نیتن یاہو سے سفارتی مشورے کے خلاف ملاقات کرنے کے مودی کے فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی سرکار خارجہ تعلقات کی نزاکتوں کو نظرانداز کررہی ہے اور ’من کی بات ‘پر چل پڑی ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ جنگ کا جنون اور سخت رویہ اختیار کرنے کی نامعقولیت کہیں برصغیر میں ایک اور جنگ کا پیش خیمہ نہ بن جائے، جس کے نتائج اس خطے کے لئے سابقہ مسلح جھڑپوں سے زیادہ شدید ہونے کا اندیشہ ہے۔

کرپشن کی پذیرائی
کماری جے للتا کے خلاف کرپشن کے الزامات عدالت میں طے ہوجانے اور سزا کے حکم کے بعد ان کے حق میں جس طرح سیاسی لیڈرآنسو بہارہے ہیں اورتمل عوام سینہ کوبی کررہے ہیں اس پر یوپی اے کے دور میں کرپشن کے خلاف مہم چلانے والا پوراسنگھ پریواراوراس کے معاون انا ہزارے اور اروند کیجریوال وغیرہ خاموش ہیں۔ بھاجپا نے اگرچہ کرپشن کے معاملے میں ’زیرو ٹالرنس‘(ہرگز برداشت نہ کرنے) کاوعدہ عوام سے کیا تھا مگر سزا کے حکم کے بعد اس نے جے للتا کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا حالانکہ ان سب کو کھل کر تمل عوا م کو یہ پیغام دینا چاہئے تھا کہ کرپشن میں ماخوذ لیڈر کی یہ حمایت کرپٹ سیاست دانوں کی حوصلہ افزائی اورکرپشن کے خلاف مہم کو کمزور کرتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں دولت کی پوجا کرنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ دولت کن راستوں سے آ رہی ہے؟یہ وہ ذہنی فساد ہے جس کی وجہ سے سیاست کے کھیل میں بدعنوان اورمجرمانہ ذہنیت کے افراد کی طاقت بڑھی ہے۔ عوام میں ان کی پذیرائی اورسیاسی، نیم سیاسی تنظیموں کی وہ روش جو جے للتا کے معاملے میں اختیار کی گئی ہے، نہایت لائق مذمت ہے۔غنیمت یہ ہے کہ عدلیہ اس معاملے میں سختی دکھا رہا ہے اسی لئے جے للتا جیل میں ہیں اوران کی ضمانت کی عرضی خارج ہوگئی ہے۔تاہم سیاسی ذرائع سے کرپٹ لیڈروں کو طاقت پہچانا کرپشن سے بھی زیادہ مہلک ہے ۔مگر ’نہ کھائیں گے، نہ کھانے دیں گے ‘ کا نعرہ لگانے والی مودی سرکار اس پر خاموش ہے۔ اچھا ہوتا کہ کاندھی جینتی کے موقع پر سڑکوں پر جھاڑو لیکر نکلنے کے ساتھ اس طرح کی ذہنیت پر بھی جھاڑو پھیرنے کا کام کیا جاتا۔

دواور مظلوم بری
دہلی ہائی کورٹ نے ایک کشمیری امین وانی اور ایک بنگالی لطف الرحمٰن کو دہشت گردی کے الزام سے بری کردیا ہے اور اسپیشل سیل نے ا ن کے خلاف جو شہادتیں پیش کی تھیں ان پرسوال اٹھائے ہیں۔

29سالہ وانی کو 4جنوری 2007کودہلی کے چاندنی چوک میں گرودوارہ سیس گنج سے اور30سالہ لطف الرحمٰن کواسی دوران نظام الدین ریلوے اسٹیشن سے گرفتار کیا تھا۔ پولیس نے وانی کے قبضہ سے کچھ رقم اور رحمٰن کے قبضہ سے ڈیڑھ کلودھماکہ خیز مادہ اور ٹائمر وغیرہ کی ضبطی دکھائی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ یوم جمہوریہ کے موقع پر گڑبڑی پھیلانے آئے تھے۔ 10مارچ 2010کو ایڈیشنل سشن جج مس نویدیتا انل شرما نے ان دونوں کو عمرقید کی سزاسنائی اور وکیل دفاع ایم ایس خان کی اس دلیل کو مستردکردیا تھا کہ پولیس کی شہادتوں میں تضاد ہے۔ 7؍اکتوبر کی خبر ہے کہ عمرقید کی سزاکے خلاف اپیل پر حکم سناتے ہوئے جسٹس سنجیوکھنہ اور جسٹس جی پی متھل کی دورکنی ہائی کورٹ بنچ نے سزا کا حکم منسوخ کردیا اور نشاندہی کی کہ ملزم رحمٰن کے قبضہ سے جو دھماکہ خیز مادہ مبینہ طور سے ضبط کیا گیا تھا وہ عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ۔ پولیس کی یہ دلیل قابل یقین نہیں کہ کیس پروپرٹی الماری میں آگ لگ جانے سے تباہ ہوگئی۔ عدالت نے کہا ہے کہ پولیس کے پاس آگ لگنے کی وجہ ، اس کے بجھانے کے عمل اور یہ کہ آگ کے باوجود دھماکہ نہ ہونے جیسے سوالات کا کوئی جواب نہیں۔ عدالت نے وکیل صفائی کے اس نکتہ کو وزن دیا کہ فورینسک جانچ کے لئے جو نمونہ بھیجا گیا وہ اس مادہ سے مختلف تھا جو برامد دکھایا گیاتھا۔ ملزمان کے خلاف دس گواہ پیش کئے گئے ،ان میں ایک بھی عام شہری نہیں تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ اگر کیس پراپرٹی جل کر تباہ ہوگئی تھی تو اس کی اطلاع ملزمان کو کیوں نہیں دی گئی؟ اس طرح دہلی پولیس کا یہ کیس بھی سابق کے کئی دوسرے کیسوں کی طرح فرضی قرار پایا اور ملزمان بری کردئے گئے۔

یہاں پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ پولیس کی اس کاروائی سے ملزمان پر دہشت گردی کا جو داغ لگا اور ان کی زندگی کے جو بیش قیمت چھ سال جیل میں برباد ہوئے ،ان پر بلاوجہ مقدمہ کا جو بار پڑا، اس کا ان کو کیا معاوضہ ملا اور خطاکار پولیس عملے کی کیا سرزنش ہوئی؟

ایک اہم بات یہ ہے کہ ان ملزمان کی گرفتاری اور اس کے بعد سیشن کورٹ سے سزا کی خبریں تو ٹی وی چینلز اور تقریبا سبھی قومی اخباروں میں شائع ہوئی تھیں مگر ہائی کورٹ سے بری ہوجانے کی خبر صرف انڈین ایکسپریس کے مقامی ضمیمہ میں ہی نظرآئی۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163526 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.