سو ہاوا میری بستی میرے لوگ
(Ghulam Ibn-e-Sultan, Jhang)
جاوید اختر چودھری:سو ہاوا میری بستی میرے لوگ،مہر بُک فاؤنڈیشن،لاس
اینجلس ،امریکہ،بار دوم مئی ۲۰۰۷۔تبصرہ نگار :غلام ابن سلطان
جاوید اختر چودھری کا شمار ان محب وطن پاکستانیوں میں ہوتا ہے جو یورپی
ممالک میں اپنی تہذیبی ،ثقافتی ،سماجی ،معاشرتی اور ملی اقدار و روایات کو
پروان چڑھانے میں ہمہ تن مصروف ہیں ۔ اردو شاعری اور نثر نگاری کو اپنی
تخلیقی فعالیت کے اعجاز عالمی ادب کے مقابل لانے کے سلسلے میں ان کی گراں
قدر خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔ اردو شاعری اور نثر میں ان کی تصانیف کی
اشاعت سے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ ہوا ہے۔ ان کا شعری مجموعہ ’’حصار،
ذات‘‘ اور دو افسانوی مجموعے ’’اِک فرصتِ گناہ‘‘اور ’’حرف ِ دعا‘‘ قارئینِ
ادب میں بہت مقبول ہوئے۔اپنی جنم بھومی سو ہاوا(جہلم۔پنجاب ،پاکستان)سے ٹوٹ
کر محبت کرنے والے اس زیرک تخلیق کار نے اپنی نئی تصنیف ’’سو ہاوا میری
بستی میرے لوگ‘‘میں اپنے جذبات و احساسات کو جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ
پیرایہء اظہار عطا کیا ہے وہ قاری کو ایک جہانِ تازہ کی سیر کرنے پر مائل
کرتا ہے۔اس زیرک تخلیق کار نے شاعری کے علاوہ اردو نثر کی جن اصناف میں
اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا ہے ان میں سفرنامہ،افسانہ نگاری، ترجمہ
نگاری ،یاد نگاری،سوانح نگاری ،تحقیق ،تاریخ ،ناول نگاری،انٹرویوز،ڈرامہ
نگاری اور تنقید قابلِ ذکر ہیں۔اس کتاب کی اشاعت سے سماجی علوم اور علم
بشریات سے جاوید اختر چودھری کی قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کی حقیقی
کیفیت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔اس کتاب کی تحریر کا ایک ایک لفظ قلب اور
روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُترتا چلا جاتا ہے اور تخلیق کار کے جذبوں کی
صداقت سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں کو بھی موم کر دیتی ہے۔تخلیق
کار نے وطن کی محبت کو ملکِ سلیمانؑ سے بہتر سمجھا ہے اور اس کے خیال میں
وطن کے سبزہ زاروں میں پائے جانے والے خار ِ مغیلاں بھی دیارِ غیر کے گلاب
و یاسمین ،سنبل و ریحان اور سرو و صنوبر سے کہیں بڑھ کر دل کش ہیں ۔یاد
نگاری کا ایک منفرد انداز ہے جو قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔
تین سو سینتیس صفحات اور پانچ ابواب پرمشتمل اس کتاب کا انتساب مصنف نے
اپنی والدہ کے نام کیا ہے جن کی عمر اب ستمبر دو ہزار چودہ میں سو سال ہو
چُکی ہے۔ یہ اﷲ کریم کا فضل ہے کہ والدہ کا سایہ ان کے سر پر سلامت ہے اور
وہ اپنی ضعیف والدہ کی خدمت کر کے اپنی دنیا اور آخرت سنوار نے میں مصروف
ہیں ۔اس کتاب کے تعارفی کلمات بھی مصنف نے خود تحریر کیے ہیں جن میں کتاب
کی تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے بعد کتاب
اور مصنف کے اسلوب کے بارے میں چھے وقیع مضامین شامل اشاعت ہیں۔یہ مضامین
قیصر تمکین،ڈاکٹر صفات احمد علوی،قمر علی عباسی،خالد خواجہ،سلطانہ مہر اور
فرخ صابری نے تحریر کیے ہیں۔ان مضامین کے مطالعہ سے فکر و نظر کے متعدد نئے
دریچے وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ان مضامین کاہر لفظ گنجینہء معانی کا طلسم ہے
جو حقائق کی گرہ کشائی کر کے قاری کی فکر و نظر کو مہمیز کرنے کا موثر
وسیلہ ہے ۔یہ مضامین قاری کو تاریخی حقائق اور ان سے وابستہ شخصیات کے
مطالعہء احوال کے جملہ اسرار و رموز سے آگاہ کرنے میں بے حد ممد و معاون
ہیں۔کتاب کے آخری صفحات میں ڈاکٹر قمر نواز کے انگریزی زبان میں کتاب او ر
اس کے مصنف کے بارے میں تاثرات کو شامل کیا گیا ہے۔ کتاب سے متعلق مواد کے
حصول اور معلومات و مآخذ تک رسائی کے لیے مصنف کی طرف سے مشاہیر کو جو سوال
نامہ اور مکاتیب ارسال کیے گئے وہ بھی آخر میں یک جا کر دئیے گئے ہیں۔ اس
کتاب میں متعدد مشاہیر کی رنگین تصاویر بھی شامل ہیں جنھیں دیکھ کر ایامِ
گزشتہ کی کتاب کے اوراق سامنے آ جاتے ہیں ۔مصنف کے ساتھ احمد ندیم
قاسمی،ڈاکٹر وزیر آغا، مشفق خواجہ،ڈاکٹر وحید قریشی،احمد بشیر ،اے ۔جی ۔جوش
اور منیر نیازی کی یاد گار تصاویر دیکھ کر آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں۔ ہماری
بستی کے ان یگانہء روزگار مکینوں نے ہم سے کتنی دور اپنی الگ بستیاں بسا لی
ہیں کہ اب یادِ رفتگاں پر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔کیسے کیسے عظیم لوگ راہِ
جہاں سے گزر گئے اب جن کے دیکھنے کو ہماری آنکھیں قیامت تک ترستی رہیں گی۔
جاوید اختر چودھری کے اسلوب میں جو شان ِ استغنا اور عجز ِہنر ہے وہ ان کی
انفرادیت کی دلیل ہے۔ جاوید اختر چودھری کی تحریریں قاری کے دل کی دھڑکن سے
ہم آہنگ ہو کر وجدانی کیفیت پیدا کرتی ہیں۔تخلیقی عمل اور اس کے پسِ پردہ
کار فرما لاشعوری محرکات پر کڑی نظر رکھنے والے اہلِ نظر کا خیال ہے کہ
تخلیقی عمل سکون قلب اور گہرے غور و خوض کا متقاضی ہوتا ہے۔ انھوں نے وسیع
مطالعہ ،گہرے غور و خوض اور تجزیاتی انداز کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا ہے
۔آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بعض نو آموز تخلیق کار کاتا اور لے
دوڑاکی روش اپنا رہے ہیں۔ یہ اندازِ فکر تخلیقِ ادب کے بجائے صحافت کے لیے
موزوں سمجھا جاتا ہے ۔نو آموز تخلیق کار جس انداز میں اپنے اشہبِ قلم کی
جولانیاں دکھانے پر کمر بستہ ہیں وہ تخلیقی عمل کے لیے کوئی اچھا شگون
نہیں۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں خوف ،دہشت ،جبر اور ہوس نے نوع انساں
کو جس انتشار کی بھینٹ چڑھا دیا ہے اس کا لرزہ خیز اعصاب شکن نتیجہ یہ نکلا
ہے کہ جذباتی اضمحلال،مجبوری ،بے بسی اور درماندگی کی جان لیوا کیفیت نے
افراد کو سرابوں کی بھینٹ چڑھا دیا ہے جہاں وہ مکمل انہدام کے قریب پہنچ
چکے ہیں اوراپنے ماضی سے ان کا تعلق عنقا ہونے لگاہے۔ ایک کہنہ مشق ادیب کی
حیثیت سے مصنف نے اپنے لیے ایک الگ راہِ سخن تلاش کی ہے جو آئینہ ء ایام
میں اپنی ادا دیکھ کرتفکرو تدبر اور صدقِ دل کے ساتھ غور کرنے پر آمادہ
کرتی ہے۔
اس کتاب میں جاوید اختر چودھری نے واضح کر دیا ہے کہ وطن محض سنگ و خشت کی
سر بہ فلک عمارات کا نام ہر گز نہیں بل کہ یہ تو اہل وطن کے جسم اور روح سے
عبارت ایک جذبے کا نام ہے ۔اپنی تحریر کے ایک ایک لفظ کو انھوں نے اس جذبے
کی تکمیل و تسکین کا وسیلہ بنایا ہے۔محبت و چاہت کا یہ زم زم سدا رواں دواں
رکھنا ان کا مطمح ِ نظر ہے۔حب الوطنی کے تمام رنگ اور تہذیبی و ثقافتی
اقدار و روایات کے جملہ آہنگ جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ ان کے اسلوب میں
جلوہ گر ہیں وہ قاری کے لیے پیامِ نو بہار کی نوید ہیں۔ مصنف نے سوہاوا کے
ان باشندوں کا ذکر بڑی عقیدت کے ساتھ کیا ہے جن کی زندگی شمع کی صورت بسر
ہوئی ۔ سفاک ظلمتوں کوکافور کرنے میں ان شخصیات کا کردار ہمیشہ یاد رکھا
جائے گا ۔قاری چشم تصور سے سوہاوا کی اُس وادیء جمیل کے در وبام اور مرغزار
دیکھ لیتا ہے جس کے حضور مصنف نے نہایت ادب سے اپنے تحسینی کلمات پیش کیے
ہیں۔مصنف نے اخلاق اور اخلاص سے کام لیتے ہوئے اپنی جنم بھومی کے بارے میں
رنگ،خوشبو اور حسن و خوبی کے جن استعاروں سے اپنی تحریرکو مزین کیا ہے اس
سے ایک دھنک ر نگ منظر نامہ سامنے آتا ہے۔اسلوب کی دل آویزی اور شیرینی کا
جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر حنظل کا بھی بیان ہو تو
لفظوں کا نشتر لگتے ہی اس سے شہد ٹپکنے لگتا ہے۔ان کی تخلیقی فعالیت جہاں
ان کے موثر تخلیقی وجود کا اثبات کرتی ہے وہاں یہ قاری کے لیے سکونِ قلب ،مسرت
و شادمانی اور ذہنی سکون کے لا زوال جذبات کو بھی نمو بخشتی ہے۔ |
|