نرم مزاجی سے دل جیت لیجئے
(Jaleel Ahmed, Hyderebad)
ہاں اگر شوہر بیوی میں مثبت
تبدیلیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے اور بیوی
کی بھی یہی خواہش ہے اور دونوں آہستہ آہستہ اور نرم روی کے ساتھ اس مقصد کی
طرف بڑھ رہے ہیں تو یہ دوسری بات ہے بلکہ اسے ہم ایک مثبت رویہ کہہ سکتے
ہیں۔
برسوں اور صدیوں سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ یہ
بالکل درست ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہمیں چونکہ آگے کے حالات
نہیں معلوم ہوتے اسی لیے ہم دھوکہ کھاجاتے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے درمیان
ہونے والے اختلافات اس دھوکے کی کہانی ہے۔
ذہنی ہم آہنگی‘ ماحول اور مزاج کا ایک ہونا کامیاب شادی شدہ زندگی کیلئے
بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر میں حرم کو اچھی طرح جانتی تھی وہ ایک شہری
لڑکی تھی‘ ہر لحاظ سے شہری‘ جدید خیالات‘ جدید لباس اور جدید طرز زندگی
گزارنے والی… اس کا لائف سٹائل بہت ماڈرن تھا۔
مجھے خود پر اعتماد ہے:ہم لوگوں نے جب خبر سنی کہ حرم کی شادی ایک چھوٹے سے
شہر میں رہنے والے ایک لڑکے سے ہورہی ہے تو ہم سب حیران رہ گئے تھے بلکہ
ہمیں پریشانی بھی لاحق ہوگئی اس سے پتہ چل گیا تھا کہ حرم کی شادی اس کی
مرضی سے نہیں ہورہی ہے اور دوسری سچائی یہ تھی کہ اس چھوٹے سے شہر میں مقیم
وہ خاندان اور ان کا رسم و رواج بالکل الگ ہوگا کیا حرم ان کے ساتھ نباہ
کرسکتی تھی۔ہم سب دوستوں نے حرم کے گھر دھاوا بول دیا۔ وہاں پتہ چلا کہ یہ
رشتہ حرم کی دادی نے لگایا تھا۔ میں نے حرم سے کہا: حرم! گھر والوں کی مرضی
سے شادی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اصل بات
یہ ہے کہ اس نے ایک چھوٹے سے شہر میں پرورش پائی ہے جبکہ تم کراچی کی ہو۔
اس کاگھرانہ کے خیالات و رسم ورواج اور ہیں جبکہ تم بالکل ماڈرن ہو تو پھر
کام کیسے چلے گا؟؟؟’’بالکل چل جائے گا‘‘ وہ مسکرادی‘ مجھے اپنے آپ پر
اعتماد ہے۔ میں اسے اپنے سانچے میں ڈھال کر اسے بھی ماڈرن بنادوں گی‘‘میں
اس کی خوداعتمادی پر مسکرا دی۔
ساری خود اعتمادی ہوا ہوگئی:اس میں کوئی شک نہیں کہ حرم اچھی خاصی خوبصورت‘
سمارٹ اور خوش لباس لڑکی ہے اسے باتیںکرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ وہ بہت آسانی
سے دوسروںکو اپنا ہم خیال بنالیا کرتی تھی کیونکہ اس میں کشش بھی بلا کی
تھی۔ میں نے تو گھاگ قسم کے دکانداروں کو بھی اس کے آگے بے بس ہوتے ہوئے
دیکھا ہے۔ ایک بار میں نے کسی دکان سے کوئی چیز خریدی تھی۔ وہ اچھی نہیں
نکلی‘ حرم نے مجھ سے وہ پیکٹ لیا اور اس وقت بڑے دھڑلے سے ایک دکان میں
پہنچ کر اس نے وہی پیکٹ اُس دکاندار کے حوالے کردیا کہ اس نے وہیں سے خریدا
تھا۔ دکاندار بے چارہ بھی اس کی بات کو رد نہیں کرسکا تھا۔ اس لیے اس کا
اعتماد بجا تھا کہ وہ اپنے شوہر اور اس کے گھر والوں کو بھی اپنی راہ پرلے
آئے گی۔لیکن…! ایسا نہیں ہوسکا۔ حرم کی شادی ہوئی اور شادی کے چند ہی دنوں
بعد دونوں میں اختلافات نے جنم لینا شروع کردیا اور جب شادی کو چھ سال
ہوگئے تو دونوں کے درمیان علیحدگی ہوگئی اس وقت ان کا ایک چار سال کا بیٹا
بھی تھا۔
ہم نے جب حرم سے معلوم کرنے کی کوشش کی تو اس نے آنسوؤں کے درمیان بتایا
’’وہ تو انتہائی ضدی اور جاہل نکلا‘ بلادرجے کا دقیانوسی۔ میں نے اپنی سی
پوری کوشش کرکے دیکھ لی۔ لیکن وہ کسی طرح بدلنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔‘‘
اور دوسری طرف اس کے شوہر کا مؤقف تھا۔ ’’اس نے تو ہماری زندگی عذاب کردی
تھی ہر وقت ہمیں برا بھلا کہتی رہتی۔ ہمارے پورے خاندان پر تنقید کرتی
رہتی۔ اس کا ایسا رویہ تھا جیسے پوری دنیا میں ایک بس وہی عقلمند ہے۔ باقی
ہم سب بے وقوف ہیں۔‘‘اختلافات کی جب مزید وجوہات معلوم ہوتی رہیں تو پتہ
چلا کہ جہاں دوسرے عوامل تھے وہاں حرم کی یہ کوشش بھی تھی کہ وہ اپنے شوہر
کو بدل کر رکھ دے گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور اس کا سارا اعتماد اور ساری
خوداعتمادی ہوا ہوگئی۔
کامیابی کا راز صرف خاموشی:دوسری طرف میری ایک اور جاننے والی تھی۔ ثمینہ
نام تھا اس کا۔ اس نے بھی عجیب لاپرواہ زندگی گزاری تھی۔ وہ خوبصورتی اور
سمارٹنس میں حرم کی طرح نہیں تھی۔ اپنی تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اچھی
خاصی کاہل واقع ہوئی تھی۔ وہ مجھ سے کہا کرتی۔ ’’یار میں نے اپنی زندگی کا
ایک اصول بنارکھا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ کم سے کم کام کرو اور زیادہ سے
زیادہ سوئے رہو۔‘‘ اب ایسی عورت کو تو اس کا شوہر بہت پہلے چھوڑ بھاگتا
لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دونوں بہت مطمئن اور پرسکون زندگی گزارتے
رہے۔میں نے جب اس سے اس کامیاب ازدواجی زندگی کا راز دریافت کیا تو وہ ہنس
پڑی ’’مت پوچھو‘ مجھے کیا کیا حکمت عملی اختیار کرنی پڑی ہے‘‘
اس نے کہا ’’لیکن میں نے شادی کے پہلے ہی دن اپنے شوہر کو اپنی مرضی کا
تابع کرلیا تھا‘‘ ’’آخر کس طرح… وہی تو پوچھ رہی ہوں‘‘ ’’اپنی خاموشی کے
ذریعے…‘‘
اب دونوں کے حالات پرغور کریں۔ ایک طرف حرم ہے اور دوسری طرف ثمینہ… حرم
خوبصورت اور ذہین ہے‘ سمارٹ ہے‘ لیکن وہ اپنے ارادے کی قوت کے باوجود اپنے
شوہر کو تبدیل کرنے میں ناکام رہی‘ جب کہ ثمینہ نے اس سے کم صورت اور کاہل
ہونے کے باوجود یہ مرحلہ سر کرنے میں کامیاب ہوگئی۔اس کامطلب یہ ہوا کہ
لڑکیوں کو سسرال میں تبدیلی کی خواہش نہیں کرنی چاہیے یعنی جیسا ہے بس ویسا
ہی ہے۔ سسرال والے اگر دقیانوسی اور جاہل ہیں تو ان کو اسی طرح رہنے دیا
جائے یا پھر ساس اگر ناانصافی کرتی ہے تو اس کو چپ چاپ برداشت کرتے رہا
جائے۔
اس سوال کا جواب اس بات میں پوشیدہ ہے کہ آخر وہ دونوں ایک دوسرے کو تبدیل
کیوں کرنا چاہتی ہیں۔ شوہر اپنی بیوی کو اور بیوی اپنے شوہر کو بدلنا کیوں
چاہتی ہے۔
ہاں اگر شوہر بیوی میں مثبت تبدیلیاں دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کو ترقی کرتا ہوا
دیکھنا چاہتا ہے اور بیوی کی بھی یہی خواہش ہے اور دونوں آہستہ آہستہ اور
نرم روی کے ساتھ اس مقصد کی طرف بڑھ رہے ہیں تو یہ دوسری بات ہے بلکہ اسے
ہم ایک مثبت رویہ کہہ سکتے ہیں۔کامیاب شادی شدہ لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنی
شریک حیات کی پوشیدہ خوبیوں کا سراغ لگا کر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں
اور ان خوبیوں کو نشوونما دیتے ہیں انہیں پروان چڑھاتے ہیں۔
بشکریہ عبقری |
|