پیپلز پارٹی کے مدار ا لمہام جنابِ آصف زرداری نے پنجاب
فتح کرنے کے شوق میں بحریہ ٹاؤن لاہور کے’’بَم پروف‘‘ محل میں اپنا قیام
بڑھا دیا ہے۔لگتا ہے کہ یہ قیام خاصا طویل ہوگا کیونکہ اب تو اُنہوں نے
اپنے کروڑوں کی ملکیت کے بیس گھوڑے بھی محل میں منگوا لیے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ
اُنہوں نے انہی گھوڑوں پر بیٹھ کر پنجاب فتح کرنے کا منصوبہ بنا
رکھاہو۔آجکل وہ اپنے محل میں بیٹھ کرنئی نئی ’’شُرلیاں‘‘چھوڑ کر مزہ لیتے
رہتے ہیں اور’’صاف چھُپتے بھی نہیں ،سامنے آتے بھی نہیں‘‘کے مصداق کبھی عشقِ
نواز میں’’گوڈے گوڈے‘‘ دھنسے نظر آتے ہیں تو کبھی طنز کے تیر برساتے ۔انداز
اُن کا’’محبوبانہ‘‘ہی ہوتا ہے اِس لیے نوازلیگ صرف کَسمسا اور تِلملا کے رہ
جاتی ہے ۔اُنہوں نے فرمایا کہ پیپلز پارٹی اورپنجاب لازم و ملزوم ہیں اور
وقت آنے پر وہ ثابت کر دیں گے کہ پیپلزپارٹی پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی
جماعت ہے۔چومکھی لڑائی کے ماہر جنابِ زرداری کی یہ ساری ’’شرارتیں‘‘ محض
اِس لیے ہیں کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ نوازلیگ فی الحال پلٹ کر جواب دینے کے
قابل نہیں لیکن حیران کُن بات تو یہ ہے کہ اُنہوں نے بھی الیکشن 2013ء کو
’’آر اوز‘‘کا الیکشن قرار دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ’’اگر میں اُس وقت کہہ
دیتا کہ میں حلف نہیں لیتااور عمران خاں سمیت دوسری جماعتیں بھی ہمارے ساتھ
آجاتیں تو اِس سے ملک میں بحران پیداہو جاتا ۔اسی لیے ہم نے ملک ،قوم اور
جمہوریت کے وسیع تر مفاد میں ایسا نہیں کیا‘‘۔زرداری صاحب کے اِس بیان کے
بعد تو بے ساختہ لبوں پہ آجاتا ہے کہ
لو وہ بھی کہتے ہیں کہ ’’یہ بے ننگ و نام ہے‘‘
یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں
نوازلیگ کو اگر پتہ ہوتا کہ بالآخر الزام اُسی پہ آنا ہے تو وہ نگران
حکومتوں پر ہی ’’پھَڈا‘‘ڈال کے بیٹھ رہتی لیکن اُس نے ایسا نہیں کیا۔ویسے
بھی لوگوں کی یاد داشت اب اتنی بھی کمزور نہیں کہ اُنہیں یہ تک یاد نہ ہو
کہ ساری نگران حکومتیں پیپلزپارٹی نے بنائیں۔سندھ،خیبرپختونخوا اور
بلوچستان کے الیکشن کمیشنر پیپلز پارٹی نے مقرر کیے ۔سارے گورنر پیپلز
پارٹی کے مقرر کردہ اور خود زررداری صاحب ایوانِ صدر میں براجمان۔اگر اتنی
طاقت رکھنے کے باوجود بھی واقعی دھاندلی ہو ئی اور پیپلزپارٹی کے
ساتھ’’ہَتھ‘‘ ہوگیا تو پھر تو اُس کی نااہلی روزِروشن کی طرح عیاں ہے اور
اُسے حکمرانی کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔آخر اکابرینِ PPP بلاول زرداری کی طرح
یہ تسلیم کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں کہ’’جیالے‘‘اُن سے مایوس ہو چکے تھے جس
کی سزا بہرحال پیپلزپارٹی ہی کو ملنی تھی۔اِس میں کوئی شک نہیں کہ
پیپلزپارٹی کی جڑیں عوام میں اب بھی ہیں لیکن اب عوامی شعور بھی 1971ء جیسا
نہیں ۔الیکٹرانک میڈیا کی بدولت یہ شعوراتنا پختہ ہو چکا ہے کہ لوگ ووٹ
ڈالنے سے قبل تھوڑا بہت سوچنے لگے ہیں۔اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اگر آج
بھی پیپلزپارٹی کو بھٹو مرحوم یا بینظیر شہید جیسا کوئی لیڈر میسرآجائے تو
وہ پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی بن سکتی ہے لیکن’’ایسا کہاں سے لاؤں کہ تُجھ
سا کہیں جسے ‘‘۔
جنابِ آصف زرداری نے فرمایا’’ تحریکِ انصاف اور نوازلیگ دونوں کی سوچ ایک
جیسی ہے میں نوازلیگ اور تحریکِ انصاف کی لڑائی کا مزہ لے رہا ہوں ،کارکُن
بھی مزہ لیں‘‘۔ہمارے لیے تو یہ ہرگز انکشاف نہیں کیونکہ ہم تو پہلے ہی
جانتے تھے کہ پیپلزپارٹی نوازلیگ کی مدد نہیں بلکہ اپنی بقاء کی جنگ لڑرہی
ہے اور اُسے ادراک ہو چکا ہے کہ تحریکِ انصاف اپنی تما ترحماقتوں کے
باوجودپیپلزپارٹی سے دو قدم آگے ہی ہے اوراگلی باری اگر نوازلیگ کی نہیں
ہوتی تو پھر تحریکِ انصاف کی ہوگی ،پیپلزپارٹی کی نہیں۔اسی لیے پیپلزپارٹی
ایک تیر سے دو شکار کرنے کے چکر میں ہے۔ وجہ خواہ جلسوں کو’’میوزیکل
کنسرٹ‘‘میں بدلنا ہی کیوں نہ ہو لیکن یہ توبہرحال تسلیم کرنا پڑے گا کہ
تحریکِ انصاف کو بندے اکٹھے کرنے کا فَن آگیا ہے۔ویسے بھی تحریک کے پاس شیخ
رشید جیسے’’جوکر‘موجود ہیں جو گاہے بگاہے اپنے فَن کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں
۔ملتان میں شیخ صاحب کا ’’سواگت‘‘انڈوں اور جوتوں سے ہوا۔وہ تو شیخ صاحب کی
خوش قسمتی کہ ہوٹل کی لابی کے شیشے آڑے آگئے وگرنہ نوازلیگیئے تو شیخ صاحب
کا ’’جھٹکا‘‘کر ہی دیتے۔دروغ بَر گردنِ راوی ،لابی کے اندر بیٹھے شیخ صاحب
یہ کہتے پائے گئے کہ نوازلیگ جب بھی کرتی ہے ادھورے کام ہی کرتی ہے ،اگر
انڈے پھینکنے ہی تھے تو ساتھ ’’سلائس‘‘بھی پھینک دیتے۔اُنہوں نے پریس
کانفرنس میں اِس بات کا بھی اعتراف کر لیا کہ قُربانی سے پہلے قُربانی نہیں
ہو سکی لیکن ساتھ ہی جواز یہ گھڑا کہ اُن کا بکرا ’’داغی‘‘ہو گیا ۔اُس کی
ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ،دانت جھڑ گئے اور دُم غائب ہو گئی ،اِس لیے وہ قربانی کے
قابل نہ رہا ۔اُنہں نے یہ بھی فرمایا کہ اب قربانی تو ہو نہیں سکتی اِس لیے
’’جھٹکا‘‘ ہوگا۔ غالباََشیخ صاحب کا اشارہ محترم جاوید ہاشمی کی طرف تھا
جنہوں نے پانچویں بار بغاوت کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کے سارے پول کھول
دیئے۔ہم کہتے ہیں کہ چلو باغی تو داغی ہو گیا لیکن شیخ صاحب تو تاحال صحیح
سلامت ہیں ۔اُن کے دانت جھڑے ،نہ دُم کَٹی اور نہ ہی وہ لنگڑے قرار دیئے
گئے اِس لیے اگر وہ واقعی عشقِ عمران سے سرشار ہیں تواُن کی قُربانی نہ
سہی’’جھٹکا‘‘توکیا ہی جاسکتا ہے تاکہ اُبھرتی ہوئی تحریکِ انصاف کو
’’خون‘‘میسر آسکے۔ مولاناقادری یہ فتویٰ تو دے ہی دیں گے کہ نظریۂ ضرورت کے
تحت’’جھٹکے‘‘کا خون بھی قابلِ قبول ہوجاتا ہے۔اِس سے پہلے اسی نظریۂ ضرورت
کو مدِنظر رکھتے ہوئے مولانا صاحب عید کی نماز کی امامت کر چکے ہیں حالانکہ
شریعت کا واضح فیصلہ ہے کہ کوئی معذور شخص امامت نہیں کروا سکتا۔اب ہمارے
علمائے کرام ’’ایویں ای رَولا‘‘ڈالتے پھر رہے ہیں کہ ڈی چوک میں مولانا
قادری کی امامت میں ہونے والی نماز غیرشرعی ہے کیونکہ مولانا نے کُرسی پر
بیٹھ کر نماز کی امامت کی۔ایک تو ہمارے یہ’’ مُلّا‘‘بہت رجعت پسند ہیں۔وہ
اپنے ’’حجروں‘‘سے نکلنا پسند ہی نہیں کرتے۔اگر وہ باہر نکلتے تو اُنہیں پتہ
چلتاکہ کینیڈا میں شرعی امامت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی مولانانے ڈی چوک میں
کی۔بھئی اگر بقول وزیرِاعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ شراب پی کر مرنے والے
بھی شہید ہوتے ہیں تو پھر کُرسی پر بیٹھ کر امامت بھی کروائی جا سکتی ہے
اور شیخ صاحب کا ’’جھٹکا‘‘بھی ’’شہادت‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے لیکن ہمیں یقین
ہے کہ شیخ صاحب ایسا ہرگز نہیں کریں گے کیونکہ
ہیں کواکب کچھ ،نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا ، یہ بازیگر کھُلا
حافظ حسین احمد کے خیال میں تو بیگانی شادی میں ’’شیدا‘‘دیوانہ ہے لیکن ہم
سمجھتے ہیں کہ ’’شیدا‘‘عمران خاں سے اپنی بے عزتی کا بدلہ چکا رہا ہے۔ایک
بار خاں صاحب نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا تھا کہ وہ شیخ رشید کو اپنا
’’چپڑاسی‘‘بھی رکھنے کو تیارنہیں ۔شیخ صاحب نے خاں صاحب کا یہ طنزیہ جملہ
اپنے’’پَلّے‘‘باندھ لیا اور لگے مناسب وقت کا انتظار کرنے ۔جونہی اُنہیں
موقع ملا،اُنہوں نے خاں صاحب کو ’’پھَڑکا‘‘کے رکھ دیالیکن شیخ صاحب کی
’’شیخیاں‘‘دیکھیئے کہ وہ اب بھی خاں صاحب کے دِل کے بہت قریب ہیں۔بہرحال
شیخ رشید جانیں یا عمران خاں’’سانوں کی‘‘۔ |