فیس بک پر ممتاز عسکری دانشور جنرل (ر) حمید گل کے حوالہ
سے ایک پوسٹ بہت زیادہ شیئر ہو رہی ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ انڈیا پاکستان
پر ممبئی حملوں کی الزام تراشی کرتا ہے‘ فرض کیا اس کا یہ الزام درست ہے تو
پھر اسے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر دس نوجوان بھارت کے ساتھ یہ کچھ کر
سکتے ہیں تو دس ہزار نوجوان اگر اس پر حملہ آور ہو جائیں تو پھر اس کا حشر
کیاہو گا‘ اس لئے وہ پاکستان کے خلاف جارحیت سے باز رہے۔ میں نے فیس بک پر
کسی نوجوان کی اپ لوڈکردہ یہ پوسٹ پڑھی تو مجھے یہ بات بہت پسند آئی۔ حقیقت
یہ ہے کہ وہ دس نوجوان معلوم نہیں کون تھے؟اور کس ریاست سے تعلق رکھتے تھے؟
جو بھارتی مظالم سے تنگ آکربلڈنگوں میں گھس گئے اور تین دن تک بھارت کی
’’بہادر افواج‘‘ ان سے قبضہ چھڑانے میں کامیاب نہیں ہو سکیں لیکن دھمکیاں
اور گیدڑ بھبھکیاں ایسے لگائی جاتی ہیں جیسے پوری دنیا میں کوئی ان کا
مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف بھارتی
فوج نے کنٹرول لائن پر غیر اعلانیہ جنگ مسلط کر رکھی ہے ۔ پاکستان کے ساتھ
ملحقہ بارڈر پرکوئی گاؤں ایسا نہیں ہے جو اس کی جارحیت سے متاثر نہ ہوا ہو
تو دوسری طرف نریندر مودی سمیت اس کے وزراء اور جماعتیں پاکستان کے خلاف
زہر اگل رہی ہیں۔ بھارتی میڈیا کی طرف سے کہاجارہا ہے کہ مودی سرکار نے فوج
کو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ وہ کنٹرول لائن پر ہونے والی کاروائی کابھرپور
جواب دیں یعنی دوسرے لفظوں میں جیسے چاہیں پاکستانی علاقوں میں فائرنگ اور
گولہ باری کریں۔ بھارتی فورسز کے سربراہان ، وزیر دفاع اور دیگر اداروں نے
بھی پاکستان پر دراندازی جیسے الزامات کی بوچھاڑ کر رکھی ہے۔یہ سب کچھ دیکھ
کر پتہ چلتا ہے کہ بھارت جان بوجھ کر حالات خراب کر رہا ہے اور کسی طور
کنٹرول لائن پر امن نہیں چاہتا ۔ نریندر مودی کو دورہ امریکہ کے دوران جس
طرح پذیرائی دی گئی اور پھر واپسی پر ایک طرف انڈیا نے مشرقی بارڈر پر محاذ
کھول دیا۔ دن رات فائرنگ کر کے پاکستانیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا تو
دوسری جانب امریکہ نے وزیرستان میں ڈرون حملے کر کے شہریوں کو خون میں
نہلانا شروع کر دیا۔ اس سے یہ بات کھل کر واضح ہو گئی ہے کہ مودی کے دورہ
امریکہ کے دوران دونوں ملکوں کے مابین جو معاملات طے پائے ہیں یہ سب کچھ
اسی ملی بھگت کا نتیجہ ہے۔ بھارت کو امریکہ کی پوری شہ حاصل ہے ۔ انکل سام
اور اس کے اتحادی خطہ سے نکلنے سے قبل انڈیا کو اس خطہ میں بڑا کردار دینا
چاہتے ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوج کی جگہ انڈین فوج کو لاکر بٹھایا
جارہا ہے وگرنہ جس دس ہزار فوج کے وہاں رکھنے کا اعلان کیاجارہا ہے اس کی
کیا حیثیت ہے؟لیکن یہ بات بہرحال ایک زندہ حقیقت ہے کہ جب اتحادی ممالک کی
اتنی بڑی فوجیں افغانوں کا مقابلہ نہیں کر سکیں توامریکہ کی دس ہزار فوج یا
بھارتی فورسز کے اہلکار وہاں کیاکر سکتے ہیں؟اگر یہ کہاجائے کہ سب سازشیں
اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے کی جارہی ہیں تو غلط نہیں ہو گا۔بھارت و
امریکہ مختلف طریقوں سے جارحیت کا ارتکاب کر کے پاکستان کو دباؤ میں لانا
چاہتے ہیں۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ پاکستانی فوج جو اس وقت ضرب عضب آپریشن
میں مصروف ہے اسے اس طرح الجھا دیا جائے کہ اس کی توجہ صحیح معنوں میں اپنے
اہداف کی طرف مبذول نہ رہ سکے مگر ان کی یہ سازشیں ان شاء اﷲ اب کامیاب
نہیں ہوں گی۔ حالات اب بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ پاکستان اﷲ کے فضل و کرم سے
ایک ایٹمی صلاحیت رکھنے والا ملک ہے ۔ اب وہ پچھلی جنگوں والا ماحول نہیں
رہا۔ نئی نسل نے کشمیر، فلسطین اوراراکان برمامیں ہونے والا ظلم نہ صرف
اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے بلکہ افغانستان و عراق میں جہاد کے نتیجہ میں
امریکہ اور روس جیسی قوتوں کو بکھرتے بھی دیکھا ہے جس پر ان کے دل و دماغ
میں غاصب ممالک کے خلاف نفرت و انتقام اور جذبہ جہاد کوٹ کوٹ کر بھر چکا
ہے۔اس لئے اگر بھارت نے پاکستان کے خلاف کسی ایڈونچر کی کوشش کی تو پھر یہ
جنگ مختلف نوعیت کی ہو گی۔پاکستانی قوم کا بچہ بچہ چلتا پھرتا فدائی ہے جو
اسلام و پاکستان کے دفا ع کیلئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہے۔ خاص
طور پر بھارت کیلئے تو اس ملک کا ہر نوجوان کسی ایٹم بم سے کم نہیں ہے
جوافواج پاکستان کے ساتھ مل کر اپنے ازلی دشمن کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے
تن من دھن کی بازی لگانے کیلئے نہ صرف تیار بلکہ انتظار میں ہے۔
کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت اور ڈرون حملوں کے حوالہ سے اب تک حکومت نے
جو خاموشی اختیار کئے رکھی پوری قوم میں اس حوالہ سے بہت زیادہ بے چینی
پائی جاتی ہے۔ جمعہ کو وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کی
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے جس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز ، آرمی
چیف سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہان اور دفاع و سلامتی سے متعلق اعلیٰ
حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ خطہ
میں بھارتی تھانیداری قبول نہیں اس کی کسی قسم کی مہم جوئی کا پوری قوت سے
جواب دیا جائے گا اور پاکستان کی بہادر افواج دشمن کے دانت کھٹے کرنے کیلئے
ہر وقت تیار ہیں۔ کمیٹی کی طرف سے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ
نواز شریف کی طرف سے مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت اور مذاکراتی عمل
کی بحالی کیلئے کوششیں اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ پاکستان بھارت کے ساتھ
تعلقات کو معمول پر لانے میں مخلص ہے تاہم بھارت کی جانب سے پاکستان کے
خلوص کا اس جذبہ سے جواب نہیں دیا گیا۔ خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات اچانک
منسوخ کر دینا اور مذاکرات کی بحالی سے انکار تعلقات کو معمول پر لانے کے
سلسلہ میں ہماری کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔کمیٹی نے خبردار کیا کہ الزام
تراشیوں اور پوائنٹ سکورنگ سے اجتناب کرتے ہوئے فائربندی کے معاہدے پر عمل
درآمد کیاجائے وگرنہ مزید کشیدگی علاقائی امن کیلئے حالات پر برے اثرات
مرتب کرے گی۔ قومی سلامتی کمیٹی میں کی گئی سب باتیں درست ہیں مگر ہمیں
بھارت کے ماضی کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے ۔وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کی
بحالی اور مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔وہ افغانستان میں دہشت گردوں کو
تربیت دیکر پاکستان داخل کررہا ہے ۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پی کے و دیگر
علاقوں میں دہشت گردی و تخریب کاری کو پروان چڑھایاجارہا ہے اور پاکستانی
دریاؤں پر غیر قانونی ڈیم بنا کر وطن عزیز کو سیلاب کی صورتحال سے دوچار
کیاجارہا ہے۔اس کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی
کے بعد وہ باقی ماندہ پاکستان کو بھی سخت نقصانات سے دوچار کرنا چاہتا ہے۔
آپ جتنا مذاکرات کی بحالی اور یکطرفہ دوستی پروان چڑھانے کی کوششیں کریں گے
وہ اسی قدر سر پر سوار ہو گا۔ضرورت ا س امر کی ہے کہ پاکستانی سفارتی سطح
پر متحرک ہو کربھارتی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرے۔جماعۃالدعوۃ
کے سربراہ حافظ محمد سعید کا یہ مطالبہ بھی درست ہے کہ وزیر اعظم اے پی سی
بلا کر تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیں اور متفقہ حکمت عملی
ترتیب دیتے ہوئے ملک میں اتحادویکجہتی کی فضا پیدا کی جائے۔اس وقت سب سے
زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر قسم کے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے قوم
کوملک کے دفاع کیلئے متحد و بیدارکیاجائے۔ جب قوم تیار ہوتی ہے تو پھر دشمن
کو 1965ء کی طرح منہ کی کھانا پڑتی ہے۔ ہم نے اپنی جنگ خودلڑنی اور قدموں
پر کھڑاہونا ہے۔ حکومت، فوج اور عوام کو دشمن کے مقابلہ کیلئے سیسہ پلائی
دیوار بن کر اپنا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔اس خطہ میں امن کی مستقل بحالی
کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل بھی بہت ضروری ہے۔جب تک شہ رگ کشمیر دشمن کے قبضہ
میں ہے وہ آبی جارحیت اور پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں سے با ز
نہیں آئے گا۔ اس حوالہ سے بھی جرأتمندانہ فیصلے کرنابہت ضروری ہے۔ |