ملالہ یوسفزئی کو نوبل انعام دیا گیا تب سے لیکر ابھی تک
لبرلز کی زبانیں ملالہ کے گن گا رہی ہیں۔
لبرل اس نوبل انعام کو پاکستان کا نوبل انعام تصور کررہے ہیں لیکن میرے
جیسے تاریخ کے ایک ادنیٰ سے طالب علم کے لیے یہ نوبل انعام ملالہ کی اسلام
دشمنی پر یورپ کی مہر تثبیت سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ اس لیے کہ مجھے نوبل
انعام کی فہرست میں ایک بھی سچا مسلمان نہیں ملا۔
جس نوبل انعام کی لائن میں ملالہ یوسفزئی موجود ہے مجھے اسی لائن میں
اسرائیل کا فلسطینی مسلمانوں کا قاتل وزیراعظم شمعون پیریز بھی نظر آتا ہے۔
جس نوبل پرائز پر لبرلز خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اس نوبل پرائز میں
سرفہرست وہ شخصیات ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسلام اورمسلمانوں کے خون پر تالیاں
بجائیں۔
میں ملالہ کے نوبل پرائز پر کیسے فخر سکتا ہوں جب میں دیکھتا ہوں کہ ملالہ
اس شخص کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کے کھڑی ہے جسے دنیا بھر کے مسلمان
علماء
دارلعلوم دیوبند سے لیکر جامعه الازھر تک
جامعہ الازھر سے لیکر حرمیں شریفین تک
ملعون قرار دے چکے ہیں۔ یعنی سلمان رشدی۔
اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ ملالہ نے اپنی کتاب "آئی ایم ملالہ" میں جس
شخص کا سب سے پہلے دفاع کیا وہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم۔ امہات
المؤمنین۔ اور صحابہ کرام کے خلاف غلیظ بکواسات کرنے والا۔
ملعون سلمان رشدی ہے۔
ملالہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر تیس پر لکھتی ہے کہ پاکستان میں سلمان رشدی
کی کتاب کے خلاف سب پہلے اس مولوی نے مضامین لکھے جو ایجنسیوں کے نزدیک
تھا۔
ملالہ لکھتی ہے کہ آزادی اظہار کے تحت رشدی کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ جو
چاہے لکھے۔
کیا دنیا کا کوئی بھی مسلمان اس طرح کی آزادی اظہار کو تسلیم کرسکتا ہے
؟؟؟؟؟
مجھے لبرلز یہ بات سمجھا دیں کہ ملالہ کو پاکستانی مانتے ہوئے میں کیسے
تسلیم کرلوں کہ یہ ایوارڈ پاکستان کا ایوارڈ ہے جبکہ ملالہ انتہائی فخر کے
ساتھ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر اکتالیس پر لکھتی ہے۔
کہ پاکستان کے پچاسویں یوم آزادی پر اس کے والد اور اسکے دوستوں نے اپنے
بازؤوں پر سیاہ پٹیاں باندھی تھیں اور اس کا والد کہتا تھا کہ آج کہ دن
ہمیں غلام بنایا گیا آزادی نہیں ملی۔
چودہ اگست کو ڈھولک کی تھاپ پر ناچنے والے مجھے بتائیں کہ کیا وہ ملالہ کی
اس بات پر اتفاق کرتے ہیں؟؟؟؟؟؟
اگر نہیں تو ملالہ کا ایوارڈ کس طرح پاکستان کا ایوارڈ بن گیا؟؟؟؟؟؟
ملالہ کے بقول پاکستان اسلامی ملک نہیں بلکہ سیکولر ملک ہے اسے اسلامی ضیاء
الحق نے آکر بنانے کی کوشش کی؟؟؟؟
ملالہ نے اپنی کتاب میں جس حقارت کے ساتھ امیر المؤمنیں ملا محمد عمر مجاہد
کا تذکرہ کیا میں ان الفاظ کو یہاں نقل نہیں کرسکتا۔
مختصراً اتنی بات سمجھ لیں آپ گذشتہ بیس سے پچیس سال کی تاریخ اٹھائیں اور
اس میں مغرب کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر لگائے گئے الزامات کی فہرست
بنائیں آپ کو تمام الزامات ملالہ کی کتاب میں ملیں گے۔
آپ کو بنگلہ دیشی کی ملعونہ مصنفہ تسلیمہ نسرین بھی ملالہ کے ساتھ نظر آئے
گی۔
سب سے بڑھ کر آپ ملالہ کی کتاب کا اوریجنل ایڈیشن نکال کر دیکھ لیجیے
آپ کو کہیں بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام مبارک کے ساتھ صلی
اللہ علیہ وسلم لکھا نظر نہیں آئے گا۔
ملالہ کی بچیوں کی تعلیم کے لیے گرانقدر خدمات کا اندازہ اس بات سے بھی
لگایا جاسکتا ہے کہ ایک غریب اور مجبور بچی کو صرف اس لیے اسکول سے نکال
دیا گیا اور اس کا بیگ ضبط کرلیاگیا کہ اس کا جرم عظیم تھا کہ اس کا والد
دو ماہ کی فیس نہیں دے سکا تھا
میرے بھائیو
جس کا آئیڈیل ہی باراک اوباما ہو اس سے کیا توقع رکھنی
ملالہ وطن عزیز پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے
ملالہ مغرب کا مہرہ ہے۔
ملالہ اسلام دشمن عناصر کا معصومانہ شکل کا مہلک ھتھیار ہے۔
ملالہ پاکستان سے دشمنی کرنے والوں سے محبت کا نام ہے۔
ملالہ نہ ہی محب وطن ہے نہ محب دین ہے
ملالہ اہل یورپ کی طرفدار اور اپنے گورے آقاؤں کی وفادار ہے۔
میں ملالہ اور اس کے ایوارڈ پر ہزار ہا بار لعنت بھیجتا ہوں۔ |