کھلی جنگ

اسلام آباد میں دئے گئے ددھرنوں سے پیدا ہونے والی صورتِ حا ل دن بدن گھمبیر ہوتی جا رہی ہے۔حکومت بیک فٹ پر کھیل رہی ہے اور دھرنے والے فرنٹ فٹ پر جارحانہ انداز آپنائے ہوئے ہیں اور دن بدن اپنے اقدامات سے حکومت کو پسپا ہونے پرمجبور کر رہے ہیں۔کبھی کبھی با ؤ نسر بھی پھینک دئے جاتے ہیں جس سے حکومت مزید دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔حکومت کے اس خوف کا اظہار ان کے ان اقدامات سے ہو رہا ہے جو وہ دھرنا سٹریٹیجی کو ناکام بنانے کے لئے کر رہی ہے۔وہ جتنی کوشش کرتی ہے اس کے اثرات الٹے نکلتے ہیں ۔ اس وقت سٹیٹسکو اور عوام کے درمیان ایک کھلی جنگ ہو رہی ہے جسے عوام ہرحا ل میں جیتنا چاہتے ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ ہے جو پچھلے ۶۷ سالوں سے پاکستان کے سارے وسائل پر قابض ہے وہ اس قبضے کو کسی بھی حالت میں چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے۔اپنے قبضے کو جاری رکھنے کے لئے اس کے پاس بڑے دلکش نعرے ہیں،کبھی وہ جمہوریت کا نعرہ بلند کرتا ہے ،کبھی ملکی سلامتی کا رونا روتا ہے اور کبھی آئین کی پاسداری کی دہائی دیتا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ٹیٹسکو کی حامی قوتوں نے اپنے اپنے علاقوں میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کر رکھی ہیں جس کے وہ بے تاج بادشاہ ہیں اور اپنی ان ریاستوں میں وہ کسی کو بھی دم مارنے کی اجازت نہیں دینا چاہتے ۔قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے جس طرح اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے وہ تاحال اسی طرح ہے قائم و دائم ہے ۔وہ اسی لئے پارلیمانی نظام کی حا می ہیں کہ ا س نظام میں ان کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے اور ان کی مرضی کے بغیر کسی کے لئے بھی وزیرِ اعظم بننا ممکن نہیں ہوتا ۔ پارلیمانی جمہوریت میں ان کی اس آہنی گرفت کو چیلنج کرنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کا اپنے اپنے علاقوں میں اتنا زیادہ اثرو رسوخ ہے کہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کے لئے منتخب ہونا ممکن نہیں ہوتا۔بے پناہ وسائل،حکومتی سرپرستی اور غنڈہ گردی کے باعث انھوں نے ہی منتخب ہونا ہوتا ہے۔ان کا منرخب ہو جانے کا لازمی نتیجہ اس کرپشن کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس میں پورا ملک ڈوبا ہوا ہے ۔اب ان سے جان چھڑانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ کسی طرح سے ایک خونی انقلاب برپا ہو اور اس میں ان طبقات کو تہہِ تیغ کر کے جدید معاشرے کی بنیادیں رکھی جائیں لیکن حالات فی الوقت اس جانب نہیں جا رہے کیونکہ کچھ قائدین اب بھی آئینی راستے کا پرچار کر رہے ہیں اور خو نی انقلاب کو تھامے ہوئے ہیں۔ اگر وہ درمیان سے ہٹ گئے تو پھر خونی انقلاب کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔۔
ذولفقار علی بھٹونے ۱۹۷۰؁ میں ان استحصالی گروہوں کو چیلنج کرنے کی ایک جرات کی تھی جس سے وقتی طور پر ان گروہوں کے اقتدار کو دھچکا لگا تھا اور متوسط طبقے کی نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی تھی ۔اپنی اس شکست کا بدلہ ان گروہوں کے دلوں میں ناسور کی شکل میں پلتا رہا اور وقت آنے پر انھوں نے ذولفقار علی بھٹو سے انتقام لے کر دم لیا۔ذولفقار علی بھٹو کو اپنی جرات کا خمیاز ااپنی جان کی شکل میں چکانا پڑا ۔ ان طبقات نے ایک سازش کے تحت جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا اور عوام کے محسن کو سرِ دار لٹکا کر اپنی انا کی تسکین کی ۔میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں اس زمانے میں استحصالی گروہ اتنے مضبوط نہیں تھے جتنے وہ اب ہو چکے ہیں لہذا اب ان پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں رہا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر پارلیمانی حلقے میں چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور انتخا بات میں انہی چند خاندانوں کے درمیان معرکہ برپا ہوتاہے۔یہ خاندان حالات کا رخ دیکھ کر جماعتیں بدلتے رہتے ہیں اور نئے چہروں کے ساتھ میدان میں اترنے میں ماہر ہوتے ہیں لہذا عوا م کے پاس ان خاندانوں کو سپورٹ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا اور یہ سلسلہ پچھلی کئی دہائیوں سے تواتر کے ساتھ چلتا جا رہاہے ۔ میاں محمد نواز شریف اس لحا ظ سے خوش قسمت ہیں کہ انھیں جنرل ضیا الحق کی سر پرستی حاصل ہو گئی تھی جس سے اقتدار کی راہداریوں میں انھیں داخل ہونے کی اجازت مل گئی وگرنہ وہ وبھی عام پاکستانیوں کی طرح ان راہداریوں سے اجنبی رہتے ۔جنرل ضیا الحق کو ذولفقار علی بھٹو کے خلاف ایک مضبوط دھڑے کی ضرورت تھی اور میاں محمد نواز شریف کو ایک مربی اور مہربان کی تلاش تھی لہذا ان دونوں کی رفاقت نے پی پی پی کے خوب لتے لئے اور جیالوں پر عر صہِ حیات تنگ کیا۔کتنے چراغ تھے جو ان دونوں کے ظلم وجبر سے گل ہوئے ۔میاں محمد نواز شریف کو اس بات کی سمجھ آگئی تھی کہ ان استحصالی مگر مچھوں پر قابو پانے کیلئے ان کے پاس دولت کے انبار ہونے چائیں وگرنہ یہ گروہ انھیں ٹکنے نہیں دیں گئے اور یہی وجہ ہے کہ میاں محمد نواز شریف کیلئے اقتدار دولت بنانے کا ایک ذریعہ قرار پایا ۔انھوں نے اپنے دورِ اقتدار میں بے پناہ دولت بنائی اور ہر شخص کی قیمت لگانی شروع کر دی۔ایک فیکٹری سے درجنوں فیکٹریاں قائم ہو گئیں لہذا انھوں نے دولت ک بل بوتے پر سیاستدانوں، ججز،وکلا ،ممبرانِ اسمبلی،دینی علماء اینکرز اور صحافیوں کو دل کھول کر قیمتیں لگا ئیں اور خرید و فروخت کا نیا ڈھنگ متعارف کروایا۔چھانگا مانگا سیاسی کرپشن کا نقطہ آغاز ثابت ہوا جس نے آنے والے دنوں میں معاشرے کے سارے تار پورہلا کر رکھ دئے۔میاں برادران کی اس روش سے دوسری سیاسی جماعتیں بھی محفوظ نہ رہ سکیں لہذا انھیں بھی اپنی بقا کی خاطر اسی راہ پر چلنا پڑا جس میں خریدو فروخت کو بنیادی حیثیت حا صل ہو گئی ۔ کرپشن کی اس روش نے اس وقت پورے معاشرے کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ کرپشن کے زور پر اپنی امارت کا اظہار معاشرے کا طرہِ امتیاز بن گیا ہے اور عوام میں کرپشن کی وجہ سے کسی شرمندگی،ندامت یا گناہ کا ہر تصور ملیا میٹ ہو چکا ہے۔معاشرے کی اس روش سے پوری قوم تنزلی کا شکا ہو رہی ہے جس سے رہائی کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آرہی۔،۔

اس سارے ماحول میں ایک طرف مخصوص گروہ پاکستان کے سارے خز انوں پر قابض ہو چکا ہے تو دوسری طرف عوام کی اکثریت نانِ شبینہ کو ترس رہی ہے جس کا ا حساس اہلِ ا قتدار طبقے کو بالکل نہیں ہو رہا۔وہ موج مستی اور ہلہ گلہ میں مصروف ہیں اور ایک ایسی دنیا میں مگن ہیں جہاں پر عوام کے دکھ درد کو محسوس کرنے اور ان کی بے چینی کا احساس کرنے کی انھیں بالکل فرصت نہیں ہے کیونکہ وہ انھیں کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے ۔ سٹیٹسکو کے اس بے رحم رویوں کے خلاف عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک جنگ شروع کی ہوئی ہے جس سے پوری قوم تبدیلی اور انقلاب کے نعروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ عوام اس ساری صورتِ حال کا بڑی گہری نظروں سے جائزہ لے رہے ہیں اور انھیں یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ آنے والا کل کیسے ہوگا اور پاکستان کی پہچان آنے والے دنوں میں کس حیثیت میں ہو گی ؟انھیں بس ایک ہی بات کی فکر دامن گیر ہے کہ وہ یہ جنگ کیسے جیت سکتے ہیں؟ ساٹھ دنوں کے دھرنوں کے بعد جو لوگ یہ امید لگا کر بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ دھرنا چند دن چلنے کے بعد ہوا میں تحلیل ہو جائیگا انھیں مایوسی ہو ئی ہے کیونکہ حالات نے ثابت کیا ہے کہ دھرنے والے لوہے کے بنے ہو ئے ہیں جن پر موسمی حالات کا اثر نہیں ہو سکتا۔بارش، گرمی ،سردی اور دھوپ میں اتنے دنوں تک ڈٹ جانے والے معمولی کارکن نہیں ہیں ۔ وہ جنونی ہیں اور جنونی ہارا نہیں کرتے ۔وہ کٹ سکتے ہیں ،مٹ سکتے ہیں لیکن جھک نہیں سکتے کیونکہ نظریے کی قوت انھیں جھکنے نہیں دیتی ۔سچ تو یہ ہے کہ انسان کے اندر قدرت نے ایک ایسا شمہ رکھ دیا ہے جو انسان کی انانیت کو کسی کے آگے سر نگوں ہونے سے روک دیتا ہے ۔ انسان جب ایک دفعہ کھڑا ہو جاتا ہے تو پھر اس کیلئے اپنے موقف سے ہٹ جانا ممکن نہیں رہتا کیونکہ یہ ا سکی ذات کی نفی کے مترادف ہوتا ہے اور اپنی ذات کی نفی کسی کو گوارا نہیں ہوتی ۔پا کستان کے عوام ایک بڑے مقصد کیلئے کھڑے ہوگئے ہیں لہذا اب انھیں شکست دینا آسان نہیں رہا ۔یہ سچ ہے کہ اہلِ وطن عمران خان کے کارکنوں کو بر گر گروپ کہہ کر پکارتے اور ان کا مذا ق اڑایا کرتے تھے لیکن اس برگر گروپ نے ساری دنیاپر ثا بت کر دیا ہے کہ وہ برگر گروپ نہیں بلکہ سچے اور کھرے سیاسی ورکر ہیں جو تبدیلی برپا کر کے چھوڑیں گئے ۔ان کی ثابت قدمی نے اس بات کو ثابت کیاہے کہ وہ نامساعد حا لات میں بھی اپنا سر بلند کر کے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔ان کے اس انداز ،جراتمندی اور ثابت قدمی کو پوری دنیا نے سراہا ہے جس سے ان کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔،۔

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515927 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.