ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل جو کہ
مختلف ممالک میں کرپشن ،رشوت ستانی اور بددیانتی پر سروے کر کے اپنی رپورٹ
مرتب کرتی ہے، نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ کرپشن نے پاکستان میں
موجود سیاسی جماعتوں کو خاندانی آمریت اور غیر جمہوری ڈھانچوں میں تبدیل کر
دیا ہے اس نے حکومت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ترجیح بنیاد پر احتساب کا ایسا
موثر نظام وضع کرے جس سے عوام کو یہ اختیار مل سکے کہ وہ اپنے منتخب
نمائندوں کا احتساب کر سکیں تاکہ ملکی سا لمیت کو لاحق خطرات سے نمٹا جاسکے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ کرپشن محکمہ پولیس میں ہے۔عسکری
اداروں میں کرپشن نہ ہونے کے برابر ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غیر جمہوری
سیاسی جماعتیں، حصول انصاف کا کمزور نظام، اور قانون کے نفاذ میں موجود
انتظامی خامیوں کی وجہ سے شہریوں میں بے بسی اور بے اختیاری کا احساس بڑھتا
جارہا ہے چنانچہ اپنی حکومت پر ان کے اعتماد میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ ہر
چار میں سے تین سیاسی جماعتیں انتہائی بدعنوان ہیں اور ملکی اداروں میں
کرپشن کا باعث ہیں۔
پاکستان جیسے ملک میں جسے انٹر نیشنل دنیا 33واں کرپٹ ترین ملک قرار دے چکی
ہے یہاں ان دنوں کرپشن اتنی عام ہو چکی ہے کہ بعض مقتدر افراد اور کئی
سیاسی رہنماؤں کی جانب سے کرپشن کا دفاع کیا جا رہا ہے۔اب تو موجودہ
حکمرانوں میں سے بعض کلیدی عہدوں پر فائز لیڈر کرپشن میں بری طرح ملوث ہیں
اور دونوں ہاتھوں سے قومی دولت لوٹ رہے ہیں اور سرکاری فنڈز خورد برد کر
رہے ہیں۔ سپریم کورٹ اور ساری قوم اور میڈیا کرپشن کے خلاف آواز بلند کر
رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کرپشن کے خلاف حکومت ٹھوس اقدامات کرنے سے گریز
کر رہی ہے حکمرانوں کی لوٹ مار اور بندر بانٹ کے باعث مہنگائی بڑھتی جا رہی
ہے اور عام لوگوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ ایک طرف بڑے بڑے عہدوں پر فائز
سرکاری افسر اور حکمران گروہ قومی دولت کی لوٹ مار کے باعث عیش و عشرت میں
مگن ہیں اور دوسری طرف غریب اور فاقہ کش لوگ خود سوزی اور خودکشی کرنے پر
مجبور ہیں۔ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے کے لیے قانون سازی کرنے سے قاصر ہے
بلکہ وہ سپریم کورٹ کے احکام کے مطابق کرپٹ افسران اور وزراء کے خلاف کوئی
اقدام کرنے سے بھی گریز کر رہی ہے۔ قومی دولت اور وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے
باعث پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلویز اور پبلک سیکٹر کے کئی
ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں مگر حکمران ٹس سے مس نہیں
ہوتے۔پاکستان میں کرپشن اتنی بڑھ گئی ہے ایک سال میں 300ارب روپے کرپشن کی
نذر ہوئے۔یہ بات کس قدر افسوسناک بلکہ تشویش ناک ہے کہ پاکستان میں کرپشن
کی نشاندہی کرنے اور اسے روکنے کے لیے قائم سب سے بڑے ادارے ’’ نیب ‘‘ جس
کو آئینی تحفظ بھی حاصل ہے کے چیئرمین نے کچھ عرصے پہلے یہ کہا تھا کہ
پاکستا ن میں روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ یہ بیان کسی عام آدمی
یا سیاستدان کا نہیں بلکہ ایک آئینی ادارے کے سربراہ کا ہے۔ اس بیان کے
حوالے سے اگر ملک میں ہونے والی کرپشن کا حساب لگایا جائے تو ہمارے ہاں
سرکاری ادارے اور حکمران سالانہ 25کھرب55ارب کی کرپشن کر رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام بہت باشعور ہیں اور وہ اکثر میڈیا کے ذریعے منتخب نمائندوں
کی بدعنوانیوں کے انکشافات کرتے ہیں تاہم حکومت اور اس کے اداروں کی
مصلحتوں کے باعث ان انکشافات کی روشنی میں موثر کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ
حکومت کو منتخب ایوانوں میں اپنی عددی اکثریت برقرار رکھنی ہوتی ہے یقینا
بدعنوانی کا خاتمہ ایک ایسا شعبہ ہے جس میں موجودہ حکومت ابھی تک کسی قابل
ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے روایتی
انداز میں کام کر رہے ہیں جن پر عوام کو اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضرورت
اس امر کی ہے کہ ان اداروں کو بھی نئے ٹاسک دئیے جائیں اور ان کی کارکردگی
کو تیز تر کیا جائے۔اسی طرح وفاقی محتسب کا ادارہ جس نے اوائل میں غیر
معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اب قوم کو ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے اس ادارے
کی کارکردگی کو بھی موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ بدعنوانیوں کو جلد کیفر کردار
تک پہنچانے کیلئے عدالتی نظام کو بھی تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
بدعنوانی کے خاتمہ کے سلسلے میں حکومت کو اپنی انتہائی اہم قومی ذمہ داری
کا ادراک کرنا چاہیے جس کی طرف اس نے ابھی تک توجہ نہیں دی اور اسے
نظرانداز کیا ہے ۔پاکستان کی خوش قسمتی کہیں کہ وہ جغرافیائی لحاظ سے
انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور اسے ہم اپنی بد قسمتی کہیں کہ ہم اس سے
کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے ہم اس بدنصیبی اور بدقسمتی کو اپنی خوش قسمتی میں
بدل سکتے ہیں اور اپنے پیارے پاکستان کو جنت بنا سکتے ہیں اگر ہم وی۔آئی۔پی
کلچر کو ختم کردیں ۔ رشوت ستانی کا خاتمہ کرنے کی کوشش کریں،انصاف کو فروغ
دیں اور عدلیہ کے فیصلوں کا احترام کریں۔ملکی مفاد کو ذاتی اور انفرادی
مفاد پر ترجیح نہ دیں۔سفارشی کلچر کا خاتمہ کرکے میرٹ کو ترجیح دیں،امیری
اور غریبی کے سٹیٹس کو مٹانے کے لئے کلیدی کردار ادا کریں،
سندھی،پنجابی،بلوچی،پٹھان اور کشمیری کے سٹیٹس کو مٹاکر سب سے پہلے پاکستان
کی بات کریں ،ٹیکس چوری،قرضے معافی اور بجلی چوری جیسے اقدامات سے پرہیز
کریں تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی ترقی کی راہ پر ہوگا ،ہر پاکستانی
خوشحال ہوگا لیکن اس کے لئے ہمیں خواب غفلت سے بیدار ہونا ہوگا ترقی یافتہ
ممالک کی پیروی اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنا ہوگا۔ موجودہ حکومت کو
چاہیے کہ وہ بدعنوانیوں کے خاتمہ کے لئے نئے قوانین کا اطلاق کرے ، اور
انسداد رشوت ستانی کے تمام اداروں کو فعال کیا جائے اور ان اداروں کی
کارکردگی میں تیزی لائی جائے۔ اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے والوں کے تحفظ
کا یقینی بنایا جائے، تاکہ جلد از جلد ملک کرپشن کے ناسور سے پاک ہو کر
ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔
٭٭٭ |