اے مسلم خوابید تیری سادہ لوحی
یا کوتاہ اندیشی کو کیسے بیان کروں؟ ہمارے معاشرے میں لفظ بھیڑ چال بڑا
معروف اور زبان زد عام ہے۔ خالق کائینات نے دل و دماغ عطا فرمائے کہ انسان
اہم امورکا تجزیہ کرسکے ۔ہم مسلمانوں کوبطور خاص وحی کے علوم سے نوازا
گیااور عقل و دانش کا وافر حصہ عطا کیا گیا۔ یہ اور بات ہے کہ ہم نے علوم
وحی سے اعراض کیااور غیر مسلموں کی شعبدہ بازی کا شکار ہورہے ہیں۔ میں اہل
فرنگ کے پیروکاروں سے سوال کرتا ہوں کہ دین اسلام کے کس شعبے میں کمی ہے کہ
اسکی تکمیل کے لیئے تم ہر کام میں غیر مسلموں کی تقلید کرتے ہو۔ غیر مسلموں
کی منظم شعبدہ بازی کی ادائیگی کو فرائض و واجبات کی حیثیت دی جارہی ہے۔
شائد ہی کوئی ہفتہ خالی ہوکہ کوئی ڈے نہ منایا جارہاہو۔ سب کی اصل غیر مسلم
ہیں۔ خواتین ڈے، مزدور ڈے، بچہ ڈے اور اب تو انڈا ڈے بھی منایا گیا۔ہمارے
ملک میں تو انڈوں کی کمی نہیں البتہ گندے انڈے زیادہ ہیں۔ انڈہ اس وقت اسی
تا نوے روپے درجن ہے اورٹماٹر کا ریٹ اسی تا سو روپے کلو ہے۔ اس گرانی کے
باوجودسیاسی مخالفوں کی پذیرائی انڈوں اور ٹماٹروں سے ہوتی ہے۔ اب لگتا ہے
کہ پیازڈے، آلوڈے، ٹماٹر ڈے بڑے تزک و احتشا م سے منایا جائیگا۔ پھر پیاری
عوام اپنے وزیراعظم ، وزراء اعلیٰ اور دیگر وزراء کی کیچپ تقریریں سن کرکس
قدر لطف اندوز ہوں گے۔
غیر مسلم یہ تائثر قائم کرنا چاہتے ہیں اسلام میں خواتین ، مزدور ، بچوں ،
بوڑھوں ، اساتذہ کا کوئی مقام نہیں۔ ذرا دیکھو تو مغربی معاشرے میں عورت
صرف اشتہارات و بازار کی زینت اور مرد کا دل بہلانے کا ذریعہ ہے۔ اسلام نے
عورت کو ماں ، بیٹی، بہن، بیوی اور دیگر رشتوں سے منسوب کرکے معاشرے میں
اعلیٰ ترین مقام دیا۔ تعلیم نسواں ، حقوق نسواں ، عظمت نسواں کی تعلیم تو
اﷲ کے رسول ﷺ نے دی ۔ اسلام دین علم ہے اور معلم و مقصود کائینا ت ﷺ کا
فرمان عالی شان ہے طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم ۔علم کا حصول مردوزن ہر
دوپر لازم قرار دیا۔ غیر مسلموں کے علم اور مسلمانوں کے علم کی حدود قیود
مختلف ہیں ۔ مسلمان کے لیئے ضروریات دین کا علم فرض ہے جس میں عقائدتوحید و
رسالت، طہارت، نماز روزہ وغیر ہ کے بارے جاننا شامل ہے۔ اسکے بعد علوم کی
آخری حد کوئی نہیں ۔ جیسا سرورعالمین ﷺ نے فرمایا کہ اطلبوا العلم من المھد
الی لحد کہ علم ماں کی گو د سے قبرتک حاصل کرتے رہو۔ لیکن آج مغرب کا
معاشرہ اہل اسلام اور اسلام پر تہمت لگار ہا کہ ہم تعلیم نسواں کیخلاف ہیں۔
ہم حیادار تعلیم نسواں کے علمبردار ہیں البتہ مغرب کی مادر پدر آزاداور فحش
تعلیم کے خلاف ہیں ۔ انکے تعلیمی اداروں میں کنواری ماؤں کی کمی نہیں اور
نسب گم گشتہ افراد کی تعدادروز افزوں ہے۔ ہمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے
کے لیئے غیر مسلم جن میں صیہونی ،صلیبی اور اصنامی لابی پیش پیش ہے۔ وہ
چاہتے ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی وہی کچھ ہوجو انکے ہاں ہورہا ہے
تاکہ جباری و قہاری و قدوسی و جبروت کی صفات کے حامل مسلمان پیدا ہی نہ ہوں۔
پیدائش کے فورا بعد اذان حق جن کے کان میں دی گئی تو انکے دماغ و دل میں
توحید و رسالت کا انمٹ نقش ثبت ہوگیاان سے ایسی امید وابستہ کرنا عبث ہے۔
مسلمانوں میں فساد اور انتشار پھیلانے کا صلیبیوں نے کوئی موقع ہاتھ سے نہ
جانے دیا بلکہ ایسے مواقع پیدا کیئے۔ مثلاعرب میں لارنس آف عریبیا،
ہندوستان میں فتنہ قادیانیت کہ اپنے ایک ملازم مرزا غلام احمد قادیانی کو
پروموٹ کیا ۔ اسے تمام وسائل مثلاجو اسکی پیروی کرتا اسے سول اور فوج میں
اعلیٰ عہدے دیئے،اسے اپنا (شیطان) نبی بنایا مگر خود اسکی نبوت کو تسلیم نہ
کیا کیونکہ یہ انکی اپنی صنعت کا عجوبہ تھا۔ اس سے مسلمانوں کو کس قدر
نقصان پہنچا ؟ اسکی تفصیل یہاں خامہ فرسائی سے ممکن نہیں ۔ بس یہ دیکھیں کہ
نظریاتی مملکت کا پہلا وزیر خارجہ فرنگی صلیبی کا خطاب یافتہ ظفراﷲ کافر
قادیانی تھا۔ پنجاب کی آبادی کا خاصاحصہ اس سازش کا شکار ہوکر کافر ہوا۔
کتنے لوگ شہید ہوئے۔ اور پاکستان اب تک اصل پاکستان نہ بن سکا۔
نوبل انعام کا مستحق کون ہے؟ اسکے رازوں سے کوئی واقف نہیں البتہ اتنا ہے
کہ آج تک کسی مسلمان کو تعلیم، کھیل، تحقیق،فلاح انسانیت ، تحریر و تقریر
غرضیکہ کے کسی شعبہ میں نمایاں خدمات پراس اعزاز سے نہیں نوازا گیا۔ ڈاکٹر
عبدالسلام قادیانی کو نوبل انعام دیا گیا تو مرزا قادیانی کی وجہ سے دیا
گیاوگرنہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان، ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی مثل کون ہے؟ محترمہ
عاصمہ جہانگیر صاحبہ جو ایک قانون دان ہیں ۔ نجانے کس سوت کی قدر کرتے ہوئے
انسانی حقوق کی علمبردار ٹہرا کر نوبل انعام دیا گیا۔حالانکہ جناب
عبدالستار ایدھی خدمت انسانیت کرتے ہوئے اپنی متاع زیست خرچ کربیٹھے ہیں۔
الخدمت ٹرست، فلاح انسانیت ٹرسٹ، سیلانی ٹرسٹ، خواجہ غریب نواز ٹرسٹ،
الرشید ٹرسٹ، الدعوۃ خدمت ٹرسٹ،اور پھر جناب ریاض حسین ملک تو انسانیت کی
خدمت کرنے میں دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتے کہ جو اربوں روپے غریبوں
اور مصیبت زدہ لوگوں پر خرچ کیئے۔ بحری قزاقوں سے قیمیتی جانوں کو کروڑوں
دے کر آزاد کرایا،وزیرستانی بے گھر لوگوں کے لیئے اربوں کی امداد،حالیہ
سیلاب زدگان کی اربوں کی امداد یہ ایسے فلاحی انسانی کارنامے ہیں کہ اہل
مغرب ایک ایسی ایک مثال بھی پیش نہیں کرسکتے ۔ اوباما نے گل مکئی کو شرف
باریابی صرف اس لیئے بخشا کہ وہ انکی جاسوسہ ہے وگر نہ وہ ڈاکٹر عافیہ
صدیقی کی کفش برداری کے قابل بھی نہیں۔ اگر گل مکئی پاکستانی غیرت رکھتی
تواوباما سے ملاقات عافیہ صدیقی کی رہائی سے مشروط کرتی ۔ ایسا کون سا
کارنامہ اس نے سرانجام دیا کہ اسے اب تک نوبل انعام کے علاوہ صیہونی اور
صلیبی لابی اسے بارہ ایوار ڈدے چکی ہیں۔ڈاکٹر عافیہ امریکی ظالموں کے مظالم
سہنے کی استقامت کا مجسمہ واحد مظلومہ ہے اور وہ ہلال جرات کی مستحق ہے۔ وہ
کون سا نمایا ں کارنامہ ہے اس کم عمر لڑکی گل مکئی کا (اب تو کم عمر نہیں
کیونکہ سترہ سال کی ہوگئی ہے)جو ایک پسماندہ علاقے مینگورہ کے سکول میں زیر
تعلیم تھی جبھی اسکی عمر 11,12 سال تھی۔ اس سن شعور میں ایسی ڈائریاں تصنیف
کرنا کہ BBC اور CNN انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں ممکن نہیں۔ پھر اس پردہ دار
معاشرے میں ایک لڑکی امریکی اتحادیوں تک اپنی تحریریں پہنچانے کی صلاحیت یا
وسائل رکھتی ہو ممکن ہی نہیں۔ ڈائریاں لکھی گئیں اور صلیبی اتحادیوں تک
پہنچائی گئیں یہ بھی ایک حقیقت ہے۔ جس سکول میں وہ لڑکی زیر تعلیم تھی اس
کا نام خوشحال پبلک سکول ہے۔ اگر وہاں کے لوگ لڑکیوں کے سکول جانے کے اتنے
ہی مخالف ہیں تو سکول کھل کیسے گیا، ایک نجی سکول کا ذریعہ آمدن تو بچوں کی
فیسیں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ وہاں لڑکیوں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے جو دور دراز
علاقوں سے ویگن پر آتی ہے۔ اگر لوگ تعلیم نسواں کے اتنے مخالف ہیں کہ
لڑکیوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے توصرف ایک گل مکئی ہی
رہ گئی تھی کہ اسے گولیوں کا نشانہ بنایاگیا۔ دال میں کچھ کالا ہے یا دال
ہی کالی ہے۔ ڈائیریاں لکھنے کا کام کسی اور کا تھا اور وہی صلیبیوں تک
پہنچاتا تھا اس کار خیر کا ڈالروں میں اسے معاوضہ ملتاہوگا۔ گویا کہ
صیہونیوں اور صلیبیوں کے لیئے کام کرنے والی باقاعدہ ایجنسی کام کررہی
تھی۔گل مکئی کو طالبان نے گوصلی نہیں ماری اس لیئے کہ وہ اتنے اناڑی نہیں
کہ اتنے قریب سے گولی ماریں اور وہ بھی غیر موئثر ۔ میں نے نیٹ پر اس بارے
حقائق جمع کیئے ہیں۔ زخمی ملالہ کو سب سے پہلے سیدو شریف میڈیکل کمپلیکس
مینگورہ میں منتقل کیا گیا۔ اور اسکے فورا بعد فوجی ہیلی کاپٹر میں پشاور
لے جایا گیا۔ یہاں نیٹ پر اس کے ماتھے پر پٹی لگی ہوئی ہے فوجی وردی میں
دوتین آدمی اسکے پاس ہیں۔ یہ جگہ کوئی ہسپتال کا کمرہ نہیں بلکہ ایک گراؤنڈ
ہے اس کے پس منظر میں فوجی بیریکیں نظر آرہی ہیں۔ سیدو شریف کے ڈاکٹروں نے
بتایا کہ ملالہ کی کھوپڑی کو بچاتے ہوئے گولی گذر گئی۔ ایک ڈاکٹر تاج محمد
نے کہا کہ گولی سر کو لگی مگر دماغ محفوظ ہے اور لڑکی خطرہ سے باہر ہے۔ ایک
اور ڈاکٹر لعل نور نے تصدیق کی کہ گولی کھوپڑی توڑتی نکل گئی مگر دماغ
محفوظ رہا۔ مانا کہ گولی کھوپڑی میں دماغ سے ہٹ کر گذری لیکن گولی داخل
ہوتے وقت چھوٹا سوراخ بناتی ہے جبکہ نکلنے والی جگہ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ
دیتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی زخم نہیں ورنہ ڈاکٹر حالت خطرے سے باہر قرار نہ
دیتے۔
حیرت ہے کہ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھی ملالہ کے سر میں سے گولی پار ہوئی پھر
بقول ڈاکٹر کے کندھے میں داخل ہوگئی۔ پھرگولی کہاں گئی اس بارے رپورٹ موجود
نہیں۔ Malala was shifted to Saidu Sharif
Medical Complex in Mingora immediately after the incident and later she
was moved toPeshawar in an Army helicopter.
Doctors at the Saidu Sharif Medical Complex said that Malala was out of
danger after the bullet penetrated her skull but missed her brain.“A
bullet struck her head, but the brain is safe,” said Dr Taj
Mohammed.“She is out of danger,” he added.Dr Laal Noor, from the same
hospital, confirmed that the bullet broke her skull but missed her
brain.
“The bullet struck her skull and came out on the other side and hit her
shoulder,” he told AFP.
After getting done with Malala’s check-up, the doctors said that she
might be sent abroad for treatment.
As the news made rounds, hundreds of people flocked outside the
hospital, willing to donate blood to Malala.
Two bullets hit Malala — one in the head and another between the neck
and chest.
تمام ڈاکٹر اس بات پر متفق ہیں کہ حالت خطرے سے باہر ہے۔ اسکے باوجود
ڈاکٹروں کا بیرون ملک علاج کا مشورہ بڑا ہی حیرت انگیز اور معنی خیز ہے۔
کوئی بتائے کہاں کی عقلمندی ہے کہ معمولی زخم کہ جس سے جان کو کوئی خطرہ
نہیں برطانیہ بھیجا جائے۔ یہاں سے کہانی کچھ سمجھ میں آجائے گی کہ جن کے
لیئے وہ کام کررہی تھی انکی طرف سے مطالبہ تھا کہ وہ ہماری کارندہ ہے اسے
ہمارے حوالے کیا جائے۔ سو معمولی زخمی لڑکی کو بڑے اہتمام کے ساتھ یو اے ای
سے آنے والے خصوصی طیارہ سے برطانیہ روانہ کردیاگیا۔ اور اس اہم ترین شخصیت
کو حکومت برطانیہ نے شاہی خاندان کی شہزادی کا پروٹوکول دیا کہ دبئی سے
جہاز کی روانگی اور برطانیہ میں اسکی لینڈنگ براہ راست پوری دنیا کو دکھائی
گئی۔ پھر ایک کتاب لکھ کر اس سے منسوب کی گئی۔ اسے میڈیا سے گفتگو کا طریقہ
سکھایا گیا اور سکرپٹ لکھ کر دیئے گئے۔ یہی نہیں بلکہ ان چند سالوں میں
اسکی انگریزی بولنے کی صلاحیت بڑھائی گئی۔ اسے ملاقات کے لیئے بلانے والوں
میں ملکہ برطانیہ،پاپائے روم اور امریکی صدر اوباماشامل ہیں ۔ میری معلومات
کے مطابق صلیبی رہنماؤں نے آج تک ایسی پذیرائی کسی کو نہیں بخشی ۔ ان حالات
کے تناظر میں گل مکئی عرف ملالہ کے صلیبی ایجنٹ ہونے کے یقین کو مزید تقویت
ملی جب اسے ایک بھارتی کیلاش ستیارتھی کے ساتھ شریک ایوارڈ کیا گیا ہے۔ یہ
سب کچھ عین اس وقت ہورہاہے جب بھارتی فوج غیر اعلانیہ طور پر سیالکوٹ کے
محاذ سے پاکستان پر حملہ آور ہوچکی ہے۔
میرا یہ سب کچھ لکھنے اور ان حقائق سے قوم کو آگاہ کرنے کا مقصد صلیبیوں کی
سازشوں کا پردہ چاک کرنا ہے۔ میں اپنے مسلمان بہن بھائیوں اور پاکستانیوں
سے گذارش کرتا ہوں کہ اب بھیڑ چال کی عادت چھوڑ کر فکر و دانش کا دامن
تھامیں۔ ایک عربی دوسرے کو اپنی مادری زبان میں مغلظات دے رہاتھا اور
پاکستانی سبحان اﷲ کہہ رہاتھا۔ اگر زبان جانتا یا تحقیق کرلیتا تو مغلظات
پر سبحان اﷲ نہ کہتا۔ ہمارے میڈیا کا بھی کیا کہنا کہ آگے پیچھے دیکھے بغیر
صلیبیوں کی سازشوں پر عش عش کررہے ہیں۔ اﷲ کریم ہوش دے آمین۔ |