پی ٹی آئی اور ”باغی“ کے مابین کانٹے دار مقابلے کا امکان
(عابد محمود عزام, karachi)
ملکی سیاست کا اہم ضمنی الیکشن
ملتان کے حلقہ این اے 149 میں آج ہوگا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق حلقہ این اے
149 میں پولنگ صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک ہوگی، جس میں 3 لاکھ 41 ہزار 527
رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں گے، جن کے لیے 286 پولنگ
اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں اور پولنگ بوتھ کی کل تعداد 774 ہے۔ الیکشن کمیشن
کی جانب سے انتخابی فہرستیں ، بیلٹ باکس، مہریں، اسٹیمپ پیڈز مہیا کر دیے
گئے ہیں، جبکہ ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ 286 پولنگ اسٹیشنز
پر 286 پریذائیڈنگ افسر ڈیوٹی دیں گے۔ جبکہ اس موقع پر عام تعطیل کا اعلان
کیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق حلقہ میں 106 پولنگ اسٹیشنز کو انتہائی حساس
اور 97کو حساس قرار دے دیا گیا، اندرون شہر کے تمام پولنگ اسٹیشنز کو
انتہائی حساس قرار دے دیا گیا ہے۔ 4561 پولیس اہلکار خدمات سر انجام دیں گے۔
ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے رینجرز کو بھی طلب کیا جا سکتا ہے۔ الیکشن
کمیشن نے این اے 149کے حوالے سے جاری کیے گئے ضابطہ اخلاق میں کہا ہے کہ
پولنگ اسٹیشن سے 400گز کے اندر ووٹر کو رشوت، دھمکی اور ترغیب، انتخاب کے
روز اسلحہ کی نمائش پر بھی پابندی ہو گی۔ ڈی سی او کے مطابق ایک روز کے لیے
دفعہ 144 بھی نافذ ہو گی۔ ضمنی الیکشن کے سلسلے میں رینجرز نے حساس پولنگ
اسٹیشنز کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ایس ایس پی آپریشنز کے مطابق ضمنی انتخاب
کے دوران 4 ہزار سے زاید اہلکار ڈیوٹی دیں گے۔ چار سو کے قریب پولیس وینز
اور سو سے زاید پولیس موٹر سائیکل سکواڈ پٹرولنگ کریں گے۔ پولنگ کے روز کسی
بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لیے پولیس کو رینجرز اور فوج کی مدد بھی
حاصل ہوگی۔ واضح رہے کہ ملتان کے حلقہ این اے-149 سے قومی اسمبلی کی نشست
جاوید ہاشمی کے استعفے کے باعث خالی ہوئی تھی۔
قومی اسمبلی کا حلقہ 149 ملتان ہمیشہ سے مخدوموں، قریشیوں اور ڈوگروں جیسے
اہم سیاسی خاندانوں کا سیاسی اکھاڑہ ثابت ہوا ہے۔ ووٹروں پر وڈیروں کی گرفت
اس علاقے میں اب بھی قائم ہے۔ اس مرتبہ کے ضمنی انتخاب میں بھی صورتحال کچھ
زیادہ مختلف نہیں۔ اسی دیہی حلقے میں مئی 2013 میں 83 ہزار سے زاید ووٹ
حاصل کر کے کامیاب قرار دیے جانے والے مخدوم جاوید حسین ہاشمی دوبارہ میدان
میں ہیں۔ گزشتہ برس انھوں نے اسلام آباد سے بھی کامیابی حاصل کی تھی، لیکن
یہ نشست انھوں نے ملتان کے حق میں چھوڑ دی تھی۔ اب وہ دوبارہ اپنے حلقے میں
ووٹروں کے پاس گئے ہیں اور کامیابی کے لیے پرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ
میں نے جو دن رات محنت کی ہے اس کا اثر ہو رہا ہے اور لوگ حمایت کر رہے ہیں۔
ملتان الیکشن کی دلچسپ بات بڑی جماعتوں کا براہ راست اس معرکے میں سامنے نہ
آنا ہے، لیکن در پردہ اپنی پسند کے امیدواروں کی مکمل حمایت جاری رکھے ہوئے
ہیں۔ ملتان کے حلقہ این اے 149کے ضمنی انتخاب میں 18 امیدوار میدان میں ہیں،
جن میں 17 آزاد حصہ لے رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ نواز کی خاموش اور
ملک عامر ڈوگر کو پاکستان تحریک انصاف کی کھلی حمایت حاصل ہے۔ تحریک انصاف
کے شاہ محمود قریشی کہتے ہیں کہ وہ مشکل حلقوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اصل مقابلہ جاوید ہاشمی اور عامر ڈوگر کے درمیان ہی
ہے۔ ملتان میں مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ایک
طرف تحریک انصاف نے اس الیکشن کو اپنے لیے زندگی و موت کا مسئلہ بنایا ہوا
ہے، جبکہ دوسری جانب مسلم لیگ ن بھی اس حوالے سے کافی پریشان ہے۔ ذرائع کے
مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب حکومت نے ملتان کے حلقے این اے-149 میں
ہونے والے ضمنی انتخابات کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے تمام مصروفیات
اوراہم میٹنگز ملتوی کی ہیں۔ حکومت کو مخدوم جاوید ہاشمی کی بحیثیت آزاد
امیدوار شکست کا خوف نہیں ہے، بلکہ اصل خوف یہ ہے کہ ان کی شکست سے پاکستان
تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو کامیابی مل جائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام
اہم میٹنگز اور مصروفیات اس وجہ سے منسوخ کردی گئی ہیں، کیوں کہ حکومت اس
وقت ضمنی انتخابات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) نے اس
حلقے سے اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا ، تاہم حکومت جاوید ہاشمی کی فتح
کی خواہش مند ہے، تاکہ پی ٹی آئی کو نیچا دکھایا جا سکے، جو ایک دوسرے آزاد
امیدوار ملک عامر ڈوگر کی حمایت کر رہی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)
کے امیدوار ڈاکٹر جاوید صدیقی کی فتح بھی حکومت کے لیے شرمندگی کا با عث
ہوگی۔ حکومت قومی اسمبلی کی نشست کھو دینے سے خوفزدہ نہیں ہے، بلکہ اصل خوف
جاوید ہاشمی کی شکست کا ہے، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت نے عوامی مقبولیت
کھو دی ہے۔
ملتان سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے۔ 149 پر کل ہونے والے ضمنی انتخاب میں
مسلم لیگ (ن) نے جہاں جاوید ہاشمی کو اپنی خاموش حمایت فراہم کی ہے، وہیں
تحریک انصاف نے اس مقابلے کو اپنے بناﺅ یا بگاڑ اور زندگی یا موت کا مسئلہ
بنا لیا ہے، گو کہ دونوں جماعتوں نے مختلف وجوہ سے اس انتخاب میں اپنے
امیدوار کھڑے نہیں کیے ہیں۔ تحریک انصاف نہ صرف ایک آزاد امیدوار کی کھل کر
حمایت کر رہی، بلکہ انتخابی مہم بھی چلا رہی ہے۔ محدود پیمانے پر دیکھا
جائے تو یہ ملتان کی ضلعی سیاست میں بنیادی طور پر دو روایتی حریفوں تحریک
انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے درمیان یہ
مقابلہ ہے ، ہر سیاست دان کے لیے ضلعی سیاست اولین ترجیح ہوتی ہے، قومی اور
صوبائی سیاست اس کے بعد آتی ہے۔ ایک پارٹی میں رہتے ہوئے بھی ہاشمی اور
قریشی بعض اوقات کھل کر اور چھپ کر بھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ وسیع
تر معنیٰ میں تحریک انصاف نے اس انتخابی معرکے کو زندگی یا موت کا مقابلہ
بنا لیا ہے۔ اس ضمنی انتخاب میں عامر ڈوگر کی کامیابی کو وہ اپنی ملک گیر
احتجاجی مہم کے اثرات کا نتیجہ ثابت کرنا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف خصوصاً
گزشتہ دو ماہ سے جس قسم کی سیاست کر رہی ہے ، اس کی بنا پر ہارنے کی صورت
دھاندلی کا الزام حیران کن نہیں ہوگا، وہ کبھی کھلے دل سے شکست قبول نہیں
کرے گی ، وہ یہ بھی دلیل دے سکتی ہے کہ انتخاب میں جب اس نے شرکت ہی نہیں
کی تو شکست کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کھل کر حمایت نہ کرنے کے باعث مسلم
لیگ (ن) بھی دعویٰ کر سکتی ہے کہ جاوید ہاشمی کی شکست اس کے لیے پریشانی کا
باعث نہیں ہے، جبکہ تحریک انصاف نے آزاد امیدوار ملک عامر ڈوگر کی کامیابی
کے امکان کو روشن کرنے کے لیے ملتان میں جلسہ عام بھی کیا۔ اس الیکشن میں
پی ٹی آئی کا اصل ہدف جاوید ہاشمی کو شکست دینا ہے، کیونکہ جاوید ہاشمی نے
عمران خان کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کرکے انہیں سخت نقصان پہنچایا ہے۔
ملتان کی مقامی سیاست میں وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے اپنے
آبائی ضلع میں جاوید ہاشمی کو شکست دینے کے لیے کافی کام کیا ہے۔ یہ دونوں
پہلے بھی ،ایک ہی جماعت میں ہونے کے باوجودبھی ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف
رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی آبائی ضلع میں جاوید ہاشمی کو شکست دینے کے لیے
کئی روز سے ملتان میں کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔ پی ٹی آئی حال ہی میں پیپلز
پارٹی چھوڑکرآزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے ملک عامر ڈوگر کے لیے الیکشن
مہم چلا رہی ہے۔ اس صورتحال کے تناظر میں پی ٹی آئی کی مخالف مسلم لیگ (ن)
جاوید ہاشمی کی حمایت کررہی ہے۔ اس حلقے میں مسلم لیگ کی اچھی پوزیشن ہونے
کے باوجود جاوید ہاشمی کی خالی کردہ نشست پر مسلم لیگ (ن) نے اپنا امیدوار
بھی کھڑا نہیں کیا ہے۔ مئی 2013 کے پارلیمانی الیکشن میں پیپلز پارٹی کے
امیدوار ملک عامر ڈوگر نے جاوید ہاشمی کے مقابلے میں 20 ہزار سات سو 19 ووٹ
لیے تھے، جبکہ جاوید ہاشمی نے 83 ہزار چھ سو 40 ووٹ لے کر فتح حاصل کی تھی۔
ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار شیخ طارق رشید 73 ہزار آٹھ سو 98
ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ان حالات میں اب ایک طرف پی ٹی آئی عامر
ڈوگر کی حمایت میں سرگرم ہے اور اس امیدوار کی کامیابی کے لیے پر امید بھی
ہے،جبکہ دوسری طرف پی پی پی کا اپنا امیدوار میدان میں ہے۔ جہاں تک جاوید
ہاشمی کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن ان کی حمایت کر رہی ہے۔ جاوید ہاشمی کے پاس
اپنے ذاتی ووٹ بینک کے علاوہ ن لیگ کے ووٹ بھی ہیں، جو جاوید ہاشمی کو آج
ہونے والے الیکشن میں کامیابی دلا سکتے ہیں۔ |
|