اسلام آباد فتنے کی زد میں

طاہر القادری اور عمران خان کے جذباتی انداز نے قوم کو عجیب ہیجان میں ڈال رکھا ہے ڈاکٹر طاہر القادر ی کے جذباتی خطاب نے پاکستان عوامی تحریک نے اپنے ڈیڑھ درجن کے قریب کارکنان کو موت کی نیند سلا دیا اور تین پولیس اہلکار شہید سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں یوم شہداء منانے والاجذباتی لیڈر اسوقت ریاست میں خارجی ،باغی اور دہشت گرد کی حیثیت اختیار کر چکا ہے یہ میرے نہیں بلکہ ڈاکٹر طاہر القادری کے اپنے الفاظ ہیں جن کی زد میں آ کروہ پھنس گئے ہیں ڈاکٹر صاحب اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرنااسکے خلاف اعلان جنگ کی سخت ممانعت ہے ایسا کرنے والے شرعا باغی اور خارجی ہیں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ان دہشت گردوں اور باغیوں کا قلع قمع کردے (دہشت گردی اور فتنہ خوارج ،ص 31) یہ فتوی انہوں نے ملک میں بدامنی کے خلاف دیا تھا لیکن آج خود اپنے الفاظ و تحریر کے خلاف اپنے ماننے والوں کو اکسا کر ملک میں انتشار وفتنہ پیدا کر رہے ہیں عالم دین ہوکر اسلامی نظام خلافت کی بجائے نظام باطل کا دفاع کرکے اسلام کے مذاق کا باعث اور خود طرف تماشہ بن گئے ہیں ارباب فہم و فراست انکو خود نماء پسند، خود غرض،انتہائی جذباتی،کم فہم،ناپختہ سیاستدان،تشہیر پسند،اپنے عقیدت مندوں کو اپنی خواہش پر بے دریغ استعمال کرنے والا سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پہلے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو یوم شہداء کے لئے لاہور بلوایا اور ساتھ ہی یہ بھی شاہی فرمان جاری کر دیا کہ اگر کوئی پولیس والا تمہارے گھر میں داخل ہو تو تم اسکے گھر میں داخل ہو جاؤ ،ڈنڈے پکڑ کر آؤ چوڑیاں پہن کر نہ آنا،یعنی ریاست پاکستان کی محافظ مشینری کے خلاف ٹکرانے کا واضح اعلان کردیا عقیدت کے اندھے کارکنوں نے جذباتی خطاب پر اسی طرح عمل کیا جس طرح طاہر القادری کے جذبات کہتے تھے مگر عقل نہ مانتی تھی ایسی کاروائی کرنا پہلے سے طے شدہ تھا اور لاہورسے انکی جماعت کے ایک ذمہ دار نے ایک شہری سے پہلے ہی اپنے عزائم کا اظہار کر دیاتھاکہ شائد ہم زندہ نہ رہیں آپ اپنے قرض کی رقم لے لیں ایک یونٹ لیول کے ذمہ دار کو ایسے احکامات تھے تو اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ انتشار،بدامنی کا پروگرام پہلے سے کسقدرطے شدہ تھا انکے جذبات پر اسوقت بند بندھا جب ان پر3قتل، متعدد بغاوت ،بدامنی کے مقدمے درج ہوئے تو ۔۔۔ پھر عقل ٹھکانے آئی، پریس کانفرنس میں کارکنوں کو یوم شہداء اپنے شہروں میں منانے کا اعلان کر دیا اس سارے مرحلے میں انکے اتحادیوں کی افرادی قوت کہیں بھی نظر نہ آئی صرف انکے اتحادی لیڈران پریس کانفرنسز کے فوٹو سیشن تک محدود رہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ یہ سیاسی لیڈران اورایک نومولود متنازعہ مذہبی جماعت انھیں ایک خاص مقصد کیلئے استعمال کرتے رہے ۔۔۔ چند سیاست دان اور انکے اتحادی یوم شہداء ماڈل ٹاؤن میں آئے اور انہیں پھر پمپ کیا کہ آپ کا اور عمران خان کا متحد ہوکر نکلنا ضروری ہے اسطرح آپ کو مزید الیکٹرونک اور پریس میڈیا میں آنے کا موقعہ مل جائے گا،عمران خان اور انکی جماعت اسمبلی میں ہے کچھ نہیں ہوگا آپ کو اور آپ مزید دنیا میں مشہور ہو جائیں گے تو جذباتی ڈاکٹر صاحب نے پھر یوم شہداء میں دعا کے لئے اندھے عقیدت مندوں کو 14اگست تک ماڈل ٹاؤن میں رہنے اور یوم آزادی پر آزادی مارچ درحقیقت بربادی مارچ میں شریک ہونے کا حکم صادر فرما دیااب بیچارے عقیدت مند ماڈل ٹاؤن بیٹھے ہیں انقلاب کے بغیر واپس جانے والوں کو قتل کرنے کا حکم کردیا ہے اب قادری اور عمران کا انقلاب اور سونامی ایک ہی کشتی میں سوار ہوگئے ہیں ملک کی اب خیر نہیں لگتی قوم کو ملک کی حفاظت کے لئے خصوصی دعا کرنے چاہیے اسلئے کہ اب صورتحال ـــماچس بندر کے ہاتھ میں آنے والے محاورے کی مصداق بن گئی ہے خدا خیر کرے۔۔۔ قادری شو میں میڈیا نے بالکل غلط کردار ادا کیا ہے میڈیا کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیے غیر ضروری رپوٹنگ کو لائیو کوریج دینا کوئی دانش مندی نہیں جتنی با قادری صاحب نے اشتعال انگیزپریس کافرنسزکیں میڈیا نے لائیو کوریج دے کر جلتی پر تیل ڈالنے کاکام کیا اتنا بڑا معاملہ نہیں تھا جتنی کوریج دی گئی پیمراء کو اسپر بھی سنجیدگی سوچنا چاہیے متعدد بار غیر ضروری کوریج سے ملکی حالات خراب ہوئے ہیں ۔

14اگست کوملک اورعمران خان کے مارچ کو شر سے اﷲ تعالی قوم کو محفوظ رکھے (امین) قادری کے یوم دعا نے قوم کو اتنا خوار،پریشان کیا ہے تو آزادی کے نام پر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنے والے مارچ کے قوم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور قوم کو کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا یہ یوم آزادی پر ہی پتہ چلے گا لیکن اس موقعہ پر وفاقی حکومت کو پنجاب حکومت کی طرح پالیسی اپنانے سے گریز کرنا ہوگا غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی کرنے سے مکمل گریز کرنا ہوگا مارچ کے ساتھ تصادم کی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے پرامن ماحول رکھنے کے لئے وفاقی حکومت کو مناسب توازن کی حامل پالیسی اپنانی ہو گی تاکہ قوم کو مزید کوئی بری خبر نہ ملے احتجاجیوں میں اگر خدا نخواستہ کسی کے ناپاک عزائم ہیں تو انھیں ناکام بنانے کے لئے وفاقی حکومت کو صبروتحمل ،فہم وفراست،تدبرکا مظاہرہ کرنا ہوگا عمران خان کی جذباتی تقریر نے بھی بہت سے سوالات ،خدشات کو جنم دیا ہے قادری صاحب کی طرح وہ بھی پراسرار تقریر کرکے اپنے نوجوانوں کو اشتعال دلانا چاہتے ہیں اگر کسی نے ان پر حملہ نہیں کرنا تو انکی تقریر ملک دشمنوں کو دعوت دے رہی ہے کہ حملہ کیا جائے تاکہ ملک میں آگ و خون کو بازار گرم ہو اپنے نوجوانوں کو اس طرح حکم دینا کوئی دانش مندی نہیں ہے اس اعلان سے عمران خان بھی پائیدار شخص ثابت نہیں ہوئے مخلص رہنماء تو مرتے وقت بھی اپنے ساتھیوں کارکنوں کو ملک میں امن قائم رکھنے کے لئے پرامن رہنے کی تلقین کرتے ہیں مگر یہاں بغاوت،قتل و غارت گری کا حکم دیا جا رہا ہے اس اعلان کے بعد طاہرالقادری اور عمران خان میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا عمران خان نے اگر فرق قائم رکھنا ہے تو ابھی سے ہوش سے کام لینا ہوگا کہیں ایسا نہ ہو خان صاحب آپ کے جذباتی ،اقتدار کے حصول کے لئے کئے جانے والے خطابات ملکی سلامتی کے لئے خطرہ بن جائیں تب قوم آپ اور آپ کی جماعت کو کبھی معاف نہیں کریگی 14اگست کو مارچ ضرور کریں مگر ملک کی نازک حالت کا بھی ضرور خیال رکھئے گاقوم 14اگست کو امن محبت اخوت عزم نو کا پیغام سننا چاہتی ہے اس پر قوم کو تقسیم کرنا ہرگز درست نہیں ۔۔۔۔ ان خدشات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ انقلاب مارچ اور آزدی مارچ کے پیچھے عالمی ملک دشمن خفیہ ہاتھ ہیں جو ملک کی اینٹ سے اینٹ اسکے اپنوں کے ہاتھوں سے ہی بجوانا چاہتے ہیں اسکے لئے یوم آزدی کا انتخاب کیا گیا ہے ساری قوم خصوصا ڈاکٹرانقلابی اور سونامی خان کو یوم آزادی پر تصادم سے گریز کرنا ہوگااگر خدا نخواستہ ایسا نہ ہوا تو قوم انکو معاف نہیں کریگی ۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 245738 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.