میں پاگل نہیں ، دماغ چلا ہوا ہے

کراچی نفسیاتی ہسپتال کے سرپرست ڈاکٹر مبین اختر کے مطابق پاکستان میں 4کروڑ افراد ذہنی مرض میں مبتلا ہیں اور 70فیصد علاج کیلئے کسی بھی معالج کے پاس نہیں جاتے۔جبکہ حیران کن بات یہ ہے کہ ننانوے فیصد گھر والوں کو بھی پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کا رشتے دار کسی نفسیاتی الجھن میں گرفتار ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ پر تو کسی قسم کاتبصرہ اس لئے نہیں کرسکتا کیونکہ میں خود ایک مرتبہ گلستان جوہر میں واقع ایک نفسیاتی ہسپتال میں اپنے ذہنی خلفشار کو دور کرانے کیلئے کچھ عرصہ جاتا رہا ، ایسا نہیں تھا کہ میں پاگل تھا ، بلکہ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ میرا دماغ چل گیا ہے ۔مجھے جو معالج دیا گیا اس صنف مردانہ تھی ، جبکہ میری خواہش تھی کہ کوئی صنف نازک میری معالج ہو ، کیونکہ ہسپتال میں خوبصورت ڈاکٹروں کو دیکھ کر دل چاہتا تھا کہ بالکل پاگل ہوجاؤں ، لیکن دل تو پاگل ہے سے زیادہ آرزو کبھی نہیں رکھی کیونکہ ان کے پیروں میں پہنی ہوئی ہیل دیکھ کر مجھے اس بات کا بھی پورا یقین تھا کہ ذہنی مریض تو سب ہی ہیں اگر ایک سینڈل بھی پڑ گئی تو لینے کے دینے میں پڑ جائیں گے اس لئے مردانہ نما ڈاکٹر پر ہی گزارا کرنا پڑا ، لیکن وہ اس قدر خشک مزاج تھا کہ ایک بار مجھے ایسے کہنا پڑا کہ جناب مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اپنے علاج کی ضرورت ہے ، مجھے وقت دیکر خود تاخیر سے آتے ہیں ، جو کہنا چاہتا ہوں ، تو اپنا دل کا دکھڑا سنانا شروع کردیتے ہیں ، مجھے پریشانیاں اور الجھنیں ہیں اس کا حل چاہتا ہوں میری مدد کرنے کے بجائے آپ مجھے مزید پریشان کر رہے ہیں ۔ اس لئے انھیں خیر باد کہہ دیا ، بار بار معافی بھی مانگی ، لیکن میرا دماغ جو چلا ہوا تھا اس لئے ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوا اور پھر دوبارہ کسی معالج کے پاس نہیں گیا ۔

کبھی کھبار سوچتا ہوں کہ ذرا یہ بھی تو دیکھوں کہ میں ہی ایسا ہوں ، تو میں ایسا کیوں ہوں ، لیکن بعد میں مختلف تجارب کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پاکستان میں تقریبا سارے لوگ ذہنی مریض ہیں صبح اٹھتے ہی اخبار دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں کہ رات کو کیا ہوا ہوگا ، ارے رات کو کچھ ہوا ہوگا اگر ہوتا تو الیکڑونک میڈیا بریکنگ نیوز دے دیتا ہے، لیکن اس پر بھی ہمیں یقین نہیں آتا ، پھر ٹی وی کھول کر خبر نامہ لگاتے ہیں کہ عمران خان نے دھرنا ختم کیا کہ نہیں ، قادری صاحب کے انفکشین سے متعلق تازہ صورتحال کیا ہے ، سیاستدانوں کی خیریت عافیت دریافت کرنے کے بعد چوبیس گھنٹوں کی کاونٹنگ کرتے ہیں کہ اس عرصے میں کتنے بے گناہ ٹارگٹ کلنگ میں ہلاک ہوئے ، کتنے پولیس مقابلے ہوئے ، کتنے چھاپے پڑے ، سیاسی ، مذہبی جماعتوں کے کتنے کارکن شہید ہوئے ، اب تو وزیر اعلی صاحب نے بھی فتوی جاری کردیا ہے کہ کچی شراب پینے سے اگر کوئی ہلاک ہوجاتا ہے تو وہ معصوم ہی نہیں بلکہ شہید ہے ، نعوذ باﷲ ۔ اب اگر ذہنی سطح کی یہ صورتحال ہو تو خود کو پاگل ہی کہا جاسکتا ہے ۔پنجاب میں سیلاب آیا ہوا ہے ، لیکن سیاسی رہنما اس پر بھی سیاست کر رہے ہیں ، آئی ڈی پیز کا پرسان حال نہیں ہے لیکن ایک بات بڑی خوش کن ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی بار فاٹا کی عوام کیلئے فوج میں داخلے کیلئے دروازے کھول دئیے گئے ہیں ۔ویسے پاکستان میں میرے نزدیک نفسیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ شادی شدہ ہونا ہے اور اس سے بڑی وجہ غیر شادی شدہ ہونا ہے ، شادی شدہ افراد اپنا غصہ غیر شادی شدہ نوجوانوں پر اتارتے ہیں تو غیر شادی شدہ سیاست دان اپنی کم نصیبی کا لاوا ، شادی شدہ افراد بھی اتار دیتے ہیں اس لئے تو جلسوں میں خواتین ، بچوں اور ان کے خاوند نامدار کی موجودگیوں کو یقینی بنایا جانا فوقیت رکھتا ہے۔کراچی میں تو یقینی طور پر جو بچے پیدا نہیں ہوئے وہ بھی ذہنی مریض ہونگے ، ان کو بھی ڈر لگتا ہوگا کہ منہ دکھائی میں دئے جانے والے تحائف کوئی لوٹ نہ لے ، شادی ہالوں میں ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی دلہن کا زیور لوٹ نہ لے ، گھر خالی چھوڑ نہیں سکتے کہ محلے کا کوئی اچکا لوٹ نہ لے ، ڈر خوف و ہراس کے اس سائے میں انسان ذہنی مریض نہ بنے گا تو کیونکر نہیں بنے گا ۔ میں نے ایک لڑکی سے محبت کی ، محبت کیا کی ، کہ عذاب سر پر لے لیا ،لمحے لمحے بعد فون ، میسج ، کہاں ہو ، کدھر ہو ، کس کے ساتھ ہو ، آئے کیوں نہیں ، بور ہو رہی ہوں ، گھومنے چلیں ، فلاں ریسٹورینٹ چلیں ، فلاں فلم دیکھیں ، یار محبت نہیں کی بلکہ ایسا گناہ کرلیا کہ جیسے گارگل پر حملہ میں نے ہی کروایا ہو یا پھر عمران خان کو دھرنے اور قادری کو انقلاب کے لئے میں نے راضی کیا ہو ۔اب کمبل ہے کہ جان چھوڑتا نہیں ، کیا کروں سمجھ نہیں آتا ، غم سے بھرے اشعار لکھوں تو درد بھرے پیغامات آنے شروع آجاتے ہیں کہ تیرا غم ، میرا غم ہے ۔محسور کن اشعار لکھ بیٹھوں تو ، مصیبت کہ دنیا میں کیا حالات چل رہے ہیں اور تمھیں نو ٹنکی سوجی ہوئی ہے ، کسی کے جنازے میں چہرہ اداس لے کر بیٹھ جانا بھی مصیبت ، کہ کیا تمھاری ہوتی سوتی کا کوئی رشتے دار ، جو اس قدر غم زدہ ہو ، مسکراؤ ، تصویریں بنا ئی جا رہی ہیں ، مسکرانے کی کوشش میں دانت باہر نکل آتے ہیں تو چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں کہ ہو ، نہ ہو کہ اسے وصیت میں کچھ نہ کچھ ضرور ملا ہے تبھی اتنا خوش ہے۔زندگی میں آرام نہیں ، سکون نہیں ، اپنی طرز کی زندگی بس کر نہیں سکتے ، تبلیغ میں جاؤ تو ، پیچھے سے آواز آتی ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی ، غصہ ہر وقت رہنے لگا ہے ، لائٹ چلی جائے تو منہ سے نا مناسب الفاظوں کی بھرمار ، اگر لائٹ آجائے اور کوئی بن بلایا مہمان بھی آجائے تو بھی الیکڑک کمپنی کو کوسنے ، کبھی کبھی واقعی ایسا لگتا ہے جیسے اگر اسلام میں دوسرے جنم کا کوئی تصور (نعوذبا ﷲ) ہوتا تو پتہ نہیں کس عذاب کے نتیجے میں پاکستان میں بھیجا گیا ہوں ۔ ایک بار والدہ سے الجھ بیٹھا کہ ، امی ، امریکہ میں مجھے کیوں پیدا نہیں کیا ، رہ دہ کر پاکستان رہ گیا تھا ، تو وہ بچارگی سے کہنے لگی کہ بیٹا ، تم وہ کام کرلو ، جو میں نہیں کر سکی ، سر کھجا کر باہر جانے میں عافیت جانے کو درست سمجھتا ہوں ۔

کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کروں تو کیا کروں ، کبھی کھبار ، اپنے ایڈیٹرز صاحبان پر غصہ آجاتا ہے کہ بھلے آدمی ہیں ، دنیا بھر کی خبریں پڑھ پڑھ کر اتنے بے حس ہوگئے ہیں کہ انھیں اپنے کالم نویسوں کا خیال ہی نہیں ، پھر خیال آتا ہے کہ اگر انھیں خیال نہیں آتا تو لکھ کیسے رہے ہوتے ، اپنی فیس بک کے پروفائل کی ٹائم لائن میں کٹی پہاڑی پر اپنی تصویر کے ساتھ لکھ دیا کہ میرا پیارا ، پر امن علاقہ ۔۔لکھنا کیا تھا کہ مذاق بن گیا ، اب اگر یہ پر امن نہیں ہے تو کیا ہے کہ ہر وقت بلا معاوضہ رینجرز ، پولیس ہر وقت گشت کر رہے ہوتے ہیں ، ڈاکو ، ڈکیٹ ،چور چکاری سے بچت ہوجاتی ہے ، چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت گھر سے باہر جاتے وقت دنیا بھر کی دعائیں مفت میں مل جاتی ہیں ، خیر عافیت اور صدقے اتارے جاتے ہیں ۔واپس آنے پر گھر والے لپٹ کر خوشی کے مارے روتے ہیں اور اگلے دن صدقہ خیر بانٹ دیتے ہیں ۔اب اسی نعمت کسی اور علاقے میں کسی کو میسر ہو تو بتائے ، ہاں، کبھی کبھار بم دہماکے ، کریکر وغیرہ کے معاملات ہوتے رہتے ہیں ، بچے بات نہیں سنتے تو شعلے فلم کا ڈائیلاگ مارتے ہیں کہ ، خاموش ہوجاؤ ، ورنہ ’بھالوـ‘ آجائے گا ، لیکن بچے بھی بڑے ہوشیار کہ بھالو تو مارا گیا اب کیسے آئے گا ، تو انڈین فلم کا تاثر لیکر کہنا پڑتا ہے کہ اس کی روح بھٹک رہی ہے کہ جس نے اسے محفوظ اﷲ سے بھالو بنایا ، اس سے انتقام لئے بغیر نہیں جائے گا ۔ تو پھر بچے مسکرا کرسو جاتے ہیں کہ آج کھانے میں گوشت نہیں ملا تو اس لئے بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں ۔چھینپ کر کہنا پڑتاہے کہ تم لوگ میرا مذاق مت اڑاؤ میں گوشت خور ضرور ہوں ، لیکن زندہ انسانوں کا گوشت نہیں کھاتا ، غیبت نہیں کرتا ، جو کہتا ہوں ، منہ پر کہتا ہوں ، اچھا لگے یابُرا لگے ۔ لیکن مجھے پاگل مت سمجھوکیونکہ میں جودیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے ، تو وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ بات تو آپ کی درست ہے کیونکہ آپ نے چشمہ جو اتار دیا ہے ۔اب آپ کو کچھ نظر ہی نہیں آرہا تو ہم کیا جانے کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں ۔ میں کہتا ہوں کہ چپ ہوجاؤ ، بھارت دہمکی دے رہا ، افغانستان غصے میں ، یونٹس بنائے جانے کی بات ہو رہی ہے ، امریکہ ناراض ہے ، ایران ناراض ہے ، بھائی بھی غصے میں ہے ، مرسوں مرسوں بھی بہت چل رہا ہے ، دعا کرو کہ جلدی پاگل ہوجاؤں تاکہ پاکستان کو پاگل ہوتا نہ دیکھ سکوں۔اس لئے ابھی صرف میرا دماغ چلا ہے پاگل نہیں ہوا ہوں
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 744176 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.