آئین پاکستان وعوامی حقوق
(Lala Sana Ullah Bhatti, )
آئین کسی مملکت کا وہ اساسی
قانون ہوتا ہے جو اس مملکت کے نظریات اور اسکے مختلف شعبوں کے درمیان فرائض
اور اختیارات کی حدود کا تعین کرتا ہے۔ زمانہء قدیم میں آئین کا اہم کام اس
بات کا تعین کرنا تھا کہ ملک پر کس کی حکومت قائم ہوگی۔ کسی فرد کو ملک کا
سیاسی اختیار تفویض کرنے کا معیار اس ملک کے معاشرتی نظام کے جذباتی رویوں
اور طرزِ عمل کی عکاسی کرتا تھا۔ آئین کی خواہ کوئی بھی وضع ہو، وہ عوام کے
اخلاق پر اثرانداز ہوتی تھی۔ اگرچہ جدید دساتیر زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں لیکن
کسی ریاست میں حکومتی اختیار حاصل کرنے اور اسے بروئے کار لانے والے قوائدو
قوانین عام طور پر معاشرے کے تصورات و اقدار اور اساسی عقائد و نظریات کی
نمائندگی کرتے ہیں۔
1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد آئینی شفارشات کی کمیٹی کی طرف
سے آئینی مسودہ 2 فروری 1973ء کو منظوری کیلئے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
مختلف مراحل سے گزار کر اس آئینی مسودے کو 10اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی کی
طرف سے منظوری حاصل ہوئی اور 12اپریل کو صدرِ مملکت جناب ذوالفقار علی بھٹو
نے بھی اس پر دستخط کردیئے۔لیکن سینیٹ کی تشکیل نہ ہونے کی وجہ سے اس منظور
شدہ آئین کو فوری طور پر نافذ نہیں کیا گیا۔ آئین کے نفاذ کے لیے 14اگست
1973ء کا دن مقرر کیا گیا۔ اسی تاریخ کو آئین میں ’ـآئین کے آغاز کا دن‘
بھی قرار دیا گیا۔ 14اگست 1973ء کو نیا آئین نافذ کردیا گیا اور مولانا شاہ
احمد نورانی، مولانا عبدلاستار خان نیازی، مولانا مفتی محمود اور مولانا
ظفر احمد انصاری نے متفقہ طور پر اس آئین کو اسلامی آئین بھی قرار دیدیا۔
موجودہ دور میں نافذ آئینِ پاکستان کے کل 280آرٹیکلز ہیں۔ ان میں سے پہلے
40آرٹیکلز عوام کے حقوق کے متعلق ہیں اور بقیہ240آرٹیکلز طرزِ حکمرانی سے
متعلق ہیں۔
پاکستان کے آئین کو اگر اسی نظر سے دیکھا جائے،جس نظر سے راقم الحروف دیکھ
رہا ہے تو پاکستانی عوام کو اپنی قدراورحقوق کا بخوبی اندازہ ہوجائیگا ۔۔۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نافذ کیے گئے آئین کے صرف 40آرٹیکلز عوامی حقوق
کی نمائندگی کرتے ہیں اور دیگر 240آرٹیکلز یہ بتاتے ہیں کہ ملک کا صدراور
وزیر اعظم کیسے منتخب ہوگا؟ حلف کیسے اٹھایا جائے گا اور وہ حلف لینے کا
اہل کون ہوسکتا ہے؟ تقرریاں کیسے ہوں گی اور برطرفیاں کون کون کرسکتا ہے؟
وغیرہ ۔ اور اسکے مقابلے میں اگر آپ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے آئین کا
مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان ممالک میں نافذآئین کی اکثریتی
شقیں عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بناتی ہیں۔ چھوٹی سے چھوٹی
سہولت کو تفصیل سے شقوں کی صورت میں واضح کرکے حکمرانوں کو پابند کیا جاتا
ہے کہ وہ عوام کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائیں ورنہ سزا بھگتنے کیلئے
تیار ہو جائیں۔
مختلف سربراہانِ مملکتِ پاکستان کے ادوار میں آئین میں سترہویں، اٹھارویں
اور انیسوین ترامیم ہوئیں۔ یہ تمام شقیں وزیرِ اعظم اور صدر کے اختیارات کے
گرد گھومتی ہیں۔ گذشتہ ادوارِ حکومت اور موجودہ دورِ حکومت میں سربراہانِ
مملکت نے آئین کی ان شقوں کو ہرگز نہیں دیکھا کہ عوام کے کیا حقوق ہیں اور
حکمرانوں کے کیا فرائض ہیں۔ حکمرانوں نے صرف ان شقوں میں ترامیم کیں جو ان
کے اختیارات کو وسیع کرتی ہیں۔ قارئین کی معلومات کیلئے ۔۔ آئین میں ترمیم
کے لیے ایوانِ زیریں میں دو تہائی اور ایوانِ بالا میں بھاری اکثریت کی
ضرورت ہوتی ہے اور آئین کی منظوری دینے والے وہی لوگ ہیں جو ہماری ووٹوں کی
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے عوامی نمائندے منتخب ہوتے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعداکتوبر 1947ء میں حکومتِ پاکستان کے افسران سے خطاب کے
دوران اپنے نصب العین کی وضاحت کرتے ہوئے بانیء پاکستان قائدِ اعظم محمد
علی جناح نے فرمایا تھا کہ ؛ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت
کی تخلیق کریں جہاں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں، جو ہماری تہذیب و تمدن
کی روشنی میں پھلے پھولے اور معاشرتی انصاف کے اسلامی تصور کو پوری طرح
پنپنے کا موقع ملے۔
’’آئین کے آرٹیکل 38میں عوام اور معاشرتی فلاح و بہبود کے فروغ کا ذکر ہے۔
اس شق کے مطابق مملکت؛ عام آدمی کے معیارِ زندگی کو بلند کرے، دولت ،
سوائل، پیداوار اور تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے
روکے کہ اس سے مفادِ عامہ کو نقصان پہنچے، آجر و ماجور اور زمیندار و مزارع
کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دیکر بلا لحاظ جنس، ذات، مذہب و
نسل، عوام کی فلاح و بہبود کی کوشش کریگی۔ تمام شہریوں کیلئے ملک میں
دستیاب وسائل کے دائرہء کار کے اندر معقول آرام و فرصت کیساتھ کام اور
مناسب روزگار کی سہولتیں مہیا کریگی۔ تمام ملازم اشخاص کو لازمی معاشرتی
بیمہ کے ذریعے یا کسی اور طرح معاشرتی تحفظ مہیا کریگی۔حکمران ان تمام
شہریوں کیلئے جو کمزوری، بیماری یا بیروزگاری کے باعث مستقل یا عارضی طور
پر اپنی روزی نہ کما سکتے ہوں، بلالحاظ جنس، ذات، مذہب و نسل، بنیادی
ضروریاتِ زندگی مثلاََ خوراک، لباس، رہائش، تعلیم اور طبی امداد اور
سہولیات مہیا کریگی۔ پاکستان کی ملازمت کے مختلف درجات میں اشخاص سمیت
افراد کی آمدنی اور کمائی میں عدم مساوات کو کم کریگی۔ سود کو جتنی جلدی
ممکن ہو، ختم کریگی۔ تمام وفاقی ملازمتوں میں بشمول خود مختار اداروں اور
کارپوریشنز کے، جن کا قیام وفاقی حکومت کے ذریعے عمل میں آیا ہو، یا وفاقی
حکومت کی زیرِ نگرانی ہوں، صوبوں کا حصہ یقینی بنایا جائے گا اور ماضی میں
صوبوں کے حصوں کی تقسیم میں ہونیوالی فروگزاشت کو درست کیا جائیگا‘‘۔
قارئین ! راقم الحروف نے اس تحریر میں آئین کی صرف ایک عوامی حقوق کی
نمائندہ شق کا ذکر کیا ہے ۔ آپ اندازہ لگائیں کہ کیا واقعی پاکستانی عوام
کو وہ حقوق میسر ہیں جو آئین کی 280شقوں میں سے 40عوامی شقوں میں وضاحت کے
ساتھ لکھے ہیں؟ حکمرانوں کو تو بہرحال وہ تمام حقوق میسر ہیں ہی، بلکہ اس
سے بھی کافی۔۔ کافی زیادہ حقوق میسر ہیں جو آئین میں واضح کیے گئے ہیں۔
کہنے کو پاکستان میں جمہوریت قائم ہے، لیکن ہم عوام ہی جانتے ہیں کہ اس
جمہوریت کے قیام اور اسکے نفاذ کے دور میں ہم کیسے گزارا کررہے ہیں۔ ہر
حکمران، ہر ایم این اے، ہر ایم پی اے ، یہ سب لوگ صرف اپنی کرسی، اپنے
اختیارات کے لیے ووٹ مانگتے ہیں۔ آئینِ پاکستان سے اس مخصوص طبقے کا تعلق
صرف اقتدار کے مزے لوٹنے کی حد تک ہے اور اس سے بڑھ کر فی الحال تو ہمیں
کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ہم عوام مزید کا مطالبہ نہیں کرتے لیکن آئین میں
موجود عوامی حقوق کی شقوں کے مطابق ہی اگر ہم عوام کو حقوق میسر آجائیں تو
ہمارا پاکستان واقعی ہمارے لیے جنت بن جائے۔ |
|