وزیر اعظم رامي الحمد اللہ کي
قيادت ميں غزہ کے اندر فلسطين کي متحدہ قومي حکومت کا اولین اجلاس غیر
معمولی اہمیت کا حامل تھا ۔ لیکن اس موقع پرمغربی ذرائع ابلاغ نے ہمیں
ملالہ کا جھنجھنا پکڑا دیا اور جن کو اس میں دلچسپی نہیں تھی انہیں داعش کی
دہشت کا شکار کردیا۔ مغرب کامکارمیڈیا مسلمانوں کے انتشار وافتراق کو بڑھا
چڑھا کر پیش کرتا ہے ۔ ہماری ناکامیوں کو خوب اچھالتا ہے اورمغرب کی ناکامی
و مظالم پر پردہ ڈال دیتا ہے۔ وہ ہماری کامیابی کو نظرانداز کرتا ہے اور ہم
بھی ان کی جانب متوجہ نہیں ہوتے بلکہ اخلاص کے ساتھ امت کو بیدار کرنے کی
خام خیالی میں اس کی لائن کو پیٹتے ہوئے ملت میں مایوسی پھیلانے میں
لگےرہتے ہیں اورسوشیل میڈیا میں ایسی ویڈیوز پھیلاتے رہتے ہیں جن میں سے
بیشتردشمنوں کا پروپگنڈا ہوتی ہیں ورنہ کیا وجہ ہے نہ تواقوام متحدہ میں
محمود عباس کی تقریر کا کوئی کلپ دیکھنے کو ملتا ہے اور نہ رامی الحمداللہ
کی غزہ میں گارڈ آف آنر کے ساتھ تصویر نظر آتی ہے بلکہ غزہ کی تعمیر نو
کیلئے منعقدہ کامیاب کانفرنس کے اعداد شمار بھی ہمارےآنکھوں سے اوجھل ہی
رہتے ہیں۔
فلسطین کے وزیر اعظم رامی الحمداللہ گزشتہ ہفتہ جب پہلی مرتبہ غزہ تشریف
لائے تو حماس کے نائب سربراہ اسماعيل ہنيہ نے ان کے ساتھ آنے والےارکان
اجلاس کا خير مقدم کیا اس کے بعد حماس کے اہم رہنماوں کے ساتھ ان کی میٹنگ
ہوئی اور وزيراعظم نےغزہ میں متحدہ تمام سہولیات فراہم کرنے کیلئے حماس کا
شکريہ ادا کيا ۔ ان تمام خوش کن خبروں کو توگمنامی کے غار میں جھونک دیا
گیالیکن اگر کل کو ان کے درمیان کوئی اختلاف کھڑا ہو جائے تو عالمی ذرائع
ابلاغ اسے اچھالنے لگے گا اور ہم بھی اس کی پیروی میں انہیں پھیلاکر ایک
دوسرے کو لعن طعن کرنے یا گریہ و ماتم کرنے میں جٹ جائیں گے۔۔
فلسطین کی یہ نوزائیدہ متحدہ قومی حکومت۲۳ اپريل ۲۰۱۴ کوحماس اور فتح کے
درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت قائم ہوئی ہے ۔ ماہِ جون سے رام
اللہ کے اندراس کو اپنا کام شروع کرنا تھالیکن چونکہ اس کی ۱۷رکنی کابینہ
میں سے ۵ کا تعلق غزہ سے تھا اس لئےغاصب اسرائیل نے ان وزراء کو تقریب حلف
برداری کیلئےآنے سے روک دیا ۔ مشیت نے چار ماہ بعد وہ دن دکھلایا کہ سرزمینِ
غزہ پر فلسطين کی متحدہ قومي حکومت کا اولین اجلاس منعقد ہوگیا اوربے دست و
پا اسرائیلی حکومت ذلت و رسوائی کے عالم میں اس پیش رفت کو دیکھ کر کڑھتی
رہی ۔
اسرائیلی اخبار ہآرتض نے جون کے اندرہی اپنی حکومت کومتنبہ کردیا تھا کہ ’’
فلسطین کی متحدہ قومي حکومت کا دنيا کے بيشترملکوں کي جانب سے خير مقدم کئے
جانے کے بعد اب اسرائيل کے پاس اس کو تسلیم کرنے کے علاوہ اور کوئي چارۂ
کار نہيں ہے‘‘۔ اس دانشمندانہ مشورے پر کان دھرنے کے بجائے اسرائیل کی دہشت
گرد حکومت نے بزور قوت حکومت کے قیام میں رخنہ اندازی کی خاطر امسال ۸
جولائي کو غزہ پر جنگ مسلط کردي مگرتحریک مزاحمت حماس کے صبرو استقامت اور
دلیری و جوانمردی نے صہيوني عزائم کو ملیامیٹ کردیا۔اس عظیم کامیابی سہرہ
باہمي اتحاد اور نصرت الٰہی کے سر ہے۔ جو تحریک سرِ مقتل حق کی شہادت دیتی
ہے اس پر مولانا عطاء الرحمٰن وجدی کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ ؎
آپ ہی مقتل بول اٹھے گا کون جری ہے کون نہیں
ان کے ہاتھ میں سنگیں ہیں ہم نے سینے تانے ہیں
وزيراعظم رامی نے اجلاس کے بعد کہا کہ حکومت طے شدہ معاہدوں پر عمل درآمد
کرنے کي ہرممکن کوشش کرے گي- انہوں نے اس کام کاجائزہ لينے کے لئے ايک
کميٹي کے تشکيل کا اعلان کیا - وزیر اعظم نے یقین دلایا کہ غزہ کے عوام کي
ہر طرح سے خدمت کي جائےگي اور حکومت اس سلسلے ميں کسي بھي کوشش سے دريغ
نہيں کرے گي – اس موقع پر نائب وزيراعظم اور وزيرخزانہ محمد مصطفي نے بتایا
کہ فلسطين کے مقبوضہ علاقوں سے ملحقہ غزہ کي گذرگاہوں کونئی حکومت نے اپنے
کنٹرول میں لے لیا ہےاور اس کے فني ماہرين غزہ کے راستوں پر آمد و رفت اور
تعمیر نو کي خاطر آنے والی درآمدات کي نگراني کررہے ہیں -
نو تشکیل شدہ فلسطینی حکومت کادنیا بھر کے امن پسند ممالک نے کا خیر مقدم
کیا تھا۔ روسي وزارت خارجہ نے اس کے قیام کو ايک تاريخ ساز واقعہ قرار دیتے
ہوئے کہا تھا کہ باہمی اتحاد و يک جہتي کے بغير فلسطيني ارمانوں کي تکميل
اور صيہوني حکومت کے ساتھ اختلافات کا منصفانہ حل ممکن نہيں ہے ۔ماسکو نے
فلسطين کي متحدہ قومي حکومت کے ساتھ دوستانہ روابط کے فروغ اور تعاون کا
یقین دلایاتھا۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے خصوصی ایلچی
برائےمشرق وسطیٰ رابرٹ سیری نےاس قومی حکومت کی حمایت کرتے ہوئےاسرائیل اور
مصر سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ رابرٹ سیری نے
اسرائیل کی مخالفت کے باوجود غزہ کا دورہ کر کے چار وزراء سے ملاقات کی اور
اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے مزید امداد کا وعدہ بھی کیا۔ نئی
حکومت کے قیام کے بعدوہ غزہ کا دورہ کرنے والے پہلے عالمی عہدے دار تھے۔
فلسطین کی مخلوط حکومت کے قیام سے اسرائیل کو سب سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا
جب اسرائیل کے سرپرستِ اعلیٰ امریکہ نے اس حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا
اعلان کر دیا۔امریکہ نے یہ اعلان فلسطین کی مخلوط حکومت کے حلف اٹھانے کے
محض چند گھنٹے کے اندر نیتن یاہو کے اس انتباہ کے باوجود کیا تھا کہ’’
عالمی برادری فلسطینی حکومت کو تسلیم کرنے میں عجلت سے کام نہ لے‘‘۔
اسرائیلی حکومت نے امریکی موقف پرغٖم و غصے کا اظہار اس طرح کیا کہ’’ ہم
مخلوط فلسطینی حکومت کے متعلق امریکی دفتر خارجہ کے بیان سے سخت مایوس ہوئے
ہیں ''جبکہ فلسطینی اتھارٹی کے ایک عہدیدار کے مطابق امریکہ کی جانب سے نو
منتخب وزیر اعظم رامی الحمدللہ کو واشنگٹن کے دورے کی دعوت موصول ہوئی جو
اس بات کاعندیہ ہے کہ امریکہ فلسطین میں حماس کی شراکت سے وجود میں آنے
والی قومی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے لیکن جنگ نے رنگ میں بھنگ
ڈال دیا۔
اسرائیل کی تمامتر رکاوٹوں کے باوجود فلسطینی حکومت کا اولین اجلاس ۱۲
اکتوبرکوغزہ کی باز آبادکاری کیلئے مصر اور ناروے کی مشترکہ میزبانی میں
عالمی امدادی کانفرنس کے اہتمام سے تین دن قبل منعقد ہوا ۔ کانفرنس سے قبل
وزیراعظم رامی الحمداللہ نے بذاتِ خودپچاس روزہ اسرائیلی وحشیانہ بمباری کی
تباہ کاری کا جائزہ لیا ہے۔ان کے اندازے کے مطابق غزہ میں تعمیر نو کے لیے
چار ارب ڈالرز کی رقم اور تعمیراتی منصوبوں کی تکمیل کیلئے تین سال درکار
ہے۔ اس کانفرنس میں ۳۰ ممالک کے مندوبین نے شرکت کی جن میں بان کی مون، جان
کیری، یورپی یونین کی کیتھرین آشٹن اور عرب لیگ کے ڈاکٹر نبیل العربی کے
علاوہ فرانس، برطانیہ، اردن، جاپان اور قطر کے وزرائے خارجہ شامل تھے۔
ڈونرز کانفرنس کی غیر معمولی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے
کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے چار ارب ڈالرز کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کے جواب
میں عالمی مندوبین نے پانچ ارب چالیس کروڑ ڈالرز کی رقوم دینے کے وعدے کیے۔
امریکہ نے ۲۱ کروڑ ۲۰ لاکھ تو یوروپین یونین نے اس سے دوگنی رقم کی یقین
دہانی کرائی لیکن قطر جیسے ننھے سے ملک نے امریکہ اور یورپی یونین دونوں پر
بازی مارلی اور سب زیادہ ایک ارب ڈالرز دینے کا اعلان کرکےثابت کردیا کہ
فلسطینیوں کا سچا ہمدرد کون ہے؟صدرمحمود عباس نے امدادی کانفرنس سے خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ ''گذشتہ ۶سال کے دوران غزہ کو تین جنگوں کا سامنا کرنا
پڑا ہے۔اس کے تمام علاقے تباہ ہوچکے ہیں اور اب تباہ شدہ سرکاری اداروں کی
بحالی کے لیے فنڈز درکار ہیں''۔ امداد سے آگے بڑھ کر آپ نے فرمایا
''فلسطینی ،اسرائیلی تنازع کےحل کیلئے اب نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے
اورعالمی برادری کو اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعہ اسرائیلی قبضہ ختم
کراناچاہیے''۔اقوام متحدہ کے سکریٹری بان کی مون نے منگل کو غزہ میں عوام
سے براہ راست گفتگو کی ۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر ناوی پلے نے اسرائیل پر الزام لگایا تھا
کہ اس نےغزہ میں شہری علاقوں ،اسکولوں ،اسپتالوں مکانوں اور اقوام متحدہ کی
تنصیبات کو نشانہ بنا کر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ناوی پلے
نے اسرائیلی فوج کے غزہ پاور پلانٹ، نکاسیِ آب کے نظام اور پانی کے کنوؤں
پر حملوں کی کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج نے ۲۰۰۹ میں بھی
بجلی گھر اور پانی کی فراہمی و نکاسی کے نظام کو اسی طرح تباہ کردیا تھا۔
اب امریکی دفتر خارجہ کہتا ہے کہ وہ اسرائیل کو غزہ کی تعمیر نو کے لیے
ضروری سہولتیں دینے پر تیار کرنے کی کوشش کرےگا۔ یہ اس لئے ضروری ہے کہ
پچھلے کئی برسوں سے اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے اور مصر آئے دن
رفح راہداری کو بند کر دیتا ہے۔ امریکی ڈرامہ سے قطع نظر حالیہ جنگ بندی
معاہدے کے تحت اسرائیل ساحل کی جانب سے غزہ کامحدوود پیمانے پر راستہ
کھولنے پر مجبور ہوا ہے۔
عالمی برادری کا یہ عجیب منافقانہ رویہ ہے کہ پہلے اسرائیل کو تباہی مچانے
کی چھوٹ دی جاتی ہے اور پھرتعمیر نوکیلئے امدادجمع کی جاتی ہے۔ اسرائیل کو
اس کےجرائم کی سزا دینے کے بجائے فلسطین پراسرائیل کے خلاف عالمی اداروں سے
رجوع نہ کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ اسرائیل کے
جنگی جرائم کو عالمی عدالت میں لے جانے سے اسرائیل مشکل میں پڑ سکتا ہے ۔
اس کے برعکس مغربی کنارے کی سیاسی جماعتیں صہیونی ریاست کے خلاف عالمی
فوجداری عدالت سے رجوع کرنے کیلئے صدرمحمود عباس پر دباؤ بنائے ہوئے ہیں۔اس
دباؤ کے تحت صدر عباس نےاقوام متحدہ میں اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار
دے دیا۔ انہوں نےغزہ کے خلاف جنگ کو قطعی طور پر جنگی جرائم کا ایک سلسلہ
گردانتے ہوئےاس کے قصوروار اسرائیل کوسزا دلانے کے لئےجرائم کی عالمی عدالت
سے رجوع کرنے کے عزم ِ مصمم کا اظہار کیا۔
صدر محمود عباس تمام عمر مصلحت کوشی کا شکار گول مول باتیں کرتے رہے اس لئے
مغرب نے انہیں سر آنکھوں پر رکھا اور امن کے گاجر دکھا کر بے وقوف بناتا
رہا ۔ گزشتہ سال انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ فلسطین کی آزادی کا سال ہے
لیکن اسرائیل اور اس کے ہمنواؤں نے انہیں اس قدر مایوس کیا کہ بالآخر
انہوں نے ببانگ دہل حق بات کہنے کا فیصلہ کرلیا اورمغرب کی تنقید کا نشانہ
بن گئے امریکہ نے صدر عباس کی تقریرکو جارحانہ کردار کشی قراردیتے ہوئے اس
پرافسوس کا اظہار کیا ۔ محمود عباس کی حق گوئی کے جواب میں نتن یاہو نے
جنرل اسمبلی میں الزام لگایا کہ ’’حماس اور داعش کا ایک ہی انتہا پسند مذہب
سے تعلق ہے‘‘ حالانکہ ہٹلر اور اوبامہ بھی ہم مذہب ہیں اور جہاں تک ظلم
وسفاکی کا سوال ہے اس بابت ہٹلر اور داعش کو صہیونیوں نے کب کا پیچھے چھوڑ
دیا ہے ۔
فتح کے حان اشراوی نےیاہو کی تقریر کے بارے میں کہاکہ ’’یہ حقائق کو مسخ کر
کےعالمی رہنماوں کو گمراہ کرنے کی ایک اندھی کوشش تھی۔ یہ بدزبانی اور غلط
گوئی مخبوط الحواسی کا مظہرہے۔اس پرحماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے کہا
کہ’’ نتن یاہو نے حماس اور داعش کو ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت کرنے کی کوشش
کی ہے، حالانکہ اسے پتہ ہے کہ حماس اپنی قومی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے
والی تحریک ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیل بدی، غصب اور دہشت گردی کا
دوسرا نام ہے‘‘۔
نتن یاہو کی بدحواسی قابل فہم ہے اس لئے کہ دن بدن عالمی سطح پراسرائیل کا
دائرہ تنگ ہوتا جارہا ہے اور ملک کے اندرونی حالات بھی دگرگوں ہوتے جارہے
ہیں ۔ اس کی دومثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔نومبر۲۰۱۲ میں جب اقوام متحدہ کے
اندر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تجویز رکھی گئی تو اسے ۹کے مقابلے ۱۳۸
ووٹوں سے شاندار کامیابی ملی مخالفت کرنے والےاسرائیل ،امریکہ، کینیڈا
اورجمہوریہ چیک کے علاوہ کچھ گمنام جزیرے تھے۔ اس انتخاب میں ۴۱ ممالک نے
رائے دینے سےاجتناب کیا تھا جن میں بیشتر کا تعلق مغربی یوروپ سے تھا لیکن
اب یوروپی قلعہ میں شگاف پڑنے لگا ہے۔ پہلے تو سویڈن نے اعلان کیا کہ وہ
فلسطین کو تسلیم کرنے جارہا ہے اور پھر برطانوی پارلیمان نے ۱۲ کے مقابلے
۱۴۲ ووٹ سے فلسطین کو تسلیم کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ یہودیوں کے گن
گانے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس ووٹنگ سے قبل ایک لاکھ ۴۰ ہزار
برطانوی مسلمانوں نے اپنے ممبران پارلیمان سے رابطہ کیا جبکہ یہودی صرف
۲ہزار دستخط جمع کرپائے۔
اسرائیل کے اندر پچھلے دنوں جرمنی چلو نام کی ایک مہم چلائی گئی جس کے تحت
۹۰۰۰ یہودی اسرائیل کو خیر باد کہہ کر اس جرمنی کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے
جہاں ہٹلر نے ان کا قتل عام کیا تھا ۔ جس ادارے نے یہ مہم چلائی اب وہ
اسرائیل چھوڑو کے تحت یوروپ کے مختلف ممالک میں یہودیوں کو لے کر جانے کا
رادہ رکھتا ہے ۔ نقل مکانی کرنے والے یہودی اسرائیل کے اندر مہنگائی اور
بیروزگاری کے سبب مایوسی کا شکار ہیں ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ یوروپ کا ماحول
ان کیلئے سازگار ہے بلکہ فرانس کے یہودی ان کے خلاف غم وغصے سے پریشان ہیں۔
یوروپ کے اندر سب سے زیادہ یہودی آباد ی والے پولینڈ میں قوم پرست حزب
اختلاف نے صہیونیوں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اس کے باوجود ترکِ وطن کی
لہر ٖغمازی کرتی ہے کہ اسرائیل کی معیشت دم توڑ رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ ایسے میں ان مکانوں کے اندر کون رہے گا جنہیں عالمی رائے عامہ کو
ناراض کرکے اسرائیلی حکومت تعمیر کررہی ہے۔ ممکن ہے آگے چل کر یہ ان
فلسطینیوں کےاستعمال میں آئیں جن کوبےخانماں کرکےیہ مکانات بنائے جارہے
ہیں؟
فلسطین کے اندر قائم ہونے والے فتح اور حماس کے اتحاد کو مغرب کے دانشور
مصر کی سرپرستی سے محرومی کے سبب حماس کی کمزوری قراردیتے ہیں حالانکہ وہ
لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں اتحاد کی ان کوششوں کا آغاز ڈاکٹر محمد مورسی
کے ایماء پر ۲۰۱۳جنوری میں ہوا جب عباس اور مشعل کی قاہرہ میں ملاقات ہوئی
۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اسلامی تحریک کے نزدیک اتحاد ملت دنیوی مجبوری نہیں
بلکہ دینی فریضہ ہے ۔ اس اتحاد کوپارہ پارہ کرنے کیلئےایک بین الاقوامی
سازش کے تحت ڈاکٹر محمدمورسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اس کے باوجود
اتحادو یکجہتی کا کارواں رواں دواں رہا ۔
حماس نے اپنے سیاسی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر متحدہ قومی حکومت کے قیام
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ حماس اقتدار سے
محرومی کے بعدازخود کمزور ہوجائیگی لیکن اسرائیل کی مسلط کردہ جنگ میں حماس
نے ساری دنیا کو دکھا دیا کہ ان کی طاقت کا سرچشمہ اقتدارکے اندر نہیں
مزاحمت میں ہے ۔ وہ انسانوں کے سہارے نہیں بلکہ اللہ کے بھروسے پر لڑتے ہیں
۔ آج ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ حماس اپنی استقامت اور حسنِ
اخلاق سے اسرائیل کے حامی محمود عباس کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوگئی
ہے اوراب صدرعباس بھی حماس کی بولی بولنے لگے ہیں ۔ اسرائیل کی اس شرمناک
شکست اورتحریک مزاحمت حماس کی عظیم کامیابی پر ایڈوکیٹ صادق حسین کا یہ شعر
صادق آتا ہے کہ ؎
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے |