ہم اب بھی خاموش ہیں

ہمارے حکمران اب تک امریکہ کی کاسہ کیسی میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں اس بات کی ہمت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے امریکی آقاﺅں کے خلاف کچھ کہہ سکیں۔ پاکستان میں بلیک واٹر کی موجودگی اب کوئی راز نہیں ہے۔ مساجد، مدرسے، بازار، دفاتر سب پر حملے کئے جارہے ہیں، یہ حملے باقاعد تربیت یافتہ لوگ کررہے ہیں۔ جو کرائے کے قاتل نہیں ہیں، بلکہ باقاعدہ لڑائی کر کے ہمیں تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں۔ کہاں سے آئے ہیں۔ عوام کو کیوں اعتماد میں لے کر نہیں بتایا جارہا ہے۔ اب تک پکڑے جانے والے لوگوں کو عدالتوں کے سامنے کیوں نہیں لایا جاتا۔ پاکستان میں صرف مذہبی لوگوں کو کیوں نشانہ بنایا جارہا ہے۔

حال ہی میں معروف امریکی جریدے ’وینٹی فیئر‘ نے امریکی نجی فوجی ایجنسی بلیک واٹر کے سربراہ کے اعترافات سمیت ایجنسی سے متعلق انکشافات پر مبنی ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بلیک واٹر کو امریکی سی آئی اے کی طرف سے پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو قتل کرنے کا کام دیا گیا تھا لیکن بعد میں امریکی حکومت کی طرف سے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ فیشن، فن اور سیاست پر نکلنے والے مشہور امریکی جریدے ’وینٹی فیئر‘ کے تازہ ترین شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بلیک واٹر کے سربراہ ایرک پرنس کی شخصیت پر خاکے اور ان کے انٹرویو میں بلیک واٹر سے متعلق کی گئی کئی کارروائیوں اور سرگرمیوں کی تردید اور تصدیق کے علاوہ بلیک واٹر تنظیم کے امریکہ کے اندر اور عراق اور افغانستان میں کاروائیوں کے متعلق اہم انکشافات بھی کیے گئے ہیں۔ برطانوی ریڈیو کے مطابق اس رپورٹ میں واشنگٹن پوسٹ کی اس خبر کا ذکر بھی ہے جس کے مطابق سی آئی اے نے بلیک واٹر کو القاعدہ اور طالبان رہنماؤں کو قتل کرنے کے پروگرام چلانے کا ٹھیکہ دیا تھا۔ اس پروگرام سے واقف ایک ذریعے کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ سی آئی اے کے ایسے پروگرام میں مبینہ طور پر گیارہ ستمبر کے دہشتگرد حملوں میں ہائی جیکروں کی مالی معاونت کرنے والے شخص مامون درکنزالی کو جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں نشانہ بنا کر قتل کرنے کے منصوبے کے علاوہ پاکستان کے نیوکلیئر سائنسدان ڈاکٹر اے کیو خان کا قتل بھی شامل تھا۔

وینٹی فیئر٬ کی اسی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ دبئی میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو مبینہ طور متوقع طور سی آئی اے ٹیم نے دبئی میں ڈھونڈ نکالا تھا لیکن امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے اس کارروائی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ جریدہ بتاتا ہے کہ سی آئی اے کے قاتل جتھوں کے’ڈھونڈو، نشانے کا تعین کرو اور ختم کرو‘ نامی پروگرام کی منظوری دو ہزار دو میں سابق صدر جارج بش نے دی تھی۔ اس سے قبل سی آئی اے کے ایسے پروگرام پر ریگن دور میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے افراد کو نشانے پر رکھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایجنسی کے پروگرام کا دائرہ اس سے کہیں بڑا تھا جتنا تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم امریکی جریدے نے اپنے سی آئی اے میں ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ عبدالقدیر خان یا درکنزالی جیسے مشنز کو ختم کردینے کی وجہ ایسے مشنوں پر مامور افراد کی نا اہلی یا اس کے لیے مطلوب اہلیت کا فقدان نہیں بلکہ سیاسی نیت ( پولیٹیکل ول) کا نہ ہونا تھا۔

اس رپورٹ کی تیاری کے سلسلے میں وینٹی فیئر کی ٹیم نے بلیک واٹر سے سربراہ اور سابق امریکی کمانڈو ایرک پرنس کے ہمراہ بلیک واٹر کی امریکی ریاست شمالی کیرولآئنا میں واقع تربیت گاہ، ورجینیا ریاست میں اس کے ہیڈ کوارٹر کے علاوہ افغانستان پاکستان سرحد پر افغان پولیس کو تربیت دینے والے مرکز کا بھی تفصیلی دورہ کیا۔ جریدے کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایرک پرنس نے انکشاف کیا کہ ستمبر دو ہزار آٹھ میں اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں جس شام خودکش حملہ ہوا اسی شام ہوٹل میں انہیں چیک ان ہونا تھا لیکن انہوں نے اپنے اسلام آباد کے سفر کا پروگرام منسوخ کردیا تھا۔ ایرک پرنس نے وینٹی فیئر کو بتایا کہ انہیں امریکہ سے اطلاع ملی تھی کہ ان کا ایک سالہ بیٹا سوئمنگ پول میں گر گیا ہے جسے بعد میں اس کے بارہ سالہ بھائی نے بچا لیا تھا اور اس کی خیریت کی اطلاع ملنے پر انہوں نے افغانستان سے براستہ اسلام آباد ایک رات میریٹ ہوٹل میں قیام کے بعد امریکہ جانے کے لیے اس سفر کا ارادہ ختم کر دیا تھا۔ یہ سارے انکشافات کس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ ہم امریکہ کی جنگ میں گھٹنے گوڈے دھنس چکے ہیں۔ امریکی استعمار کے چاہنے والے اس ملک کی تباہی پر لگے ہوئے ہیں اور ہم اب بھی خاموش ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 409008 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More