انڈیا ہوش کے ناخن لے
(Shah Faisal Naeem , Lahore)
کدھرہیں امن کے سب سے بڑے
علمبردار ؟کیا دنیا کو اب بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اقوام متحدہ اور اُس کے
ذیلی اداروں کے قیام کا مقصد صرف چند گنے چُنے عالمی ٹھیکیداروں کے اقدامات
کو تحفظ فراہم کرنا ہے کیونکہ اس سے زیادہ اُس کی اوقات نہیں؟ کدھرہے وہ
امریکہ جسے شمالی وزیرستان میں تو دہشت گردی نظر آتی ہے مگر لائن آف کنٹرول
پر بڑھتی ہوئی بھارتی جارحیت نظر نہیں آتی ؟ کدھر ہےوہ دنیا بھر کے ملکوں
کے اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑانے والا جسے برس ہا برس سے کشمیریوں پہ
ہوتے ظلم و ستم کی کہانی صرف الفاظ کا جوڑ توڑ لگتی ہے ؟ کدھر ہے وہ آزادیِ
حقوق کی بات کرنے والا جسے کشمیری عوام کے برسوں سے سلب ہوتے حقوق نظر نہیں
آتے ؟کدھر ہے وہ انکل سام جو جانوروں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے تو
قوانین بنا رہا ہے مگر فلسطین کے نہتے مسلمانوں پہ ہوتے ظلم پہ اُس کے لب
خاموش ہیں؟
شام، عراق، یمن، فلسطین، ایران، مصر، افغانستان، برما، لیبیا ،غزہ ، کشمیر،
اور پاکستان الغرض ملکوں ملکوں گھومتی یہ جنگ عالمی اجارہ داری کی طر ف
اُٹھنے والے وہ نا پاک اقدام ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف دنیا پر اپنا تسلط
قائم رکھناہے ۔معاشی میدان میں شکست امریکہ کو کبھی ہضم نہیں ہو گی وہ اسے
ضرور اُگلے گا اور یہ گندگی صاف کرنا پڑے گی اُن ممالک کو جو امریکہ کے
باجگزار ہیں جن کی روزی روٹی کا دارومدار امریکہ کے دئیے ٹکڑوں پر ہے
۔امریکہ ایک صنعتی ملک ہے جس کی بڑی مصنوعات میں شامل ہے مشنری اور مشنری
میں سب سے بڑاذریعہ ِ آمدن ہے اسلحہ ، امریکہ ہر سال اربوں کھربوں ڈالر
دنیا بھر میں اسلحے کی فروخت سے کما رہا ہے اور فروخت کرتے وقت خریدنے والے
ممالک سے یہ معاہدہ بھی کرتا ہے کہ یہ اسلحہ میرے خلاف استعمال نہیں کیا
جائے گا اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے توامریکہ اُس کی کوشش کو
باآسانی ناکام بنا دیتا ہے ۔
کہتے ہیں گرو اپنا ایک گر ہمیشہ چھپا کے رکھتا ہے۔ یہ مقولہ امریکہ پہ صادق
آتا ہے وہ جانتا ہے کہ کسی کے گھر میں آگ لگا کہ خود کو کیسے بچانا ہے
۔دنیا میں دہشت گرد تنظیموں کی پیدائش، اُنہیں اپنے مقصد کے لیے استعمال
کرنا اور جب مقصد پورا ہو جائے تو ان کو امن مخالف اور انسان دشمن قرار دے
کر اُن کو ختم کرنا ۔ یہی تین نکات امریکن خارجہ پالیسی کا مدعا ہیں۔سوچنے
کی بات ہے اگر دنیا میں لوگ لڑیں گے نہیں ، مریں گے نہیں، امن کوششیں جاری
رہیں گی نہیں، امن کی آڑ میں امریکہ دوسرے ممالک میں گھسے گا نہیں تو
امریکہ کا کام کیسے چلے گا؟اُسے آقا کون کہے گا؟
"میں بھارتی سرحدوں پہ تعینات جوانوں کو حکم دیتا ہوں کہ وہ پاکستان پر
ہزار گولے برسائیں"۔
بھارتی وزیراعظم کایہ بیان جہاں امن کی آخری کرن کو سیاہ رات میں بدل دیتا
ہے وہاں ایک ملک کے سربراہ کے روپ میں چُھپے انتہا پسند اور فسادی کے وجود
کو بھی آشکار کرتا ہے ۔پاکستان ہر صورت خطے میں امن چا ہتا ہے جس کے لیے وہ
کسی بھی فورم پر بھارت سے مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کو تیار ہے مگر
ہمسایہ ملک نے ہر بار محبت کا جواب نفرت سے دیا ہے جس کی زندہ مثالیں
1948،1965،1971، کارگل کی جنگیں ، دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرنے اور
عالمی دنیا سے کٹ آف کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات ، لائن آف کنٹرول
اور ورکنگ باؤنڈری پر حالیہ گولہ باری کسی سے مخفی نہیں ہے۔
ایسی صورتِ حال جب افواجِ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک کامیاب آپریشن کو
باخیرو خوبی مکمل کرنے کے قریب ہے اس وقت پاکستانی سرحد پر حملے پاکستان کی
امن کوششوں کو ناکام بنانے اور خطے میں دہشت گردی کی بقا کے سوا اور کچھ
نہیں۔ان سب حالات کے پسِ منظر میں اگر کوئی قوت نظر آتی ہے تو وہ ہے امریکہ
جو اپنے مفادات کی خاطر کہیں تو خود حملے کر رہا ہے اور جہاں ویسے کام چل
سکتا ہے وہاں ڈالروں کے عوض خریدے ہوئے ملکوں سے کروا رہا ہے۔ اگر ایسا
نہیں ہے تو امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دی جانے والی
پاکستانی قربانیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھارت کو لائن آف کنٹرول کا پابند
کرے اورامن کے علمبردار ہونے کا حقیقی معنوں میں ثبوت دے۔
بھارتی عوام کو بھی چاہے کہ ہو سکے تو وہ درندوں کی بجائے انسانوں کو اپنا
حکمران چنیں۔ کہیں ایسا نا ہو کہ دوسروں کو مٹانے کے خواب دکھانے والا اپنے
ساتھ تمہیں بھی صف ِ ہستی سے ہمیشہ کے لیے نا مٹا ڈالے۔ |
|