میرٹھ مدرسہ کی استانی اور’لووجہاد‘ کی کہانی

ضلع میرٹھ کی تحصیل کھرکھوداکے ایک گاؤں سراوا کا امن وسکون اوائل ماہ اگست اس وقت تباہ ہوگیا جب ایک مقامی مکتب ؍ مدرسہ میں ہندی اور انگریزی کی ایک غیرمسلم خاتون ٹیچر نے الزام لگایا کہ چند مقامی افراد نے اغوا کرلیاتھا۔ پہلے ہاپوڑ کے ایک مدرسہ میں اس کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ دودن بعد دوبارہ اغواکرکے اس کو مظفرنگر لے گئے اور وہاں بھی ایک مدرسہ میں اس کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی۔میرٹھ میں ایک مولوی نے اس سے مذہب تبدیل کرنے کے حلف نامہ پر جبری دستخط کرائے۔ اس نے یہ بھی الزام لگایا کہ مظفر نگر کے مدرسہ میں ، جہاں سے وہ کسی طرح نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئی، اور بھی کئی غیرمسلم خواتین اغواکرکے جبراًرکھی گئی ہیں۔

یہ لڑکی سراوا میں اپنے گھرسے پہلے 23؍جولائی کو غائب ہوئی اور27؍کو واپس لوٹی۔ پھرمبینہ طور سے29کو غائب ہوئی اور تین روزبعد واپس آئی ۔ یہ سنسنی خیز الزامات 5؍ اگست کو ایسے وقت لگائے گئے جب کہ یوپی میں ضمنی انتخابات سرپر تھے اور مودی جی کی بھاجپا فرقہ ورانہ بنیادوں پر سماج کو تقسیم کرنے کے لئے ’لوجہاد‘ کا شورمچارہی تھی۔ ان الزامات نے علاقے کی فضا کومکدر کردیا ۔ مقامی میڈیا، بھاجپا اور سنگھ پریوار کی تنظیموں نے اسکو’لو جہاد‘ کا ایک اورواقعہ قرار دیکر فرقہ ورانہ منافرت کو ہوادینے کی کوشش کی۔

اس لڑکی نے یہ الزام بھی لگایا کہ مظفرنگر میں اس کا جبری آپریشن کرایا گیا۔ فسادی ذہنیتوں نے شورمچایا کہ اس کے اعضاء نکالے گئے ہیں۔ لیکن پولیس چھان بین میں پتہ چلاکہ فتنہ کی مرکز یہ لڑکی 23؍ جولائی کو خودمیرٹھ میڈیکل کالج اسپتال گئی تھی۔ اس کے ساتھ ایک مقامی نوجوان کلیم تھا، جس کو اس نے اپنا شوہر لکھوایا۔میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس وقت وہ 45؍ دن سے زیادہ کی حاملہ تھی اور اس کا جنین رحم کے بجائے اس سے باہر’فیلوپین ٹیوب‘ میں پنپ رہا تھا۔ یہ ایک خطرناک صورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کا آپریشن کیاگیا اور 27؍ کواس کو چھٹی مل گئی اور وہ گھرآگئی۔ گھراس نے ایس ایم ایس سے یہ اطلاع دی تھی کہ وہ کالج کے ٹور پرجارہی ہے۔

5؍اگست کو اس کے والد نے اغوا اورعصمت دری کی کہانی سنائی جس کی لڑکی نے بے حجابی سے تائید کی اور بیان درج کرایا۔بھاجپا کی پرشورمداخلت سے یہ معاملہ سیاسی اورفرقہ ورانہ بن گیا۔ اگرچہ اسپتال کی رپورٹ اور پولیس کی جانچ پڑتال سے تمام الزاموں کا بے بنیاد ہونا ظاہرتھا مگر بھاجپا کے دباؤ میں پولیس نے اس کے مبینہ شوہر کلیم، لڑکی کی ایک مسلم دوست نشاط، گاؤں کے باشندوں نواب، ثناء اﷲ ، ثمرجان اور سمیت دس ، گیارہ افراد کو جیل میں ڈال دیا۔ نشاط کی والدہ وسیلہ نے بتایا کہ مذکورہ لڑکی کے ناپسندیدہ طورطریقوں کی وجہ اس نے اس کو چھ ماہ قبل ہی اپنے گھرآنے سے روک دیا تھا، اسی لئے اس نے نشاط کو بھی ساتھ میں پھنسالیا۔

سراوا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں تقریباً ایک سوگھر ہیں۔ ساٹھ فیصد آبادی مسلم اور باقی غیرمسلم تیاگی رہتے ہیں۔ ان کے درمیان اس واقعہ سے قبل کبھی کوئی فرقہ ورانہ کشیدگی یا شکایت نہیں رہی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک اردو میڈیم مکتب اورمدرسہ میں ایک غیرمسلم لڑکی کو بلا تکلف ٹیچر رکھ لیا گیا۔ اس واقعہ سے قبل اس کے والدین نے بھی مدرس کے اساتذہ یا انتظامیہ کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی۔ مگر یہ واقعہ پیش آتے ہی وہ بھی ’لوو جہاد‘ کی کہانی سنانے لگا اور اہل مدرسہ کو مطعون کرنے لگا۔

اب یہ واقعہ ایک بارپھر سرخیوں میں آگیا ہے۔یہ لڑکی اتوار ، 12؍ اکتوبر کی رات سواتین بجے گھر سے نکلی۔ڈھائی تین گھنٹہ پیدل چل کر صبح سویرے کلیم کے گھر پہچی ،اور کہا کہ وہ کلیم سے نکاح کرناچاہتی ہے جو ابھی جیل میں ہے۔ مگرکلیم کی والدہ نے اس کو وہاں ٹکنے نہیں دیا۔ وہاں سے ٹمپوپکڑ کرمیرٹھ’مہلا تھانے‘ پہنچی اور ایک تحریر دی کہ اس نے سابق میں زورزبردستی ، اغوا اور اجتماعی آبروریزی کے جو الزامات گاؤں کی باشندوں اورمدرسہ والوں پر لگائے تھے ،وہ دباؤ میں لگائے تھے اور سب غلط تھے۔ اس نے کہا کہ اس جرم کے لئے بھاجپا کے ایک لیڈر ونیت اگروال نے ،جو علاقہ کے ویاپار منڈل کے صدر بھی ہیں، اس کے والد کو 25 ہزارروپیہ دئے تھے اور مزید رقم دیتے رہنے کا بھروسہ دلایا تھا۔ لیکن اب یہ پیسہ ملنا بند ہوگیا ہے ،جس سے اس کے والد اس سے سخت ناراض ہیں۔ چنانچہ گھر پر اب اس کی جان کو خطرہ ہے۔ اس لئے وہ اپنے یا کسی رشتہ دارکے گھر جانا نہیں چاہتی۔ اس پر پولیس نے اس کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا اور اس کا بیان درج کیا گیا۔ عدالت کی ہدایت پر اس کو ناری نکیتن بھیج دیا گیا ہے۔پولیس نے اس کی شکایت پر گھروالوں کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا ہے۔

اس تفصیل سے پہلی ہی نظر میں یہ ظاہر ہوگیا کہ ضمنی انتخابات سے قبل ریاست کی فرقہ ورانہ فضا کو مکدرکرنے کے لئے بھاجپا نے کیا کچھ حربے استعمال نہیں کئے۔ اگر اس لڑکی کے بیان کے مطابق اس کے گھر والوں کو اب بھی کچھ پیسہ ملتا رہتا تو وہ خاموش رہتی۔ وغیرہ۔ اس واقعہ کی تفصیلات اور بھی بہت کچھ ہیں۔ یہاں ان سب کا بیان مقصود نہیں۔ بلکہ چند دیگر پہلوؤں پر غورکرنے کی دعوت دینا مطلوب ہے۔

سراوا کے جس مدرسہ یا مکتب میں وہ پڑھاتی تھی، اس میں 250سے زیادہ بچے تھے۔تعلیم مفت ہے۔ اب بچوں کی تعدادتقریباً 50رہ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ لڑکی اسی گاؤں میں پیدا ہوئی، وہیں پلی اوربڑھی۔ وہ اگر اب جھوٹ پر جھوٹ بول رہی ہے، تو جھوٹ بولنا لازماًاس کی عادت میں شامل رہاہوگا۔ منتظمین مدرسہ نے اس کوٹیچر رکھتے وقت اس کی اس انتہائی شنیع اخلاقی کمزوری پر، جو تمام عیبوں کی جڑ ہے،توجہ کیوں نہیں دی؟کیا ان کی نظر میں بچوں کی تعلیم کے ساتھ ان کی تربیت اہم نہیں ہوتی؟ اگر ہوتی ہے تو انہوں نے کیوں کمسن طلباء کے لئے ایسی کذب گو ٹیچر رکھ لی؟

دوسرا پہلو یہ ہے کہ منتظمین نے اپنے مدرسہ میں ایک غیرشادی شدہ 19، 20سال کی لڑکی کی موجودگی اور مردعملے کے ساتھ اس کے بے حجابانہ اور بے تکلف اختلاط کو کیونکر روا جانا اور قرآن کی ہدایت ’ولاتقربوالزنیٰ انہ کان فاحشہ وساء سبیلا‘ (اورزنا کی پاس بھی نہ پھٹکو، یہ کھلی بے حیائی ہے اور نہایت بری راہ ہے: سورہ بنی اسرائیل: 32) ان کی نظروں سے اوجھل کیوں ہوگئی؟

اہل مدارس سے معذرت کے ساتھ سوال ہے اگر دین کے ان ’قلعوں‘ میں ہی دین کی بنیادوں کی مسماری ہورہی ہے، تواس کا ادبار پوری قوم پر کیوں نازل نہیں ہوگا؟ ایک نوجوان صحافی دوست نے جو ایک مایہ ناز مدرسہ کی پردڈکٹ ہیں، فیس بک پر میری ایک پوسٹ پر بڑے ہی کرب کے ساتھ لکھا ہے کہ مدارس کی خدمات اپنی جگہ، لیکن اگران کے اندر کے ماحول پر سے پردہ اٹھادیا جائے تو اساتذہ اورطلبہ کے ساتھ جبروزیادتی اوربدخلقی کا نہایت تکلیف دہ منظر نظرآئے گا۔ انہوں نے شکایت کی ہے کہ طلباء میں اغلام بازی کی وبا بھی عام ہے ۔ہمیں عرض یہ کرنا ہے دین کے چھوٹے چھوٹے اصولوں سے ’وقتی ضرورت‘ یا ’مصلحت ‘کے نام پر ہمارے اداروں اور گھروں میں انحراف ہی بڑے بڑے مسائل پیدا کرتا ہے۔ ہمارے مدارس تعلیم کے ساتھ اسلامی اخلاقی تربیت کے بھی مرکز ہونے چاہیں، مگرایسا ہونہیں رہا ہے۔
جس ماحول میں ہم آج گھرے ہوئے ہیں کہ زرازرا سی بات کو بہانا بناکر پوری ملت کو مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے، یہ ضروری ہے کہ ہم خود محتاط رہیں اور اپنے اخلاق، عادات و اطوار کی اور اپنے اداروں کی اس طرح حفاظت کریں جس طرح انکا حق ہے۔

عقیدت کا معاملہ
سپریم کورٹ نے سائیں بابا کے عقیدتمندوں کی اس درخواست کی سماعت سے انکار کردیا ہے کہ سناتن مندروں سے سائیں بابا کی مورتیاں ہٹائے جانے سے روکا جائے۔ سپریم کورٹ نے بجا طور پر کہا ہے کہ وہ عقیدت کی بنیاد پر دائر کسی درخواست کی سماعت سے قاصر ہے۔ البتہ سائیں بابا کے عقیدت مند چاہیں تو اپنے حقوق کے لئے سول کورٹ میں جائیں اور پھر مناسب طریقہ پر سپریم کورٹ آئیں۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والی بنچ کا یہ فیصلہ اہم ہے۔ اگر کسی عبادت گاہ کے بارے میں کوئی تنازعہ کھڑاہوتا ہے ،تو اس کا فیصلہ کسی گروہ کی عقیدت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عبادت گاہ کی ملکیت اوراس کے حق استعمال کا فیصلہ سول قانون کے مطابق ہونا چاہئے۔ بابری مسجد کے تنازعہ میں مسلمانان ہند کا موقف یہی ہے، جب کہ حزب مخالف ’آستھا‘ کی دہائی دیتا ہے اور ایک قدیم عبادت گاہ کا فیصلہ عوام کی عقیدت مندی کی بنیاد پر چاہتا جس کو چنددہائیوں کی مہم سے لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کیا گیا ہے۔

کشمیر میں راحت رسانی
غیرمعمولی سیلاب سے تباہ حال کشمیر وادی میں مرکز کے وعدوں کے باوجود راھت رسانی اور بازآبادکاری کا کام خاطرخواہ رفتار سے نہیں ہورہا ہے حالانکہ سردی شروع ہوگئی ہے۔ اب ریاست کے’ اقتصادی تعمیر نو فورم‘(Economic Reconstruction Forum) نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ مرکزی حکومت مختلف بہانوں سے بیرونی اداروں کے امدادی سامان کی آمد میں رکاوٹ ڈال رہی ہے حالانکہ اس طرح کے حالات میں ورلڈ بنک، ایشین ڈولپمنٹ بنک اور دیگر این جی اوز سے امداد کا قبول کیا جانا ایک عام بات ہے۔ مذکورہ فورم کے ایک رکن اشرف وانی نے 13اکتوبرکو سرینگر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’بیرونی امداد اس لئے نہیں آنے دی جارہی ہے کہ یہ ایک ’کنفلکٹ زون‘ ( متنازعہ خطہ) ہے اور مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔‘

اصولی بات یہ ہے کہ ہندستان اس خطے کو متنازعہ خطہ تسلیم ہی نہیں کرتا، خصوصاً مرکز کی موجودہ حکمران پارٹی تو طوطے کی طرح ’اٹوٹ انگ، اٹوٹ انگ‘ کا نعرہ بلند کرتی رہی ہے۔ایسی صورت میں اگر’ کنفلکٹ زون‘ کے بہانے کشمیر یوں کی امداد کو روکا جاتا ہے تو یہ بھاجپا کے کھاتے میں قول وفعل کے تضاد کی ایک اور شق کا اضافہ ہوگا۔ کشمیری عوام سے کسی بھی بہانے کوئی تعصب ہرگز جائز نہیں اور اس کے خلاف پورے ملک کے انصاف پسند عوام کو آواز اٹھانی چاہئے تاکہ کشمیری عوام خود کو پورے ملک سے الگ تھلگ محسوس نہ کریں۔ ہمیں افسوس ہے مرکزی حکومت نے روزاول سے کشمیریوں کے ساتھ غیرمنصفانہ پالیسی اختیار کی ہے۔ ان میں اگر علیحدگی پسندی کا رجحان ہے تو اس کے ہمارے کشمیری بھائی نہیں ہمارے قومی سیاستداں زیادہ ذمہ دارہیں۔

نوبیل انعام
امن کا نوبیل انعام اس بار پاکستان کی لڑکی ملالہ یوسف زئی اورہندستان کے کیلاش ستیارتھی کو دیا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے ملالہ یوسف زئی جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس انعام سے پہلے مسٹر ستیارتھی کا نام بھی کم ہی لوگ جانتے تھے۔ ان دونوں کو حقوق اطفال اور تعلیم نسوان کے لئے ان کی خدمات کے اعتراف میں منتخب کیا گیا ہے۔ ہم ان دونوں کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ بچوں کی بہبود اورتعلیم میں ہر شخص کوہاتھ بٹانا چاہئے۔ ہرچند کہ انعام دینے والے کچھ زیادہ صاف نیت نہیں، لیکن اس طرح کے انعامات کا افادی پہلو یہ ہے کہ توجہ ان اہم شعبوں کی طرف جاتی جن کو عموماً نظرانداز کردیا جاتا ہے۔

دواہم شخصیات کی وفات
ابھی چندروز قبل معروف صحافی قربان علی کے والدماجد ، مثالی ہندستانی، ممتاز مجاہدآزادی کپٹن عباس علی کا علی گڑھ میں انتقال ہوا۔ وہ 95برس کے تھے۔ کل لکھنؤ سے ممتازصحافی نافع قدوائی کے صاحبزادے نے ان کے انتقال کی اطلاع دی۔ نافع قدوائی صاحب عرصہ سے شدیدعلیل تھے ۔ اس کے باوجودان کا قلم تھما نہیں تھا۔ گاہے فون پر بھی یاد کرلیتے تھے۔عمرتقریبا ساٹھ سال تھی۔ ہم ملت کی ان دونوں اہم ہستیوں کی وفات پرپوری ملت سے اوران کے اہل خاندان سے تعزیت کرتے ہیں۔نافع صاحب کی مزاج پرسی کے لئے ایک مرتبہ ان کے دولت خانہ لکھنؤ جانا ہوا اور ان کی بے انتہا تواضع ہمیشہ کے لئے دل پر نقش ہوگئی۔اﷲ ان دونوں کی مغفرت فرمائے۔آمین۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.