1996ءکی بات ہے جب معروف امریکی
جریدے نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار ولیم سافائر نے "Blizzard of lies,"
(جھوٹ کا طوفان )کے نام سے ایک کالم تحریر کیا ۔جس میں کالم نگار نے ہلیری
کلنٹن کی طرف سے مختلف مواقعوںپر بولے گئے جھوٹ کا مفصل تذہ کر کیا ہے
۔یہاں تک کہ کالم نگار نے ہیلری کلنٹن کو پیدائشی جھوٹی قرار دیدیا۔ایسا
نہیں ہے کہ صرف ہیلری ہی ایسی امریکی سیاستدان ہیں جو بڑی روانی سے جھوٹ
بولتی رہی ہیں بلکہ ماضی میں بھی بہت سے امریکی صدور مختلف مواقعوں پر جھوٹ
کا سہارا لیکر امریکی عوام کو دھوکہ دیتے رہے ہیں اور انھوں نے اپنے جھوٹ
کی وجہ سے متعدد مرتبہ امریکی عوام کو مشکلات میں بھی ڈالا۔امریکہ کے
موجودہ صدر باراک اوبامہ بھی جھوٹ بولنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں بلکہ
اگر دیکھا جائے تو وہ اپنے پیش روﺅ ں سے کچھ قدم آگے ہی ہیں۔فوکس نیوز نے
ایک سروے میں امریکی عوام سے سوال کیا کہ کیا اوبامہ ملک کے اہم معاملات پر
جھوٹ بولتے ہیں؟تو اس سوال کے جواب میں 81فیصد عوام کا جواب تھاکہ جی
اوبامہ جھوٹ بولتے ہیں۔15فیصدعوام کا جواب تھا کہ نہیں اوبامہ جھوٹ نہیں
بولتے ۔یوں تو اوبامہ نے متعدد جھوٹ بولے جن میں اوبامہ کئیر کے حوالے سے
امریکی عوام کو ہیلتھ انشورنس کا لارا دینا بھی شامل ہے۔تاہم اوبامہ کا ایک
اور تازہ ترین جھوٹ بھی سامنے آ گیا ہے ۔20اپریل 2012ءکو امریکی خفیہ
ایجنسی کے ڈائریکٹر مارک سلیوان وائٹ ہاﺅس کے ایک قونصل کیتھرین کے پاس
وائٹ ہاﺅس ایڈوانس ٹیم کے بیشتر ممبران کی بے راہ روی کے حوالے سے بمعہ
ثبوت شکایت لیکر آئے ۔مارک سلیوان نے کیتھرائن کو بتایاکہ ان کے پاس ایسے
ثبوت ہیں کہ کولمبیا میں موجود وائٹ ہاﺅس ایڈوانس ٹیم ممبر جوناتھن ڈیش نے
اپنے لئے ایک جسم فروش خاتون کو بک کیا تھااور جسم فروش عورت کو ہلٹن
کارٹینجینا ہوٹل کے کمرے میں 4اپریل کی درمیانی شب کو بلایا گیا۔سیکریٹ
سروس کے ڈائریکٹر نے یہ بھی کہاکہ یہ رپورٹ سیکرٹ سروس کے تعینات
اہلکاروںکے پاس بھی ہے ۔ٹھیک چار دن بعد سوموار کے روز صدارتی پریس
سیکریٹری جے کارنے نے وائٹ ہاﺅس کے پلیٹ فارم سے امریکی عوام کوکہا کہ وائٹ
ہاﺅس کی ایڈوانس ٹیم ممبران پر لگائے گئے الزامات کے حوالے سے کو ئی ٹھوس
ثبوت موجود نہیں ہیں۔ظاہر ہے کہ کارنے کا یہ بیان بالکل جھوٹ تھا ۔انھوں نے
مزید کہاکہ وائٹ ہاﺅس قونصل ممبران پر لگائے گئے الزمات کے حوالے سے ایک
انکوائری کی گئی ہے اور اس انکوائری کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ
وائٹ ہاﺅس کا کوئی بھی ممبر ایسی کسی حرکت میں ملو ث نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے
کہ محض چاردن میں کس طرح تمام معاملے کی چھان بین کر لی گئی ،اس قدرمختصر
عرصہ میںتمام گواہوں سے معلومات حاصل کر لینا کیونکر ممکن ہے ۔پھراس قدر
جلد بازی میں یہ فیصلہ بھی کر لیا گیا کہ تمام الزامات جھوٹ ہیں۔واضح رہے
کہ سیکریٹ سروس کی طرف سے دی گئی رپورٹ میں باقاعدہ فاحشہ کی ہوٹل میں
رجسٹریشن کا ثبوت فراہم کیا گیا تھا۔ثبوت میں اس عورت کے شناختی کارڈ کی
فوٹو کاپی بھی موجود تھی تو کارنے نے امریکی عوام کو یہ کیسے کہہ دیاکہ
الزامات کے حوالے سے کو ئی ثبوت نہیں ملے جبکہ ان کو تمام ثبوت فراہم کئے
تھے۔ظاہر ہے کہ اس طرح کی دروغ گوئی وائٹ ہاﺅس آفیشل کیلئے کو ئی نئی بات
نہیں ہے بلکہ یہ تو انکے لئے ایک عام سی بات ہے ۔وائٹ ہاﺅس آفیشلز امریکی
صدر کو بچانے کیلئے اس طرح کے جھوٹ بولتے ہی رہتے ہیںاور بھی متعدد مقامات
پر امریکی صدر باراک اوبامہ امریکی عوام سے جھوٹ بولتے رہے ۔جیسا کہ مضمو ن
کے ابتدائی حصے میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اوبامہ ہیلتھ کئیر کے حوالے سے
اپنے عوام کو کہتے رہے کہ کوئی بھی امریکیوں سے ان کے ہیلتھ پلان کو چھین
نہیں سکتا اور نہ ہی اسے ختم کر سکتا ہے اور انھیں علاج معالجے کی سہولیات
بدستور ملتی رہینگی۔آخر کار اوبامہ اپنے وعدے پرقائم نہ رہ سکے اور ہیلتھ
کئیر پلان ختم کر دیا گیا۔اسی طرح اوبامہ کرپشن کے حوالے سے امریکیوں کو یہ
یقین دلاتے رہے کہ انٹر ریونیو سروس میں ذرہ برابر کرپشن نہیںہے جبکہ ابھی
اس حوالے سے تحقیقات جاری تھی اور اس کا کو ئی حتمی نتیجہ بھی نہیں آیا
تھا۔بعد ازاں انکوائری رپورٹ نے اوبامہ کے جھوٹے دعوﺅں کی قلعی کھول دی۔اگر
ایک مرتبہ جھوٹ بولا جائے تو اسے غلطی تسلیم کیا جاسکتاہے ۔دوسرا جھوٹ بھی
قابل بر داشت ہوسکتاہے لیکن تیسرا ،چوتھا،پانچواں ،چھٹا حتیٰ کہ جھوٹ در
جھوٹ کیا کہلائے گا ظاہر ہے کہ اسے عوام کو بیوقوف بنانے اور دھوکہ دینے کا
ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہی کہا جاسکتا ہے ۔نیو یارک ٹائمز کے کالم نگار ولیم
سیفائر کے مطابق اسے ”جھوٹ کا طوفان “ بھی کہا جاسکتاہے اور اوبامہ کو صرف
امریکی صدر ہی نہیں بلکہ جھوٹوں کا بادشاہ بھی کہہ لیا جائے تو کو ئی
مضائقہ نہ ہو گا۔ایک اوبامہ ہی پرکیا موقوف ماضی کے تقریباً تمام ہی امریکی
صدور جھوٹ بولنے میں اپنا ثانی نہیںرکھتے تھے ۔اگر ماضی پر ایک طائرانہ نظر
دوڑائی جائے تو بہت سے جھوٹے امریکی صدور کے نام سامنے آئینگے۔امریکی مﺅ
رخین لکھتے ہیںکہ ہمارے بہت سے صدور جھوٹے ترین تھے اور دھوکہ دہی ان کی
عظمت کا خاصہ تھی۔ہر امریکی صدر نے وقتاً فوقتاً جھوٹ بولا ۔1940ءمیں
امریکہ عالمی جنگ دوئم کی تیاریوں میںمصروف تھا اس موقع پر صدر فرینکلن
روزویلٹ نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے بچوں کو کسی بھی غیر ملکی
جنگ کیلئے نہیں بھیجاجائیگا ۔لیکن ایسانہ ہوا اور امریکیوں کو غیر ملک بھی
جنگ کیلئے روانہ کیا گیا جہاں بہت سے امریکیوں کی نعشیں واپس امریکہ آئیں
اوربہت سے وہاں ہی لاپتہ ہو گئے۔ 1961ءمیں صدرجان ایف کینیڈی نے کہا کہ
”میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور ایک مرتبہ پھراپنی بات کو دہراتا ہوں کہ ہم
کیوبا پر کو ئی جنگ مسلط نہیں کر ینگے“۔اپنے دعوے کے بر عکس کینیڈی کیوبا
پر حملے کی منصوبہ سازی میں مصروف تھے۔رونالڈ ریگن نے1986ءمیں کہا کہ
امریکہ ایران کوکسی قسم کا اسلحہ فروخت نہیں کرے گا جبکہ بعدازاں یہ بات
عیاں ہو گئی کہ ریگن اپنے دعوے کا پاس نہ رکھ سکے اورامریکہ نے ایران کو
اسلحہ فروخت کیا۔صدارتی جھوٹ کو پرکھنے کے دوپیمانے ہیں اور ان جھوٹ کو دو
کیٹیگریز میں رکھا جاتا ہے ۔پہلی کیٹیگری قابل فراموش اور قابل معافی جھوٹ
کی ہے جبکہ دوسری کیٹیگری نا قابل فراموش یا نا قابل معافی جھوٹ کی ہے
۔قابل معافی جھوٹ اس جھوٹ کو کہا جاتاہے جو مصلحتاً بولا جائے اور جس کا
مقصد قوم کو کسی بڑے نقصان یا خطرے سے بچانا ہو ۔سیکریٹ ایجنسیوں کی طرف سے
بولے گئے جھوٹ کو اس کیٹیگری میں رکھا جا سکتا ہے کیونکہ بہت سے لو
گوںکاخیال ہے کہ خفیہ ایجنسیاں ملک و قو م کی حفاظت کی خاطر جھوٹ بولتی
ہیں۔دوسری طرف ناقابل معافی یا نا قابل فراموش جھوٹ ہے یہ ایسا جھوٹ ہوتاہے
کہ جس سے قو م و ملک کو بہت بڑانقصان ہو یا وہ اس جھوٹ کی وجہ سے بلا وجہ
کسی مصیبت میںپھنس جائے۔اس طرح کا جھوٹ کسی جرم کو چھپانے یا کسی صدر کا
سیاسی کیرئیر بچانے کیلئے بولا جاتا ہے ۔اسی طرح کا فرق بل کلنٹن اور جارج
بش کی طرف سے بولے گئے جھوٹ میںہے ۔بل کلنٹن جھوٹ بولنے سے مشہور ہو گئے
جبکہ جارج بش اپنے جھوٹ سے بدنام ہوئے ۔2003ءمیں قومی ٹیلی وژن پر اپنی ایک
تقریرکے دوران جارج ڈبلیو بش نے کہا کہ عراق کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی
پھیلانے والے ہتھیار موجود ہیں اور ان ہتھیاروں کے خاتمے کیلئے عراق پر
حملہ کرنا ضروری ہے ۔جارج بش کے اس جھوٹے بیان کی وجہ سے امریکی قوم کو ایک
خطرناک جنگ کا سامنا کر نا پڑا اور یوں جارج بش کی ساکھ نہ صرف امریکی عوام
کی نظر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی متاثر ہوئی۔اس کے بر عکس بل کلنٹن کے
سیکس سکینڈل کے حوالے سے بولے گئے جھوٹ کہ ” میں نے اس خاتون کے ساتھ سیکس
نہیںکیا “ کا مقصدنہ صرف ا پنی شادی کو بچانا تھابلکہ امریکی والدین کو ان
کے بچوں کی طرف سے پوچھے جانے والے سوال کہ” اورل سیکس کیا ہوتا “سے بچانا
بھی تھا۔ |