آج پھر میرا کراچی ایک وی آئی پی
کی آمد پر یرغمال ہے، شہری زندگی مفلوج ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں، جو ہر وقت
جمہوریت کا راگ الاپتی ہیں، جمہوریت کی چیمپیئن بنتی اور اس کے لئے قربانی
کے دعوے کرتی ہیں، در حقیقت ان کے اندر اوپر سے نیچے تک جمہوریت کہیں نظر
نہیں آتی۔ چند مثالوں کو چھوڑ کر خاص طور پر ہر بڑی جماعت کسی نہ کسی فرد
یا خاندان کی ذاتی ملکیت نظر آتی ہے، جس میں موروثی نظام پوری ڈھٹائی کے
ساتھ رائج ہے، جہاں یہ امر طے شدہ ہے کہ جماعت کی سربراہی فقط جماعت کے
قائد کے خاندان کا کوئی فرد ہی کرے گا، چاہے پارٹی کا کوئی دوسرا راہ نما
یا رکن کتنا ہی جاں نثار، قابل اور مخلص کیوں نہ ہو۔ باپ کے بعد بیٹا،
بیٹی، پوتا، پوتی، نواسا، نواسی اور بہو یا داماد ہے جماعت کی قیادت کے اہل
قرار پاتے ہیں۔
ہمارے دیس میں سیاسی قیادت بھی کسی جائیداد کی طرح بطور ورثہ دی جاتی ہے،
جس کا معیار خونی یا قریب ترین رشتہ قرار پاتا ہے، صلاحیت نہیں۔ دیکھیے اور
غور کیجیے! سیاسی جماعتوں کے جو نام نہاد پارٹی الیکشن کئے جاتے ہیں ان کے
نتائج کیا ہوتے ہیں؟ وہاں پارٹی قیادت کے من پسند اور خوشامدی اور راہنماؤں
کے باپ، بیٹا، بہن، بھائی ہی ’’کام یاب‘‘ قرار پاتے ہیں۔ اسی طرح جب عام
انتخابات یا ضمنی الیکشن کے موقع پر ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ آتا ہے تو
قربانیوں، صلاحیت اور دیرینہ وابستگی پر راہنماؤں کے رشتوں کو ترجیح دی
جاتی ہے۔ یعنی کہ ’’گدی فکس‘‘ کے اصول پر پارٹی قائم ہے۔
یہی وجہ کے آج ہمیں ایک ویلایتی لیڈر مل رہا ہے جو کہ ہمارا نہیں تو ہمارے
بچوں کا لیڈر ضرور بن جائے گا میں سوچتی ہوں کے جس طرح ہم اور آپ اس مورثی
سیاست کی وجہ برباد ہوئے کیا ہماری آنے والی نسلیں بھی اس عذاب کو جھلیں
گی؟ کیا یہ ہوتے ہیں لیڈرجنھیں عام عوام کے مصائب کا علم ہی نہیں ،ساری
زندگی پردیس میں انگریزوں کے ڈھنگ سے جینے کے بعد کوئی اچانک آتا ہے اور
ہمارا لیڈر بن جاتا ہے۔ میں یہ بات برملا کہتی ہوں کہ ایسے لیڈر ہمارے لئے
بہتری کی نوید نہیں بلکہ باعثِ ننگ وعار ہیں۔ جب انٹرنشنل میڈیا اس خبر کو
نشر کرتا ہے کہ ایک وی آئی پی کے جلسے کی خاطر سارا شہر تین دن سے ایک
عذابِ مسلسل میں مبتلا ہے تو آ پ کیا توقع کرتے ہیں بحثیت قوم ہماری عزمت
کو سلام کیا جائے گا یہ ہماری کم عقلی کے ڈھول پیٹے جائے گے۔
جیالے تو مر مٹنے کے لیے تیار ہیں اپنے لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کہ لئے،
لیکن کیا یہ ولایتی لیڈر اَن کے وہی لیڈر ہے جس کے لئے کتنے ہی جیالوں نے
اپنی جانیں قربان کردیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نام کا چاپ کرنے والے یہ
لیڈر ان کے قدموں کی دھول بھی نہیں ۔ بی بی کی قربانیوں کا ذکر کرنے
والے،بی بی کی ہمت کا ایک حصہ بھی نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو
ایک سچے اور کھرے لیڈر تھے جن کے دل میں عوام کا درد تھا۔لیکن آج کے
حکمرانوں کو عوام کی تکلیفوں سے کوئی غرض نہیں۔ ہمارے مزدور روز کماتے ہیں
اور اگر ایک دن بھی دیہاڑی نہ لگے تو اس کے بچے رات بھوکے سوتے ہیں، لیکن
کیا کیا جائے صاحب۔کسی مزدور کی دیہاڑی اور اس کے بچوں کی خوراک سے زیادہ
اہم وی آئی پی کی سکیورٹی ہے۔ بنائیے ایسے رہنما، ہم خود اس سب کے ذمہدار
ہیں، پہلے ہم خود حکمرانوں کے ظلم و ستم پر روتے ہیں اور پھر انہی کو ووٹ
دیتے ہیں جنھیں ہم نصف صدی سے آزما رہے ہیں۔
پارٹی کی بنیاد جس منشور پر رکھی گئی حالات کے ساتھ ساتھ چاہے پارٹی اس سے
انحراف کر جائے یا قیادت الٹی قلابازی کھالے، پارٹی کے عہدے داروں اور
کارکنوں میں سے کوئی اف تک نہیں کرتا۔ بہ طور حکمران جماعت کوئی سیاسی
پارٹی اپنے منشور کے خلاف یا عوام دشمنی پر مبنی پالیسی اختیار کرلے، پارٹی
کے اندر سے کوئی آواز اس کی مخالفت میں نہیں اٹھتی، بلکہ اس کے چھوٹوں بڑوں
میں سے ہر ایک اپنی اپنی اہلیت کے مطابق پارٹی قیادت کے طرز عمل کا دفاع
پورے جوش وخروش کے ساتھ کرتا ہے، کیوں کہ سب مزے میں ہیں، اجارہ داری قائم
ہے، مقام مستقل ہے، اجی توبہ کیجیے کون پارٹی کو چھوڑے گا، جیسی بھی ہے آخر
’’ہماری‘‘ پارٹی ہے جیسا بھی ہے آخر ’’ہمارا‘‘ لیڈر ہے۔ اصول ضابطے کون
دیکھتا ہے بس گدی اہم ہے۔
اصولوں اور نظریات کے بجائے افراد اور گروہوں سے غیرمشروط وابستگی ہمارے
لوگوں کی اجتماعی نفسیات بن گئی ہے۔ ہم پارٹی کی وفاداری کو ملک سے وفاداری
کے مقابلے میں زیادہ اہم گردانتے ہیں۔ کبھی بادشاہ ہوتا تھا اور سارے
درباری اس کی ہاں میں ہاں ملاتے تھے، انکار کر بھی کون سکتا تھا ، جو
خوشامدی ہوتا اسے عہدہ اور انعام و اکرام سے نوازا جاتا اور جو بادشاہ کے
فیصلے پر آواز بلند کرتا اس کا ٹھکانا زنداں ہوتا یا تلوار اس کی اٹھے سر
کو تن سے جدا کردیتی۔ بس کچھ ایسا ہی ہے۔ بادشاہ گئے تو ہم نے غلامی کی
صدیوں پرانی عادت کے تحت اپنے سر جاگیرداروں، سرداروں اور پھر لیڈروں کے
سامنے جھکا دیے۔ بادشاہ اور جاگیردار کی غلامی تو عموماً حالات کے جبر کے
تحت کی جاتی تھی، مگر لیڈروں کو خوشی خوشی غلامی کرنے والی رعایا اور ہر
حکم مان لینے کو تیار مزارع میسر ہیں۔
یہ سیاسی پارٹی سے وفاداری کم اور پیری مریدی کے تماشے زیادہ لگتے ہیں۔
سیاسی لیڈر پیر اور سارے کارکن اس کے مرید، آواز احتجاج کون بلند کرے۔
البتہ کچھ موقع آتے ہیں جب یکایک کسی سیاسی جماعت سے وابستہ افراد کا ضمیر
جاگ اٹھتا ہے اور وہ اختلاف سے بھی آگے بڑھ کر بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
جاوید ہاشمی صاحب کی مثال ہمارے سامنے ہی ہے۔کبھی مسلم لیگ سے ناراضگی کی
بنا ء پر نواز حکومت پر انگلی اٹھائی اور آج عمران خان ان کے نشانہ پر
ہیں۔اور بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ جیسے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد
کی آمد ہو یا صدارتی انتخابات مرحلہ، ایسے مواقع پر منتخب ایوانوں میں
بیٹھے مریدوں کی منڈی لگ جاتی ہے اور اس منڈی میں وفاداریاں بکتی ہیں۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پارٹی پر برا وقت آتے ہی دور اقتدار میں ساتھ رہنے
والے جو وفا کی علامت بنے رہتے ہیں، جھٹ سے دوسری جماعت کے ہوجاتے ہیں۔
لیکن حکومت میں ہوتے ہوئے جب وزارتیں، عہدے، مراعات دان ہوتے ہیں تو کوئی
حکومت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، چاہے جو اصول مرتب کیے جائیں چاہے
جیسی پالیسی تشکیل دی جائے، لیکن گدی اہم ہوتی ہے۔ اور گدی اہم رہے گی کیوں
کہ گدی فکس ہے۔
|